Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اتوار کو ہوگا مہاراشٹر کے۲۸۸؍ نشستو ں کے لیئے چار ہزار سے زائد امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ

by | Oct 17, 2014

ممبئی: (معیشت نیوز)ریاست مہاراشٹر میں گذشتہ دنوں ۲۸۸؍ نشستو ں کے لیئے ہوئے اسمبلی انتخابات میں چار ہزار ایک سو انیس امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی اور بروز اتوار تقریباً صبح گیارہ بجے تک ان کے مکمل نتائج ظاہر ہوجائیں گے لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہیکہ جس طرح سے مسلم علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے اور جو رجحانات سامنے آئے ہیں اس سے ایسا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم نمائندگی گھٹ جائے گی نیز ریاست میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہی مجلس اتحاد المسلمین کے ایک یا دو ممبران اسمبلی کی رکنیت حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہوا تو یہ امیدوار دوسری پوزیشن حاصل کریں گے جبکہ ان حلقوں سے بھگواء سیاسی جماعتوں کے اراکین کی کامیابی متوقع ہے ،بہر حال نتائج کچھ بھی ہوں یہ تو طے ہیکہ اس مرتبہ ہا ر اور جیت کا فیصلہ صرف چند سیکڑوں یا ایک دو ہزار ووٹوں کے درمیان ہی ہوگا ۔
گذشتہ اسمبلی میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسلم نمائندے اسمبلی کے رکن تھے جس میں کانگریس کے پانچ ، این سی پی کے دو ، سماج وادی پارٹی ۲، اور ایک آزاد رکن اسمبلی مفتی اسماعیل شامل ہیں۔
نامور قانون داں و این سی پی کے رکن پارلیمنٹ مجید میمن کا کہنا ہیکہ مسلم علاقوں میں ووٹوں کے تناسب میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن مسلم ووٹوں کی ایک بڑی تعداد میں تقسیم ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں جس سے یقینا فرقہ پرست پارٹیوں کو ہی فائدہ حاصل ہوگا۔انتخابات کے بعد ٹی وی چینلوں نے ایگزٹ پول دکھانا شروع کیا تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو چھو ڑ کر تمام پارٹیوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔اس تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ صرف اندازے ہیں نتیجے نہیں، لیکن مجید میمن نے اعتراف کیا کہ جو رجحانات سامنے آئے ہیں اس سے بی جے پی کو ضرور فائدہ حاصل ہوگا۔مختلف ٹی وی شو میں بحیثیت سیاسی مبصر بحث و مباحثے میں حصہ لینے والے کانگریس کے نوجوان لیڈر سید ذیشان احمد نے بھی اعتراف کیا کہ کانگریس کو اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی جتنی نشستیں ان کے حصہ میں گذشتہ اسمبلی میں تھی ۔سید ذیشان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ این سی پی اور کانگریس کا اتحاد ٹوٹنا اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہے۔انتخابات کے بعد مسلم علاقوں میں نتائج کے تعلق سے مختلف پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں اور ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ اس مرتبہ مسلم نمائندگی نصف ہوکر رہ جائے گی۔
ریاست کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے مسلم نمائندوں کو ٹکٹیں دی تھیں جس میں سب سے زیادہ کانگریس نے مسلم نمائندوں کو انتخابات میں قسمت آزمائی کا موقع فراہم کیا تھا جس کے بعد این سی پی نے کل ۱۷؍ مسلم امیدواروں کو ٹکٹیں دی تھیں۔ایک جانب جہاں کانگریس نے ۱۸؍ مسلم نمائندوں کو اور این سی پی ۱۷؍ مسلم نمائندوں کو ٹکٹیں دی تھیں وہیں شیوسینا نے محض ایک مسلم امیدوار کو موقع فراہم کیا تھا ،اسی طرح سے بی جے پی نے بھی سابق ایم ایل سی پاشا پٹیل کو ٹکٹ دیا تھا ۔جن اہم مسلم لیڈران کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے اس میں سماج وادی پارٹی کے ریاستی صدر ابو عاصم اعظمی،سابق وزیر محمد عارف نسیم خان، مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن کے سابق چیرمین امین پٹیل، سرکاری ہائوسنگ کارپوریشن کے چیرمین ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی، عالم دین مفتی اسماعیل، این سی پی لیڈر نواب ملک، سابق وز راء حسن مشرف، عبدالستار شیخ، الحاج انیس احمد ، سابق ایم ایل سی ایم ایم شیخ ، نامور گلوکار مرحوم محمد رفیع کے فرزند شاہد رفیع اور دیگر شامل ہیں ۔
ان انتخابات کے دوران کسی بھی سیاسی پارٹی نے کسی مسلم خاتون کو شرف نمائندگی نہیں دیا تھا جبکہ سابقہ کانگریس قیادت والی حکومت میں فوزیہ خان ریاستی وزیر تھیں ،توقع تھی کہ مسلم خواتین کو سیاسی پارٹیاں انتخابی اکھاڑے میں اتارے گی لیکن ایک طرح سے انہیں مکمل نظر انداز ہی کردیا گیا ۔
گذشتہ اسمبلی میں کل دس مسلم اراکین شامل تھے جن کے نام اور ان کی جانب سے اسمبلی میں حاصل کیئے گئے ووٹوں کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں۔
۱۔ امین پٹیل کانگریس کل ووٹ 45,286
۲۔ بابا صدیقی کانگریس کل ووٹ 59,659
۳۔ نسیم خان کانگریس کل وو ٹ 82,616
۴۔ ابو عاصم اعظمی سماج وادی کل ووٹ38,435
۵۔ نواب ملک این سی پی کل ووٹ38,928
۶۔ اسلم شیخ کانگریس کل ووٹ 51,635
۷۔ رشید طاہر مومن سماج وادی کل ووٹ 30,825
۸۔ حسن مشرف این سی پی کل ووٹ 1,04,241
۹۔ مفتی محمد اسماعیل جن سوراج شکتی کل ووٹ 71,026
۱۰۔ عبدالستار شیخ کانگریس کل ووٹ 98,131
یکم مئی ۱۹۶۰؁ء کو ریاست کی پہلی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تھا نیز گذشتہ اسمبلی وہ واحد اسمبلی تھی جس میں مسلم نمائندوں کی تعداد محض ۱۰؍ ہی تھی جو کہ گذشتہ کئی اسمبلیوں کے مقابلے میں کم تھی ۔ جن اسمبلی حلقوں سے مسلم نمائندوں کی کامیابی کے آثار نمایاں ہیں اس میں ممبئی کے چاندیولی،ممبا دیوی، باندرہ ، مانخور شیواجی نگر ،بھیونڈی، اورنگ آباد ،مالیگائوں ،اکولہ ،ناگپور ،اور دیگر شامل ہیں۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...