
مہاراشٹر حکومت میں شیو سینا کی شمولیت کا معمہ!
نہال صغیر
مہاراشٹر میں انتخابی نتائج کیا اعلان ہو گیا ۔وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے فڑ نویس نے عہدہ اور رازداری کا حلف بھی لے لیا ہے۔آج 12 نومبر کو اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرلیا ۔ شیو سینا جو کبھی بی جے پی کی حلیف ہو اکرتی تھی اور یہ رفاقت پچیس سال کے عرصہ پر محیط ہے۔لیکن کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتایہ بات مہاراشٹر میں بی جے پی شیو سینا نیز کانگریس اور این سی پی کے اتحاد ٹوٹنے سے ثابت ہو گئی ۔ان چاروں پارٹیوں کا مفاد اتحاد کی راہ میں روکاوٹ تھا۔بہر حال جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔لیکن شیو سینا جو کہ مراٹھی وقار کے سوال پر اپنی سیاست کرتی رہی ہے اس کا رخ واضح نہیں ہو پارہا تھا۔اب جبکہ بی جے پی کی فڑ نویس حکومت نے اعتماد کا ووٹ جیت لیا ہے اس میں شیو سینا اور کانگریس نے مخالفت کی جبکہ این سی پی نے ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہ کر بی جے پی کی مدد کی ۔انتخاب سے قبل تو اس نے ماضی کے اپنے حلیف کو خوب ذلیل و خوار کیا اور اس میں سیاسی اقدار کو بھی پامال کرتے ہوئے مودی کو انتہائی گھٹیا اور غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے طنز کے تیر برسائے جبکہ مودی نے کھلے عام یہ کہا کہ وہ شیو سینا کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے اور انہوں نے واقعی کچھ نہیں بولا۔لیکن انتخابی نتائج نے بی جے پی کو حوصلہ دیا تو وہیں شیو سینا کو حواس باختہ کردیا ۔اب شیو سینا کے سامنے کئی مسائل منھ کھولے کھڑے تھے ان میں ایک اہم مسئلہ اپنے ایم ایل اے کو خرید و فروخت والے معاملے سے محفوظ رکھنا تھا۔لیکن یہ خطرہ تو مستقل ہے اس سے جان بچاپانا ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ یہاں اصول و اقدار کی بات تو تاریخ کا حصہ ہے۔یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب کسی اہم اور بڑی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملتی ہے تو وہ پارٹی حزب مخالف کے ارکان کو توڑنے اور اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے ۔یہ بات اب ہماری سیاست میں معیوب بھی نہیں مانی جاتی ۔غالباً پچھلے تیس سال سے یہ غیر اخلاقی اور غیر جمہوری کام جاری ہے اور اس میں سبھی ملوث ہےں خواہ وہ کانگریس ہو یا اپنے آپ کو اخلاق و اقدار کی پابند پارٹی کہلانے والی بی جے پی ہو ۔اس جوڑ توڑ میں کالی کمائی کا کھل کر استعمال ہوتا ہے ۔چونکہ سبھی پارٹیاں اس میں یکساں ملوث ہیں اس لئے جب بھی کالی کمائی کا معاملہ آتا ہے تو خواہ شور خوب مچایا جائے لیکن ٹھوس عملی اقدام میں ابھی پیچھے رہتے ہیں یا ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔سامنے کی بات ہے کتنی شان سے مودی نے حکومت میں آنے کے لئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ حکومت میں آگئے تو سو دن کے اندر کالی دولت کو ملک میں واپس لائیں گے ۔لیکن دو سو دن پورے ہونے کو ہیں نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
اقتدار کا نشہ اور اس کی لالچ نے دنیا میں بڑے بڑے انقلابات لائے ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو خون کے دریا میںبھی ڈوبویا ہے۔ پھر مہاراشٹر میں تو صرف اخلاق و اقدار کی ہی تو قربانی دینی ہے شاید یہی کچھ سوچ کر ادھو ٹھاکرے بھی اقتدار سے جی لگائے بیٹھے ہیں اور روز نئے مطالبات اور نئے احکامات نافذ کررہے ہیں ۔اسی لئے انہوں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو وہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے ۔اب تو اسمبلی میں ان کی پارٹی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اشارہ دے بھی دیاہے۔ لیکن اب بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کبھی بھی جب بی جے پی خطرہ محسوس کرےگی یا اس کے ایم ایل اے کو توڑنے کی دھمکی دے کر بلیک میل کرسکتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ مراٹھی وقار کے نام پر سیاست کرتے کرتے اپنا وقار ہی بھول گئے ۔یہی سبب ہے کہ وہ لالچ میں دھمکی پر ہی اکتفا کرتے رہے کہ شاید کچھ مل جائے ۔ جبکہ انہیں ایک ٹھوس فیصلہ کرنا چاہئے تھا اسی میں شیوسینا اور انکی خود کی امیج کے بہتر ہونے کی امید تھی۔حالانکہ انکے چچا زاد راج ٹھاکرے کا انجام ان کے سامنے ہے ۔بی جے پی کے نئے منتخب وزیر اعلیٰ فڑنویس یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے قبل وہ شیو سینا کو اقتدار میں شامل نہیں کریں گے ۔اب دیکھتے ہیں کہ شیو سینا اپنی باتوں پر قائم رہتے ہوئے اپوزیشن مین بیٹھتی ہے یا اقتدار کی لالچ میں بی جے پی کے کسی دلکش پیکیج کو قبول کرتے ہوئے اس کے اتحادی بنتے ہیں۔لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیںتو اس سے زیادہ ذلت شیو سینا یا ادھو ٹھاکرے کے لئے اور کیاہو گی۔اگر انہیں کچھ سمجھ ہوتی تو وہ اسی دن سمجھ لیتے جب حلف لینے والے دن وانکھیڈے اسٹڈیم گئے جہاں انہوں نے مودی سے تو ہاتھ ملایا اور مودی نے بھی اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن امیت شاہ نے ادھو کوجان بوجھ کر نظر انداز کیا ۔ایک انگریزی اخبار کے فوٹو گرافر نے تین تصاویر شائع کیں جس میں صاف نظر آرہا ہے کہ ادھو ٹھاکرے امیت شاہ کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں لیکن امیت شاہ نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ۔یہ صاف اشارہ تھا کہ اس وقت امیت شاہ جو کہ بادشاہ گر ہیں انہیں پسند نہیں کرتے یا وہ انہیں بی جے پی سے اتحاد توڑنے یا مودی کو ذلیل کرنے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔اس میں یقنی طور پر مودی کی مرضی بھی شامل ہو گی ۔مودی بڑے ڈپلومیٹک اور گھاگ سیاست داں ثابت ہو رہے ہیں ۔وہ اپنے مخالفین کو بڑے خفیہ طریقے سے راستہ سے ہٹاتے ہیں ۔یہ باتیں ادھو کو اگر سمجھ میں آجائے تو شاید شیو سینا اپنی سیاسی موت سے بچ جائے ۔بی جے پی یا کانگریس دونوں کی منشا ملک میں دو پارٹی سیاست کو فروغ دینا ہے ۔جس سے وقفہ وقفہ سے دونوں کو اقتدار سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا رہے ۔انہیں ملک کے عوام یا ان کی بھلائی اور ملک کی ترقی یا اس کے وقار سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ملک کا وقار عوام کی بھلائی اور جمہوریت کا استحکام چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں سے ہی ممکن ہے ۔ یہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اس میں اہم کردار مسلم قیادت ادا کرسکتی ہے ۔اگر اب بھی وہ کچھ ہوش کے ناخن لے۔