’میٹ انڈسٹری‘ میں بے شمار مواقع ہیں لیکن لوگوں کا رجحان اس طرف نہیں: سراج الدین قریشی

حج کمیٹی کے سابق چیرمین تنویر احمد،ڈاکٹر جے کے جین،دانش ریاض،سراج الدین قریشی اور سہیل لوکھنڈوالا ,معیشت کی جانب سے مومنٹو قبول کرتے ہوئے
حج کمیٹی کے سابق چیرمین تنویر احمد،ڈاکٹر جے کے جین،دانش ریاض،سراج الدین قریشی اور سہیل لوکھنڈوالا ,معیشت کی جانب سے مومنٹو قبول کرتے ہوئے

’معیشت‘ کے چھٹے کل ہند اقلیتی و تجارتی اجلاس میں معروف صنعت کاروں نے اپنے تجربات بیان کیے
معروف شخصیات کے ہاتھوں تنویر احمد کی کتاب ’مضامین نو رنگ‘اور سعید شینگری کی کتاب پریکٹیکل ماڈل آف اسلامک بینکنگ کا اجرا

نئی دہلی: ’’میٹ انڈسٹری ایک ایسی انڈسٹری ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ واقف ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انڈسٹری میں بے شمار مواقع ہیں۔ لیکن افسوسناک امر ہے کہ لوگوں کا رجحان اس جانب بہت کم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی جھجک نہیں کہ اس انڈسٹری میں اس قدر مواقع ہیں کہ جو لوگ اس شعبہ میں قدم آگے بڑھائیں گے وہ کبھی بھوکے نہیں رہیں گے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (آئی آئی سی سی) کے صدر جناب سراج الدین قریشی نے چھٹے کل ہند اقلیتی و تجارتی اجلاس کے دوران کیا۔ جمعہ کی دیر رات تک چلی اس عظیم الشان تقریب کا انعقاد ’معیشت‘ (ممبئی) کی جانب سے کرایا گیا تھا جو کہ اقلیتوں میں اقتصادی و تجارتی بیداری کے لیے اکثر پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔
آئی آئی سی سی، لودی روڈ، نئی دہلی کے وسیع ہال میں جمع بھیڑ سے خطاب کرتے ہوئے سراج الدین قریشی نے میٹ انڈسٹری سے متعلق مختلف گوشوں کو روشناس کرایا اور بتایا کہ کس طرح تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے گوشت کا کاروبار ملک میں چلایا جا رہا ہے۔ میٹ انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں پیش آئی پریشانیوں اور غیر مسلم سیاستدانوں سے ملی مدد کا بھی انھوں نے پروگرام میں تذکرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح ایک نئی سوچ کو انھوں نے پروان چڑھایا۔
پروگرام میں ’مائناریٹیز ایجوکیشن فائونڈیشن‘ کے صدر سہیل لوکھنڈوالا نے اقلیتوں میں تعلیمی رجحان سے متعلق اپنے نظریات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اقلیتوں میں بیداری ضرور بڑھی ہے لیکن اس کا فیصد انتہائی کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیداری پروگرام تو اکثر کرائے جاتے ہیں لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ سہیل لوکھنڈوالا نے ساتھ ہی بتایا کہ تجارتی شعبوں میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا رجحان تو ہے لیکن وہ منظم انداز میں آگے نہیں بڑھتے ہیں جس سے انھیں ناکامی ملتی ہے یا پھر نیم کامیابی۔ پروگرام میں سید ایم قیم (ایگزیکٹیو پریسیڈنٹ، آئی سی سی آئی)، ڈاکٹر جاوید جمیل (اسلامک اسکالر)، سید خالد علی (چیف منیجنگ ڈائریکٹر، ایم ایس آئی ایس)، ڈاکٹر شارق نثار (ڈائریکٹر، ٹی اے ایس آئی ایس)، سید زاہد احمد (ڈائریکٹر، معیشت میڈیا اینڈ ایڈوائزری پارٹسپیٹری فائنانس، بی ایس ایف ایل)، سید عون صفوی (صدر، آئی سی سی آئی) وغیرہ نے بھی حاضرین کو تجارت اور بینکنگ سیکٹر سے متعلق اہم پیچیدہ مسائل کے حل سے متعارف کرایا۔ اس موقع پر ’معیشت‘ کے ڈائریکٹر دانش ریاض نے بھی لوگوں سے اپنے تجربات بیان کیے اور بتایا کہ تجارتی و کاروباری اجلاس منعقد کرانے میں انھیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی وہ اپنی جدوجہد کیونکر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس تقریب میں ’اردو نیوز بیورو‘ (یو این بی) کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر تنویر احمد کی کتاب ’مضامین نو رنگ‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ اسٹیج پر موجود معزز شخصیات نے اُردو زبان میں شائع اس کتاب کا اجراء کیا۔ کتاب کے بارے میں تنویر احمد نے سامعین کو بتایا کہ وہ ایک کمپیوٹر آپریٹر تھے لیکن ’دی سنڈے انڈین‘ میگزین میں انھیں لگاتار کچھ نہ کچھ لکھنے کا موقع دیا جاتا رہا۔ کبھی انٹرویو، کبھی فیچر اور کبھی فیلڈ رپورٹنگ بھی۔ ’مضامین نو رنگ‘ ان سبھی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میری یہ کتاب اُن لوگوں کی صحبت کا نتیجہ ہے جنھوں نے اپنے تجربات سے مجھے فائدہ پہنچایا۔ میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے بہتر سے بہتر لکھنے کی ترغیب دی۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کتاب میں کئی لوگوں کا تعاون میرے ساتھ رہا اس لیے کسی ایک یا دو کا نام لینا اور بقیہ کو چھوڑ دینا بہتر نہیں ہوگا، لیکن میں نے کتاب کے مقدمہ میں ان اہم شخصیات کا تذکرہ ضرور کر دیا ہے جن کے تعاون کے بغیر یہ مرحلہ طے نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘
پروگرام میں صنعت و تجارت میں اہم کارنامہ انجام دینے والی اور اب تک لوگوں کی نظروں سے دور رہنے والی چھ اہم شخصیات کو ’معیشت‘ کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ان میں شاہینہ خان (اسپائر ایجوکیشن)، محمد مستقیم (النفیس گروپ)، سو شل رسپانسبلیٹی،الخیر کریڈٹ سوسائٹی، عرفان عالم (سمّان فائونڈیشن)، ڈاکٹر جے کے جین (چیئرمین، جین ٹی وی گروپ) اور محبوب الحق (میگھالیہ یونیورسٹی) شامل ہیں۔ ساتھ ہی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنے والے زائد از 15 حضرات کو مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ آخر میں ’پینل ڈسکشن‘ اور سوالات و جوابات کا دور چلا جو انتہائی پرمغز اور حوصلہ بخش ثابت ہوا۔ حاضرین کے سوالات نے اسٹیج پر موجود لوگوں کو کافی سوچ سمجھ کر جواب دینے کے لیے مجبور کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *