اقلیتوں میں معاشی بیداری پیدا کرنے کے لیے ’معیشت‘ کی جانب سے بے مثال کل ہند اقلیتی و تجارتی اجلاس منعقد

شاہینہ خان بہترین خاتون تاجر 2014کا ایوارڈ النفیس گروپ کے منیجنگ ڈائرکٹر جناب مستقیم قریشی سے قبول کرتے ہوئے جبکہ ساتھ میں دانش ریاض ،زبیر احمد اور عفان کامل کو بھی دیکھا جاسکتا ہے
شاہینہ خان بہترین خاتون تاجر 2014کا ایوارڈ النفیس گروپ کے منیجنگ ڈائرکٹر جناب مستقیم قریشی سے قبول کرتے ہوئے جبکہ ساتھ میں دانش ریاض ،زبیر احمد اور عفان کامل کو بھی دیکھا جاسکتا ہے

تنویر احمد کی رپورٹ

نئی دہلی،: ’’ہم سیاسی و سماجی بیداری کی تو اکثر باتیں کرتے ہیں لیکن معاشی بیداری کی بات نہیں کرتے۔ اس شعبہ میں اگر مسلمان بیدار ہو گیا تو ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ معاشی بیداری پیدا ہونے کے بعد مسلمان ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن ہم سیاسی و سماجی و اقتصادی طور پر پوری طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس سلسلے میں کوئی دوسرا ہماری مدد کرنے نہیں آئے گا بلکہ خود ہمیں ہی اس ضمن میں سوچنا ہوگا۔ مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا، مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ممبئی کی معروف و مقبول سماجی کارکن جناب سہیل لوکھنڈوالا نے چھٹے کل ہند اقلیتی و تجارتی اجلاس کے دوران کیا۔ جمعہ کی دیر رات تک چلی اس عظیم الشان تقریب کا انعقاد ’معیشت‘ (ممبئی) کی جانب سے کرایا گیا تھا جو کہ اقلیتوں میں اقتصادی و تجارتی بیداری کے لیے اکثر پروگرام منعقد کرتا رہتا ہے۔ اس موقع پر سہیل لوکھنڈ والا نے نہ صرف اقلیتوں میں معاشی بیداری سے متعلق اہم پہلوئوں سے روشناس کرایا بلکہ ’معیشت‘ کی پوری ٹیم خصوصاً میڈیا ڈائریکٹر دانش ریاض کی بھرپور تعریف کی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیا۔ انھوں نے کہا کہ اقلیتوں کے اندر معاشی بیداری پیدا کرنے سے متعلق منعقد اس تقریب میں خود کو میں مہمان نہیں بلکہ میزبان تصور کرتا ہوں اور دانش ریاض کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں جو انتہائی جانفشانی، تندہی اور خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں۔

الخیر کو آپریٹیو کریڈٹ سو سائٹی کے منیجنگ ڈائرکٹر نیر فاطمی معیشت سوشل رپانسبلیٹی ایوارڈ 2014قبول کرتے ہوئے
الخیر کو آپریٹیو کریڈٹ سو سائٹی کے منیجنگ ڈائرکٹر نیر فاطمی معیشت سوشل رپانسبلیٹی ایوارڈ 2014قبول کرتے ہوئے

اس موقع پر انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (آئی آئی سی سی) کے صدر جناب سراج الدین قریشی بھی موجود تھے۔ انھوں نے میٹ انڈسٹری پر سیر حاصل گفتگو کی اور لوگوں کو اس کی حقیقتوں سے روشناس کرایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میٹ انڈسٹری ایک ایسی انڈسٹری ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ واقف ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انڈسٹری میں بے شمار مواقع ہیں۔ لیکن افسوسناک امر ہے کہ لوگوں کا رجحان اس جانب بہت کم ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’گوشت تمام لوگ کھاتے ہیں خواہ وہ کسی دھرم و سماج کے ہوں۔ ہندوستان میں یہ انڈسٹری دن بہ دن ترقی کرتا جا رہا ہے۔‘‘ سراج الدین قریشی نے اس انڈسٹری کے اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے اندر صرف ہندوستان میں ایکسپورٹ کا تقریباً 26000 کروڑ گروتھ ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ 2 لاکھ کروڑ لوگ اس انڈسٹری سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک بھینس کو جب ذبح کیا جاتا ہے تو اس پر تقریباً 100 لوگ کام کرتے ہیں۔ سراج الدین قریشی نے آگے بتایا کہ کس طرح تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے گوشت کا کاروبار ملک میں چلایا جا رہا ہے۔ میٹ انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں پیش آئی پریشانیوں اور غیر مسلم سیاستدانوں سے ملی مدد کا بھی انھوں نے پروگرام میں تذکرہ کیا اور لوگوں کو بتایا کہ کس طرح ایک نئی سوچ کو انھوں نے پروان چڑھایا۔ مسلمانوں میں معاشی بیداری کی کمی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے جناب سراج الدین قریشی نے کہا کہ ہمیں سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بیدار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی انڈسٹری میں اس قدر مواقع میسر ہیں کہ جو بھی اس میں قدم رکھے گا وہ کبھی بھوکا نہیں سوئے گا۔
آئی آئی سی سی، لودی روڈ، نئی دہلی کے وسیع ہال میں جمع بھیڑ سے خطاب کرتے ہوئے حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق صدر جناب تنویر احمد نے اپنا کچھ الگ ہی نظریہ بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اقلیت، خصوصاً مسلمان اقتصادی و معاشی حال میں پیچھے ضرور ہیں لیکن مسلمان کا ہر برادری صنعتی اعتبار سے بہت آگے ہے۔ ہر گھر میں اکثر لوگ کسی نہ کسی چھوٹے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پا رہے ہیں اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ یہ سبھی پروڈکشن سے جڑے ہوئے ہیں، کوئی مارکیٹنگ سے جڑا ہوا نہیں ہے۔‘‘ مثال پیش کرتے ہوئے جناب تنویر احمد نے بتایا کہ ہم ٹیکسٹائل کی بات کریں یا بنکری کی بات کریں، ان سب میں اعلیٰ عہدوں تک مسلمانوں کی پہنچ نہیں ہے۔ اصل فائدے سے مسلمان محروم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مراد آباد میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی صنعتیں ہیں، ان لوگوں کے فروغ کی ضرورت ہے۔ تنویر احمد نے اس موقع پر وزیر اعظم سے مطالبہ بھی کیا کہ ان صنعتی ہاتھوں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت۔ انھوں نے کہا کہ سہارن پور میں فرنیچر بنایا جاتا ہے جو بہت خوبصورت ہوتا ہے، اگر ان کو فروغ دیا جائے تو پھر ہمیں چین سے فرنیچر منگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
امامیہ چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹیو پریسیڈنٹ محمد قیم نے اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کاروبار کے معاملے میں لوگوں کی بیداری قومی سطح پر بہت کم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 65 فیصد نوجوان ہماری طاقت ہیں اور پوری دنیا اس طرف دیکھ رہی ہے اس لیے ہمیں اس خاص طبقہ کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی ٹھوس اور عملی قدم اٹھانا چاہیے۔ ملک کا نوجوان طبقہ اگر بیدار ہوگا، ترقی کرے گا تو ملک کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے نوجوانوں میں ہنر پیدا کرنے کی بات کہی ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے خواتین کو بھی کاروباری دنیا میں آگے آنے کی تلقین کی۔ ملٹی گین کے منیجنگ ڈائریکٹر خالد علی نے بھی مسلمانوں میں معیشت کے تعلق سے بے راہ روی پر افسوس ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم طبقہ بہت ہی نچلے درجے کے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ اظہار فکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم لوگ پین کارڈ نہیں بناتے یا بینک اکائونٹ نہیں کھولتے، اس طرح کا قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں اصل دھارے میں آنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے ’جن دھن یوجنا‘ جیسی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
بہر حال، پروگرام میں ڈاکٹر جاوید جمیل (اسلامک اسکالر)، ڈاکٹر شارق نثار (ڈائریکٹر، ٹی اے ایس آئی ایس)، سید زاہد احمد (ڈائریکٹر، معیشت میڈیا اینڈ ایڈوائزری پارٹسپیٹری فائنانس، بی ایس ایف ایل)، سید عون صفوی (صدر، آئی سی سی آئی) وغیرہ جیسی اہم شخصیتوں نے بھی حاضرین کو تجارت اور بینکنگ سیکٹر سے متعلق اہم پیچیدہ مسائل کے حل سے متعارف کرایا۔ اس موقع پر ’معیشت‘ کے ڈائریکٹر دانش ریاض نے بھی لوگوں سے اپنے تجربات بیان کیے اور بتایا کہ تجارتی و کاروباری اجلاس منعقد کرانے میں انھیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی وہ اپنی جدوجہد کیونکر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پروگرام کے دوران صنعت و تجارت میں اہم کارنامہ انجام دینے والی اور اب تک لوگوں کی نظروں سے دور رہنے والی چھ اہم شخصیات کو ’معیشت‘ کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ان میں شاہینہ خان (اسپائر ایجوکیشن)، محمد مستقیم (النفیس گروپ)، نیر فاطمی (الخیر کریڈٹ سوسائٹی)، عرفان عالم (سمّان فائونڈیشن)، ڈاکٹر جے کے جین (چیئرمین، جین ٹی وی گروپ) اور محبوب الحق (میگھالیہ یونیورسٹی) شامل ہیں۔ ساتھ ہی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنے والے زائد از 15 حضرات کو مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ آخر میں ’پینل ڈسکشن‘ اور سوالات و جوابات کا دور چلا جو انتہائی پرمغز اور حوصلہ بخش ثابت ہوا۔ حاضرین کے سوالات نے اسٹیج پر موجود لوگوں کو کافی سوچ سمجھ کر جواب دینے کے لیے مجبور کر دیا۔
مذکورہ تقریب میں ’اردو نیوز بیورو‘ (یو این بی) کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر تنویر احمد کی کتاب ’مضامین نو رنگ‘ کا اجرا بھی کیا گیا۔ اس کتاب کا اجرا ڈاکٹر شارق نثار (ڈائریکٹر TASIS، سابق فیلو، ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ)، سید عون صفوی (صدر، امامیہ چیمبر آف کامرس اور سی ای او، ویوم نیٹورک لمیٹڈ)، اشتیاق علی (پارٹنر، آربٹ لاء)، محمد مستقیم قریشی (چیئرمین، النفیس گروپ) کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر تنویر احمد نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’میری یہ کتاب اُن لوگوں کی صحبت کا نتیجہ ہے جنھوں نے اپنے تجربات سے مجھے فائدہ پہنچایا، میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے بہتر سے بہتر لکھنے کی ترغیب دی۔ مجھے یہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی اگر میرے دوست و رفقاء میری حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’میں نے ’دی سنڈے انڈین‘ میں جو بھی مضامین، فیچرس اور انٹرویوز کیے، ’مضامین نو رنگ‘ انہی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں خدا بخش لائبریری پر مضمون شامل ہے، تو وقف املاک پر ہو رہے قبضے سے متعلق کی گئی فیلڈ رپورٹنگ بھی موجود ہے۔ خواجہ محمد اکرام الدین اور احمد صفی (معروف جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے صاحبزادے) جیسی اہم شخصیات کے انٹرویوز بھی اس میں شامل ہیں۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *