
اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا شریعت اِکوِٹی فنڈ
ڈاکٹر سید ظفر محمود
ایک محاذ پر ہمارے لئے حال میںاچھی خبر آنا شروع ہوی ہے۔ کئی لوگوں نے انٹر نٹ پر لکھا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے شریعت کی پابندی کرنے والا اِکوِٹی فنڈ قائم کرنا منظور کر لیا ہے۔30 اکتوبر کو میں نے اپنے مضمون میں قارئین کی توجہ دلائی تھی کہ ہمارے ملک کی ملت میں اقتصادی نشاۃ ثانیہ کابھی انقلاب لانا ضروری ہے۔میں نے اس ضمن میں دنیا کے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں اسلامک بینکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ذکر کرتے ہوے تحریر کیا تھا کہ وطن عزیز میں الحمدﷲچنندہ افراد نے اسلامی مالیات کا متبادل فراہم کروائے جانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے‘ مجھے یقین ہے کہ انھیں کی کوششوں میں اﷲ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی اندرونی نقل و حرکت کی شکل میںبرکت دے دی۔ لہٰذااس خبر کی مزید تصدیق و توضیح کی غرض سے میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ویب سائٹ پر گیا۔ وہاں بینک نے ’’ایس بی آئی خبروں میں‘‘ کے تحت خبر لگا رکھی ہے کہ رواں ماہ یعنی دسمبر 2014 میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا شریعت سے مطابقت رکھتا ہوا اسلامک اِکوِٹی فنڈ قائم کرنے جا رہا ہے۔اس کے لئے بینک نے اثاثے کو منظم کرنے (Assets Management)میں مہارت رکھنے والی دنیا کی مشہور ترین تنظیم امُنڈی(Amundi) سے مدد حاصل کی ہے ۔ اس فنڈ کے قیام کے لئے رزرو بینک آف انڈیا اور دیگر سرکاری دفاتر سے ضروری اجازت حاصل کی جا چکی ہے۔در ایں اثناانڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس کے جنرل سکریٹری عبدالرقیب صاحب نے مجھے وہ دستاویز ای میل کیاجو اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اپنے شریعت اکویٹی فنڈ (SBI’s Shariat Equity Fund) کی نوک پلک سے متعلق تیار کیا ہے۔ اس کی بنیاد پر جلد جاری ہونے والے اِکوِٹی فنڈ کے نقوش(Features) اس مضمون میں قارئین کی نذر ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ یکم دسمبر سے اس فنڈ کے آغاز کی تیاری تھی لیکن آخر وقت میں کچھ لوگوں نے نئے مدعے اٹھائے جس کی وجہ سے اس کے چہرے مہرے پر نظر ثانی کی جارہی ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں اس فنڈ کا اعلان ہو جائے گا۔ بہر حال جب یہ اعلان ہو جاتا ہے تو اس سے ملک کے مالی نظام میں اسلامی طرز حیات کے عمل دخل کو فروغ ملے گا۔فی الحال تین پرائویٹ کمپنیوں (گولڈمین سیکس‘ ٹارس اور ٹاٹا) کے میوچول فنڈ میں شرعی متبادل فراہم کیا گیاہے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے لکھا ہے کہ دنیا کے علمائے کرام و شریعت کے محققین نے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کمپنیوں کے شیئروں میں سرمایہ کاری کو قدرے قبول کرنا شروع کر دیا تھا اور تبھی سے شریعت سے مطابقت رکھتے ہوے فنڈ (Shariah-compliant Funds) منظر عام پر آنا شروع ہوے تھے‘ تبھی سے اس صنعت کومستقل فروغ مل رہا ہے اور اب اس میں پختگی و بلاغت آ گئی ہے۔1996 میں دنیا میں ایسے 13 فنڈ تھے‘ 2007 میں 576 اور 2014 میں 1065 فنڈ ہیں۔ ان کے تحت دنیا میںجو سرمایہ ہے اس کی فی الوقت قیمت 56 ارب امریکی ڈالر(US$ 56 billion) ہے۔ اس میدان کے عالمی ایکسپرٹ ارنسٹ ایند ینگ(Ernst and Young) کے مطابق صرف پچھلے مالی سال میںچنندہ اہم بینکوں میں ہی یہ رقم 112 کروڑ ڈالر تھی۔ یہ فنڈ قائم کرنے کے لئے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے حق میں 28 ستمبر2014 کو اسلامک فقہ اکیڈمی ہند کے جنرل سکریڈری مفتی خالد سیف اﷲ رحمانی اور جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم کے مدیر اعلیٰ مفتی شعیب اﷲ خاں نے مشترکہ فتویٰ جاری کر دیا جس کی نقل بینک کے دستاویز میں شامل ہے۔فنڈ میں شامل کئے جانے والے شیئروں کاجائزہ عالمی شریعت مشاورتی بورڈ مستقل لیتا رہے گا اور فنڈ کی رقم صرف ان کمپنیوں میں ہی لگائی جائے گی جن کی شریعت مشاورتی بورڈ سے منظوری ملتی رہے گی۔
ہر چھ ماہ پرعالمی شریعت مشاورتی بورڈ کے ذریعہ معائنہ کیا جائے گا کہ کچھ خلاف شریعت تو نہیں ہو رہا ہے‘ اس معائنہ کی روشنی میںہی بینک کے حق میں فتویٰ کی تجدید ممکن ہو گی۔ جن کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہر حال میں ممنوع ہو گی وہ ہیں اشتہار‘میڈیا‘ کلوننگ (سائنسی آلات کے ذریعہ کسی زندہ شئے جیسی دیگر شئے وجود میں لانے کی کوشش )‘ سود یا بیاج کا کارو بار‘جوا‘ لحم الخنزیر (سور کا گوشت) ‘ فحش نگاری (Pornography)اور تمباکو کا کارو بار کرنے والی کمپنیاں۔ دنیا کی کمپنیوں کے شیئروں میں سرمایہ کاری کا جائزہ لینے والی مشہور تنظیم اسٹینڈرڈ اینڈ پوئر(Standard & Poor)کے ذریعہ معلوم ہواہے کہ3-5 برس کے لئے لگائے گئے سرمایہ پر اسلامک اِکوِٹی فنڈ میں دیگر تمام متبادلوں کے مقابلہ میں تقریباً 18% زیادہ مالی فائدہ ہوتا رہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیف مارکٹنگ آفسر ڈی پی سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ گذشتہ برس بامبے اسٹاک اکسچینج کے شریعت انڈکس(BSE Shariat Index) نے سنسکس (Sensex)کے مقابلہ میں 7-8% بڑھوتی حاصل کی۔جو کمپنیاں شریعت سے مطابقت رکھتی ہیں ان میں سے 30% انفارمیشن ٹکنالوجی کی ہیں‘25% روز مرہ کی ضروریات زندگی سے متعلق‘ 17% صحت سے‘ 9% بجلی وغیرہ جیسی توانائی سے متعلق ہیں۔ ہر سرمایہ کاراس طرح کی تقریباً 25-35 صاف ستھری کمپنیاںچن کر اپنی ترجیحی فہرست(Portfolio)تیار کر سکے گاجبکہ کم از کم سرمایہ کاری ٰ5,000 روپیہ کی ہو گی۔ بمبئی کے ماہر اقتصادیات جناب سید زاہد احمد اور ٹاٹا میوچول فنڈ کے سینئر مینیجر پردیپ گوکھلے نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ شریعت سے مطابقت رکھنے والے تمام اِکوِٹی فنڈوں میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو انکم ٹیکس سے مراعات ملنی چاہئیں۔لیکن میری ادنیٰ رائے میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا فی الوقت پا برکاب ہے اور وہ ہمیں ملک کی مالیات میں ملت کی پسند کی سرمایہ کاری کا متبادل دے رہا ہے تو یہ بہت خوش آئند قدم ہے اور ہمیں کسی بھی دنیاوی عنصر کی بنیاد پر اس کو اپنی طرف سے زیر التوا (Postpone)نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دفعہ یہ ٹھنڈی ہوا کی کھڑکی ہمارے لئے کھل جائے اور ملکی نظام کا حصہ بن جائے پھر ہم اسے سہل الاستعمال (User-friendly)بنانے کے لئے تگ و دو کرتے رہیں گے۔ ویسے بھی ٹیکس میں چھوٹ یا مراعات حاصل کرنے کے لئے یا تو قانون میں تبدیلی ہو یا موجودہ قانون کے تحت ہی وزارت خزانہ سے نوٹیفکیشن جاری ہو۔ اس کے لئے اتنی ہی جد و جہد کرنی ہو گی اور اس میں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے شریعت اِکوِٹی فنڈ اشو کروانے میں لگا ہے۔ ِِشریعت کے مطابق اکویٹی فنڈ اشو کروانے میں لگا ہے۔
شریعت مشاورتی بورڈ (Shariah Advisory Board) مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی رضاکارانہ تنظیم ہے جو دیگر عالمی تنظیموں سے رائے مشورہ کرتی ہے اور اسلامی مالیات سے متعلق مشاورت مہیا کرتی ہے۔بورڈ کے چیرمین الفلاح اسلامک سنٹر کینڈاکے امام ڈاکٹر محمد اقبال مسعود الندوی ہیں۔وہ ندوۃ العلما لکھنو‘بھوپال یونیورسٹی‘ اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ اور اُمّ القراء یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے فارغ التحصیل ہیں اور شاہ سعود یونیورسٹی سعودی عربیہ میں شریعت و فقہ کے استاد رہ چکے ہیں۔بورڈ کے اراکین میں ڈاکٹر حامد سلیمی مراقش و ولایت سے اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور کینڈا کی اماموں کی کائونسل کے چیرمین ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین سبحانی نے کراچی یونیورسٹی اور سعودی عربیہ و کینڈا سے شریعت و فقہ میں تعلیم اور ربا پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ وغیرہ۔ یہ بورڈ اسلامی مالیات و سرمایہ کاری پر آن لائن کلاس چلاتا ہے اور شریعت سے مطابقت رکھنے والے لین دین کے مواقع پر سیمینار وغیرہ منعقدکرتا ہے۔
چند روز قبل کلکتہ میں تقریر کے دوران جب پڑوس میں مسجد سے اذان کی آواز آنی شروع ہوئی توبی جے پی کے صدر جناب امت شاہ نے چار منٹ تک تقریر روک دی اور اذان ختم ہونے پر تقریر مکمل کی۔ وزیر اعظم نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مسلم مخالف بیانات بند کر دئے ہیں اور اس کے بجائے پارلیمنٹ اور میڈیا میں وہ اب سکون بخش باتیں کہتے ہیں۔ وزارت داخلہ سے بیان آیا کہ مدارس میں انتہا پسندی نہیں پائی گئی۔ حالانکہ سادھوی نرنجن جیسے بی جے پی کے چند مسخرے اب بھی لوک سبھا الیکشن سے قبل کی مسلم مخالف قوت رفتار کے اثر میں ہیں لیکن مجموعی طور پر مسلم مخالف زور بازو میں بل کم ہوتے نظر آ رہے ہیںیہاں تک کہ وزیر اعظم نے ہی سادھوی نرنجن کی گرفت کر لی اور سادھوی کو معافی مانگنی پڑی حالانکہ اس کا سہرا ً حسبِ مخالف کو بھی جاتا ہے۔ اس پس منظر میںمیرا خیال ہے کہ جتنے لوگ بھی ہندوستان میں اب شروع ہونے والی اسلامی بینکنگ کی سہولت سے استفادہ کریں اور اس کے تحت بینکوںکے ذریعہ قائم شدہ شریعت سے مطابقت رکھنے والے اِکوِٹی یا میوچول و دیگر فنڈوں میں حصہ لیں وہ ملک گیر سطح پر اپنے کو آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ کے رکھیں اور اس کے توسط سے اپنی ایک جماعت تیار کر لیں۔ اس جماعت کا استعمال ملک کی پالیسی پر ملت کے حق میںگاہے بگاہے دبائو ڈالنے کے لئے پریشر گروپPressure group) کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔