’’میڈیا پر لگام کے لئے مودی حکومت تیسرا پریس کونسل قائم کرے‘‘

دائیں سے: رام بہادر رائے، انل پانڈے،دلیپ سی منڈل اور دانش ریاض
دائیں سے: رام بہادر رائے، انل پانڈے،دلیپ سی منڈل اور دانش ریاض

مائیناریٹی میڈیا کونکلیو میں بزرگ صحافی رام بہادر رائےکا مطالبہ،سینئر صحافیوں نے میڈیا میں بہتری کے لئے سلجھے ہوئے لوگوں کو آگے آنے کا مشورہ دیا
عفان احمد کامل کی رپورٹ
نئ دہلی:۲۵جون ۲۰۰۲کو اٹل بہاری واجپئی نے میڈیا میں۲۶فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے کر جوایمر جنسی لگائی ہے شاید اس کا خاتمہ خونی کرانتی کے بعد ہی ہو کیونکہ آج ہندوستانی میڈیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری۱۰۰ فیصد ہے۔جس کے ثبوت بھی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معیشت کی جانب سے کونسٹی ٹیوشن کلب ،نئی دہلی میں مائیناریٹی میڈیا کونکلیوکو خطاب کرتے ہوئے بزرگ صحافی رام بہادر رائے نے کیا۔‘‘سویدیشی موومنٹ کے حامی ماہنامہ یتھاوت کے مدیررائے نے کہا کہ جب مکیش امبانی،انل امبانی،سمیر جین،ابھیک سرکار،سنجے گپت،جیسے لوگ مدیر و مالک بنے رہیں گے اور میڈیا کے مغل بھی تو اس میڈیا میں جمہوریت کہاں سے رہے گی،جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہ خواب و خیال میں جیتے ہیں۔لہذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ میڈیا میں ہو کیا رہا ہےاور ایسی بھی بات نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ چھپا ہوا ہو۔TRIنے،حیدر آباد کے ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج نے ، جب کہ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ رائو اندرجیت سنگھ جو نریندر مودی کی سرکار میں وزیر ہیںانہوں نے بھی رپورٹ دی ہے لہذا ہمیں اپنی آواز اٹھانی چاہئےکیونکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا میں جمہوریت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے تیسرا پریس کونسل بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میڈیا کی جانچ نہ ہو حالات میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ معیشت کی جانب سے منعقدہ یہ پروگرام دو پینل ڈسکشن اور ڈاکٹر ظفر محمود کے پاور پرزنٹیشن پر مشتمل تھا۔پروگرام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے معیشت کے ڈائرکٹر دانش ریاض نے کہا کہ ’’غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں میڈیا بے لگام ہوگیا ہے جبکہ میڈیا کی وجہ سے ہندوستان میں آپسی میل جول کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے گفت و شنید کا ماحول پیدا کیا جائے وہیں بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چھوٹے میڈیا ہاوسیز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور مجبورو مقہور کی متحدہ آواز بنائی جائے‘‘دانش ریاض کے مطابق ’’جب ممبئی میں ماحول کو خراب کرنے اور آزاد میدان میں میڈیا پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو معیشت کے پلیٹ فارم نے اس بات کی کوشش کی تھی کہ لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرایا جائےلہذا ہم نے ڈائیلاگ بٹون میڈیا اینڈ مسلمس کا انعقاد کیا تھا‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ہم ڈائیلاگ کے سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور موجودہ کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘‘۔

دائیں سے: اقبال احمد، اعجاز اسلم،مینک سنگھ،عبد السلام عاصم اور قاسم سید
دائیں سے: اقبال احمد، اعجاز اسلم،مینک سنگھ،عبد السلام عاصم اور قاسم سید

انڈیا ٹوڈے( ہندی)کےسابق منیجنگ ایڈیٹردلیپ سی منڈل نے متبادل میڈیا : تقاضے اور چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ حکومت اقلیتوں کے ووٹ سے نہیں بنی ہےجس کی وجہ سے انہیں اقلیتوں کی پرواہ بھی نہیں ہے جبکہ برہمنوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجومذہبی اقلیتوں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ سیکولرزم کا نعرہ بی جے پی کے لئے کبھی پریشانی کا باعث نہیں رہا کیونکہ انہوں نے اس کا ترجمہ مسلمانوں کی منھ بھرائی سے کردیا ہے جسے بڑی اکثریت تسلیم کرنے لگی ہے‘‘۔انہوں نے مسلم انٹلی جنسیاکو صورتحال کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان بتدریج پارلیمنٹ،اسمبلی،سرکاری نوکری میں کم ہوتے جارہے ہیں لیکن مسلمانوں کا ذہین طبقہ اس طرف توجہ نہیں دے رہا ہے اورنہ ہی ان ایشوز پر کوئی گفتگو کر رہا ہے کمیونیٹی میں کیا ہورہا ہے مجھے اس کی خبر نہیں لیکن بنگال میں سیکولر حکومت نے۳۲ سال کے اندر مسلمانوں کو جس طرح عملی دنیا سے بے دخل کر دیاہے اس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی‘‘۔ انہوں نے اقلیتی میڈیا کے تصور کو نئی سوچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم میڈیا ان ایشوز پر بحث کرے جس کا مسلمان شکار ہو رہے ہیں‘‘۔
دہلی جرنلسٹ اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری انل پانڈے نے متبادل میڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’سوشل میڈیا کے ساتھ متبادل میڈیا اب پاورفل ہوتا جارہا ہے۔بھوپال سے نکلنے والارسالہ ’’بال کی کھال‘‘کی مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی دس ہزار کاپیاں چھپتی ہیں جبکہ اس کے مدیر سریش ایک موچی ہیں جو دن بھر جوتا بناتے ہیں۔اسی طرح ’’خبر لہریا ‘‘ہے جو بندیل کھنڈ سے نکلتا ہےجسے چار خواتین مل کر نکال رہی ہیں۔ان کی خبریں مین اسٹریم میڈیا کا حصہ بنتی ہیں اور لوگ سنجیدگی سے ان کی خبروں پر توجہ دیتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’سوشل میڈیا اور متبادل میڈیا اب مین اسٹریم میڈیا پر اثر انداز ہونے لگا ہے اور لوگوں کو اپنی آواز پہنچانے کا آسان ذریعہ میسر آیا ہے‘‘۔
علاقائی زبانوں کے اخبارات اور مین اسٹریم میڈیا کے مابین دوریوں کو کم کرنےسے متعلق ہوئے پینل ڈسکشن میں بی بی سی ہندی کے سینئرنامہ نگاراقبال احمد نے کہا کہ ’’میڈیا کے ذمہ داران کو آپس میں ملانے کی کوشش بڑی ہی بہتر کوشش ہے اور اسی کے ذریعہ بہت کچھ بہتر ہوگا اور نئی راہیں نکلیںگیں ‘‘البتہ انہوں نے بی بی سی کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’چونکہ برطانیہ کی معیشت خطرے میں ہے لہذامیڈیا پر بھی اس کے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہمارے آپریشنس کم ہوگئے ہیں‘‘۔یو این آئی کے سینئر ایڈیٹر عبد السلام عاصم نے کہا کہ ’’دراصل ہمیں بندھے بندھائے خول سے باہر نکلنا چاہئے اور نئی سوچ و فکر کے ساتھ کام کرنا چاہئے‘‘۔انہوں نے تکنیکی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے یہاں پہلے ٹرینڈ جرنلسٹ نہیں تھے لیکن اب موجود ہیں لہذا حالات میں بھی بہتری آئی ہے‘‘۔نیوز بنچ کے سینئر صحافی مینک سنگھ نے تحریر و رپورٹنگ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ جسے الف بے کا بھی علم نہیں وہ ماہر بن کر میڈیا میں گھومنے لگا ہے جس کی وجہ سے بھی میڈیا کی شبیہ خراب ہوئی ہے ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کو میڈیا کا حصہ بنایا جائے جو کم از کم علم و ہنر والے ہوں‘‘۔روزنامہ اردو خبریں کے چیف ایڈیٹر قاسم سید نے کہا کہ ’’ہمارے یہاں اشتہارات دینے اور میڈیا کو مضبوط کرنے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا یہی وجہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا بھی ہماری آواز کو دبا دیتی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ ایک اخبار کے لئے لوگ دو روپیہ بھی خرچ کرنا نہیں چاہتے لہذاہم بہتری کی امید کیسے کر سکتے ہیں‘‘۔ریڈینس کے ایڈیٹر اعجاز اسلم نے ملک میں بڑھتی فرقہ واریت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’امن و امان کی صورت اسی وقت پیدا ہوگی جب انصاف کا بول بالا ہو بد قسمتی سے انصاف کو ہی کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیا کے افراد اگر انصاف کا دامن تھام لیں اور امن و آشتی کا ساتھ دیں تو یقیناً صورتحال میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پروگرام کے درمیان پشاور میں دہشت گردوکے ذریعہ مارے گئے بچوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *