وہ مردِ درویش: سید حامد

سید حامد ؒ کی کتاب کا اجرا کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری(فائل فوٹو)
سید حامد ؒ کی کتاب کا اجرا کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری(فائل فوٹو)

ڈاکٹر سید ظفر محمود

گذرے ہوے کل سول سروس امتحان کا پرچہ دینے کے بعد آج عید تھی لیکن آنے والے کل کو سول سروس کا اگلا پرچہ تھا۔ہم لوگ(علی گڑھ سے آئے ہوے سول سروس کے امیدوار) پیدل گئے پارلیمنٹ اسٹریٹ کی جامعہ مسجد ‘ عید کی نماز ادا کر کے واپس آکر پڑھائی میں لگ گئے یہ سوچتے ہوے کہ چلو کم از کم اﷲنے آلو کی سبزی کا انتظام تو آج پھر کر ہی دیا ہے۔ اچانک دیکھا تو وہ پرانے ماڈل کی اپنی فیٹ کار چلاتے ہوے پھاٹک میں داخل ہوے ‘ ان کے دونوں بچوں کے ہاتھ میں ایک ایک بڑا سا ڈونگاتھا اور تیسرا بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں۔ وہ ہمارے لئے گھر کی بنی ہوی سوئیاں‘ کباب اور بریانی لے کر آئے تھے ‘ہم سے عید ملے ‘ امتحان کی تیاری کے بارے میں ہم سے دیر تک گفتگو کی جبکہ ان کے گھر پر یقینا دوست احباب اور ملنے والے منتظر رہے ہوں گے۔ انھوں نے صرف ہمیں اُس دن عید کی خوشی نہیں دی بلکہ پوری عمر کے لئے ہمیں اعلیٰ اخلاقیات اور ملت سے لگائو برقرار رکھنے کی تعلیم بھی دی۔ یہ تھے اُس وقت کے حکومت ہند کے سکریٹری جناب سید حامد‘ اعلیٰ اقدار کے علمبردار‘ مالک مطلق کے لئے درد پہلو کے طلبگار۔ یقینا دنیا میں ان کے کارنامے کافی ہیں جنت میں ان کے والدین کو بھی تاج پہنائے جانے کے لئے۔ میں نے انھیں سے سیکھا کہ کسی سے بھی کبھی بھی ملاقات پر پھرتی سے لیکن احترام کے ساتھ سلام میں پہل مجھے ہی کرنی ہے‘ وہ میرے ساتھ شروع سے ایسا ہی کرتے رہے حالانکہ اس وقت وہ عمر میں مجھ سے دوگنے تھے اورعلم و عہدے میں کئی گنے۔بعد میں مجھ پر عقدہ کھلا کہ وہ تو وہی کر رہے تھے جس کی ہدایت ہادی برحق ؐ نے تمام انسانیت کو دی ہے۔ آگے کے برسوں میں جب بھی میں اور میری اہلیہ ڈاکٹر ناظرہ محمودان سے اور بیگم ثریا حامد سے ملاقات کے بعد ان کے دولتکدے سے باہر آتے تو ہمیشہ ہم پشیمان ہوتے کیونکہ وہ ہمیں باہر تک پہنچانے ہی نہیں آتے بلکہ ناظرہ کے لئے کار کا دروازہ بھی ضرور کھولتے تھے۔ ان کے ہمراہ سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ اجنبی عورتوں سے بھی وہ بہت زیادہ احترام کے ساتھ پیش آتے۔ بیگم حامد کو انھوں نے ہمیشہ اپنے لئے خدا کا تحفہ سمجھا اور انھیں بہترین رواداری ‘قدر دانی اور توقیر و تکریم سے نوازا۔وہ انھیں اپنے برابرکا کارآمد دوست سمجھتے تھے نہ کہ عام ہندوستانیوں کی طرح ماتحت یا فرمانبردار۔

1981-1984 کے دوران محکمہ انکم ٹیکس علی گڑھ میں میرس روڈ پر میرا دفتر و رہائش گاہ ہوتے تھے‘ اُس وقت حامد صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ بیگم حامد نے وی سی لاج کے دروازے کھول دئے اور اس میں اپنی ذاتی دیکھ ریکھ میںایک دار الاطفال (Creche)قائم کر دیا۔ میرے بڑے بیٹے کاشف تین برس سے کم عمر کے تھے ‘ وہ روز وہاں جاتے تھے اوراس طرح انھیں اس وقت کی اعلیٰ ترین تربیت حاصل ہوی۔اس سے زیادہ یو نیورسٹی میں حامد صاحب کے رول سے متعلق میری ان سے گفتگو کی گنجائش نہیں تھی حالانکہ وہ اور بیگم صاحبہ غریب خانے پر بھی تشریف لاتے تھے۔لیکن میں تو ماضی قریب میں ہی دانشگاہ علی گڑھ سے طالب علمانہ استفادہ کر چکا تھا اور لکچرر بھی تھا تو میرے ہم عصروں کے ذریعہ معلوم ہوتا رہتا تھا کہ سید حامد صاحب وہاں کیا انقلابی کاروائی کر رہے ہیں۔ عمدہ قسم کی ہاکی ٹیم کے انتخاب کے لئے انھوں نے اس کھیل کے ماہر افسوں گر دھیان چند کو مدعو کیا۔کانفرنسوں میں شمولیت کی غرض سے ملک بھر سے و بیرون ملک سے جو دعوت نامے آتے تھے وہ رسمی طورپر صدر شعبہ کو بھیجنے کے بجائے اب رجسٹرار کی طرف سے یونیورسٹی کے نوٹس بورڈوں پر لگائے جانے لگے اور جمع ہونے والے پیپر بیرون یونیورسٹی ایکسپرٹ لوگوں کو بھیج کر طے کرایا جانے لگاکہ کون سا پیپرسب سے زیادہ قابلیت پر مبنی ہے ‘اور اسی کے مصنف استاذ یا محقق کو کانفرنس میں شرکت کے لئے اسپانسر کر دیا جانے لگا۔ کثیر تعداد میںیونیورسٹی کے اساتذہ برسوں سے بیرون ملک ملازمت کر رہے تھے لیکن ان کی پوسٹ یہاں ان کے لئے خالی تھی جس کی وجہ سے تعلیمی معیارمجروح ہو رہا تھا‘ ان سب اساتذہ کو نوٹس دیا گیا کہ فلاں تاریخ تک واپس آکر علی گڑھ میں اپنا تدریسی کام سنبھالیں ورنہ ان کی پوسٹ خالی مانی جائے گی۔ کچھ جلد واپس آگئے کچھ کی پوسٹ پر دیگر اشخاص کا تعین ہو گیا۔ جو طلبا عرصہ دراز سے ہوسٹل میں رہ کر اپنی سینیارٹی بیجا طور پر بڑھاتے جا رہے تھے ان کا داخلہ منقطع کر دیا گیا۔ یونیورسٹی کے کاموں کے ٹھیکے لینا اب مفادات کے حامل چنندہ افراد تک محدود نہیں رہ گیا۔

اس طرح کے اصلاحی اقدامات کی فہرست طویل ہے۔ اب یونیورسٹی میں اہلیت اور قابلیت کا بول بالا ہو نے لگاتھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور تدریس و مطالعہ کے میدانوں میں جفاکشی کو اہمیت ملنے لگی۔در ایں اثنا سید صاحب کو غرضدار وں کے غصہ کا شکار ہونا پڑا ‘ لیکن انھوں نے طویل مدتی ملی مفاد کو قلیل مدتی ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔وہ چاہتے تو اس وقت اور بعد کے اس طرح کے لوگوں کے اچھے بن کر اورحکومت میں اپنے اثر رسوخ کا استعمال کرکے متعددصوبوں کے گورنر بنے رہتے اور راج بھونوں میں رہ کر افتتاحی فیتے کاٹتے ہوے بقیہ زندگی آرام و آسائش میں گذار دیتے لیکن انھوں نے طے کر لیا تھا کہ قصر سلطانی کے گنبد پر ان کا نشیمن نہیں ہے اور انھیں زندگی پہاڑوں کی چٹانوں پر بسرکرنی ہے‘ انھوں نے اپنی خودی کا مقام فاش تر کر لیا۔ انھیں بخشے ہوے فردوس نہیں جنچے تھے ‘انھیں احساس تھا کہ ان کی جنت ان کے خون جگر میں پنہا ہے‘ اور کیوں نہیں ‘ ان کے پیکر گِل نے اپنی کوشش پیہم کی جزا دیکھ ہی لی۔ انھوں نے سورہ العصر (103.1-3) میں دئے گئے اﷲ کے پیغام کو عملی جامہ پہنا دیاجہاں کہا گیا ہے کہ انسان خسارہ میں ہے بجز اس کے کہ وہ ایمان لائے اور اعمال صالح کرے‘ انھوں نے ملت کے لئے کن اعمال صالح کی ضرورت ہے اس کی صحیح نشاندہی اورعکاسی کردی۔

مسلمانان ہند کے لئے وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سینئر ترین رکن کی حیثیت سے ان کا رول افلاطون کے فلسفی بادشاہ جیسا تھا۔ ہر میٹنگ سے قبل اور اس کے بعد وہ دہلی کی پارلیمنٹ اسٹریٹ پر کمیٹی کے دفتر میں آکر میرے کمرے میں سوفے پر بیٹھ کر دیر تک سنجیدہ گفتگوکرتے تھے کہ ملک میںمسلمانوں کی صورت حال کی صحیح تقویم و تشخیص کس طرح کی جائے اور ملی پریشانیوں کے ازالے کے لئے کیا کیا سفارشیں کی جائیں۔ بورڈ روم میں جانے پر وہ میٹنگ میں زیادہ تر خاموش رہ کر گہرے غور و خوض سے گفتگو سنتے رہتے تھے لیکن بوقت ضرورت ملت کے حق کا مدلل احساس اراکین کو اپنی مخصوص لسانی فصاحت سے بھرپور ہلکی آواز میں دلوا دیتے تھے ‘ ساتھ ہی وہ روحانی پاکیزگی ‘ نفاستِ قلب‘بلندیِ تخیل اور لطافتِ ذوق کی مکمل پاسداری کرتے تھے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ میں متعدد اہم سفارشیں سید صاحب کی اُن مدبرانہ تحریری تجاویز کی مرہون منت ہیںجنھیں وہ جسٹس سچر کو پیش کرتے تھے اور جنھیں سچر صاحب اراکین کے مابین گردش اور پھر رپورٹ میں شمولیت کے لئے منظور کر لیتے تھے۔ملت کے کھوئے ہوے حقوق کی بازیابی کا مقام سید صاحب کے قلب سلیم کا محور تھا‘حتیٰ کہ اس کے حصول کے لئے انھیں کسی نادان بے بہرہ جونیر کے ہاتھوںذاتی فضیحت بھی منظور تھی۔

ان کی اردو میں چشمہ شیریں کا زیر و بم تھا ‘ شبنم کا رخت نم تھا ‘ موتی کی آب تھی‘ گل کی مہک تھی ۔ ان کی انگریزی سجیلی تھی‘ ان کا انداز دلفریب تھا۔وہ بغیر تیاری کے کبھی تقریر نہیں کرتے تھے ‘ ان کی گفتگو تحقیق شدہ مغز کا مظہر ہوتی تھی ‘ ان کے سامنے الفاظ رقص کرتے تھے۔ ان کی تحریریں اور مقالے کئی پہلوئوں سے سبق آموز ہوتے تھے۔ ان کی حیات کا خلاصہ علامہ اقبال بہت پہلے کر گئے ہیں:
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونٹی سلطاں کی درگاہ
خدا انھیں اور بیگم حامد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور خدا کرے کہ خلیل اﷲ کے دریا میں اسی طرح کے اور بھی گہر پیدا ہوتے رہیں‘ آمین۔ خدا کرے کی سرسید ؒ کی طرح ان کی ِحیات کو بھی ہم صرف سالانہ ڈنر تک محدود نہ کر دیں۔آیئے حامد صاحب کے کارناموں اور ان کی شخصیت سے سبق لیںاور اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور ہم خود بھی کرنا شروع کر دیں۔ مشہور حدیث ہے کہ حضور ؐ سے پوچھاگیا کہ جب دو افراد ملیں تو سلام میں پہل کس کو کرنی چاہئے‘ ارشاد ہوا: جو اﷲکے زیادہ قریب ہو اسے۔ یعنی جو پہل کرے گا اسے اﷲاپنے زیادہ قریب مانے گا۔گھر میں اور سماج میں ہم صدق دل سے خواتین کو وہ مقام دینے لگیں جو ان کا دینی حق ہے۔ آج ہمیں ملت کے نوجوانوں کی ایسی مدد کرنی ہے کہ وہ مقابلے میں کامیاب ہو کر ایوان حکومت میں بااختیار ہو جائیں۔ملت کے حق میں عملی میدان میں آیئے ہم ’’ہم‘‘ کے ساتھ ’’میں‘‘ کو نہ بھولیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *