اب بی جے پی گن گنائے گی ‘’’تو ہے میری كرن‘‘

کرن بیدی؛تصویر بہ شکریہ ای ٹی
کرن بیدی؛تصویر بہ شکریہ ای ٹی

تحریر: رویش کمار، سینئر اینکراین ڈی ٹی وی
ترجمہ :اشرف علی بستوی

گوگل ہماری عوامی زندگی کا سب سے بہترین پہریدار ہو سکتا ہے. جیسے ہی یہ اعلان ہوا کہ کرن بیدی بی جے پی میں شامل ہونے جا رہی ہیں، 28 اگست 2013 کو شائع ان کے ایک بیان پر نظر پڑتی ہے. عام آدمی پارٹی نے کرن بیدی کو اسمبلی الیکشن کا ٹکٹ دینے اور وزیر اعلی کا امیدوار بنانے جانے کی ان کے سامنےتجویز پیش کی تھی .جسے ٹھكراتے ہوئے کرن بیدی نے کہا تھا کہ میں ایسی پیشکش کا احترام کرتی ہوں. مکمل طور پر ان امکانات کو بھی سمجھتی ہوں جس کی وجہ سے مجھے پیشکش ہو رہی ہے لیکن میں اسے نامنظور کرتی ہوں کیونکہ میں غیر سیاسی شخصیت ہوں. کرن بیدی نے یہ بات بذریعہ ای میل فرسٹ پوسٹ سے کہی تھی.
آج 15 جنوری 2015 ہے. کرن بیدی سیاسی شخصیت بن چکی ہیں. یہ تبدیلی کیسے آئی اس کا جواب ان کے بیانات سے زیادہ بی جے پی کے سیاسی امکانات سے ملے گا جس کی وہ آج رکن بنی ہیں. 22 نومبر 2014 کو کرن بیدی کا ایک اور بیان گوگل سے نکلتا ہے. جس میں وہ کہتی ہیں کہ قیاس آرائی چلتی رہے گی. میں عوامی شخصیت تو ہوں لیکن سیاسی نہیں. عوامی اور سیاسی ہونے میں فرق ہے. میں بی جے پی میں شامل ہونے کی تمام خبروں سے انکار کرتی ہوں. میں نے کب کہا کہ کسی پارٹی کی رکن بن جاؤں گی. میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں بی جے پی کی رکنیت اختیار کروں گی .
گوگل سے یہ اور اس طرح ایسے بیانات نکال کر ٹويٹر پر کرن بیدی کو کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے حامی انہیں گھیررہے ہیں. اروند کیجریوال نے کرن بیدی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا کہ سیاست میں آئیے اور آج وہ سیاست میں آ گئیں ہیں.عام آدمی پارٹی نے بھی ان کا خیر مقدم کیا ہے. کسی بھی شخص کے پاس کسی بھی پارٹی میں کبھی بھی شامل ہونے کے حق میں ہزار دلائل ہوتے ہیں. ملک کی خدمت سے لے کر نظریات اور شخصیت سے متاثر ہونے کے دلائل کا ایک فارمیٹ ہماری عوامی زندگی میں تیار رہتا ہے.لیکن بی جے پی نے اپنے پاس دستیاب متبادل میں سب سے بہتر متبادل منتخب کیا ہے. عام بول چال کی بھاشا میں اسے ترپ کا پتہ چلنا کہتے ہیں. یہ کامیابی بی جے پی کی بھی ہے کہ اس نے کرن بیدی کو تیار کر لیا.
2014 کے انتخابات کی طرح اب کوئی ویسےحالات بھی نہیں ہیں جس سے ملک کو مشکل دور سے نکالنے کے نام پر کانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ جوق در جوق بی جے پی میں آ گئے تھے .
کرن بیدی تب بھی بی جے پی میں نہیں آئیں تھیں. ہاں ٹويٹر پر وزیر اعظم مودی کی تعریف ضرور کرتی تھیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں. اروند کیجریوال پر بھی کبھی انفرادی حملہ نہیں کیا. اس معاملے میں انہوں نے کبھی بھی شاذيہ علمی کی طرح نہیں کہا کہ وہ عام آدمی پارٹی کے خلاف انکشافات کرنے والی ہیں. ویسے ان دونوں لیڈروں سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ حق اطلاعات، پارٹی فنڈ اور لوک پال کے معاملے میں ان کی رائے اب بھی اپنی ہے، یا وہی ہے ،جو بی جے پی کی ہوگی. کانگریس اور بی جے پی نے اپنے پیسے کا حساب آر ٹی آئی کے ذریعہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ تو انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کو اپنی رپورٹ سونپتے ہی ہیں. کیا اب بھی کوئی لوک سبھا جیسی صورتحال ہے جس سے نکالنے کے لئے کرن بیدی بی جے پی میں آ گئیں ہیں؟
کرن بیدی طرح طرح سے اس کی صفائی دیں گی لیکن بی جے پی نے کرن بیدی کے سہارے اروند کیجریوال کو مضبوط طریقے سے چیلنج کیا ہے. دراصل بی جے پی یہی کرتی ہے. جب کیجریوال اپنے انکشافات سے بی جے پی کو لیڈر بدلنے پر مجبور کر دیتے ہیں تب بی جے پی ان کی شبیہ والا کوئی لیڈر لے آتی ہے. پچھلی بار وجے گوئل کو ہٹا کر هرش وردھن کو لے آئی. اس سے کیجریوال کی حکومت بنتے بنتے رہ گئی اور بی جے پی بھی برابری پر آ گئی. اس بار جب 15 جنوری کا دن بی جے پی کے ریاستی صدر ستیش اپادھیائے پر لگے الزامات اور اس کے جوابات دینے میں گزرتا بی جے پی نے انتہائی چابک دستی سے کرن بیدی کو اتار کر اپادھیائے پر لگے الزامات کی سیاست کی ہوا نکال دی. یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر ہرش وردھن گزشتہ ایک برس میں ایماندار شبیہ اور پولیو کے ہیرو کی تصویر سے کہیں دور چلے گئے ہیں. وہ اب وزیر صحت بھی نہیں ہے جس کے لئے ان کی تعریف ہوتی تھی.
کرن بیدی کے آتے ہی بی جے پی کی حکمت عملی گزشتہ ایک سال میں پہلی بار بدلی ہے. لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے اسمبلی کا ہر انتخاب وزیراعظم مودی کے نام اور چہرے ہی لڑا اور جیت بھی حاصل کی . بی جے پی کے لیڈر کہتے رہے کہ سبھی ریاستوں میں بھی مودی کی حکومت بنے گی. وزیر اعلی کون ہوگا عوام نہیں مودی منتخب کریں گے یا پارٹی منتخب کرے گی.
کیا دہلی میں کرن بیدی کے آنے سے بی جے پی یہ حکمت عملی تبدیل کر رہی ہے؟ کیا بی جے پی کرن بیدی کو اروند کیجریوال کے سامنے وزیر اعلی کا امیدوار اتارے گی؟ ہر سروے میں ذاتی طور پر کیجریوال کو کافی برتری حاصل تھی. اب سروے کے ہر دور میں دو لیڈر آمنے سامنے ہوں گے. اس میں کانگریس کے اجے ماکن بھی ہوں گے لیکن ان کی حالت کو لے کر زیادہ قیاس آرائی کرنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی.پوری دہلی میں آویزاں بی جے پی کے تمام پوسٹروں پر دہلی کے کسی بی جے پی رہنما کی بھی تصویر نہیں ہے. ہر نعرے اور وعدے کے ساتھ صرف وزیر اعظم نریندر مودی ہیں. تو کیا اس بار دہلی کے پوسٹروں میں بھی تبدیلی ہو گی. نریندر مودی کی جگہ یا ان کے ساتھ ساتھ کرن بیدی پوسٹروں میں ہوں گی. بی جے پی کی یہ طے حکمت عملی ہے. لوک سبھا سے لے کر ہر جگہ وہ اپنے مخالف پارٹی کے لیڈر، امیدوار اور اس سے وابستہ چہرے کو شامل کرا لیتی ہے. وہ کئی مقامات پر اپنی طاقت، مخالف کی طاقت کو ملا کر بڑھا لیتی ہے. یعنی اپنے پاس لیڈر نہیں ہیں تو ان کے لیڈر کو اپنا بنا لو.
اب بی جے پی کی طرف سے بھی انا تحریک سے نکلی ٹیم عام آدمی پارٹی کا مقابلہ کرے گی. پرانے لیڈر صرف چناو لڑوائیں گے. شاذيہ علمی، ونود کماربنني، اپادھیائے بی جے پی کی طرف سے محاذ سنبھالیں گے.
بی جے پی میں عام آدمی پارٹی سے کچھ اور رہنما بھی آ گئے تو کیا تعجب. تازہ ترین اطلاع ہے کہ ممتا بنرجی حکومت کے ایک وزیر بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں . لیکن یہ سب کرنے کا موقع سبھی پارٹیوں کے پاس موجود رہتا ہے اور سب نے ایسا کیا بھی ہے.
بی جے پی کو دہلی کے لئے صاف ستھری شبیہ کا ایک چہرہ مل گیا ہے. کرن بیدی پر بھی کوئی داغ نہیں ہے. انا تحریک کے وقت اروند کیجریوال کی طرح کرن بیدی پر بھی الزام لگے تھے. ایک این جی او نے الزام لگایا تھا کہ وہ بزنس کلاس کے ٹکٹ لے کر اكونومی کلاس میں سفر کرتی ہیں. اس طرح کے الزامات سے انا تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی . اس سے زیادہ کرن بیدی پر کوئی سنگین الزام تو نہیں ہے. ہاں انہوں نے آر ٹی آئی قانون کے تناظر میں بی جے پی کی تنقید بھی کی تھی،اور فسادات کو لے کر وزیر اعظم مودی پر سوال داغے تھے.
یہ دہلی کے ووٹروں کا بھی امتحان ہےکہ وہ کسے منتخب کرتے ہیں. ایک طرف اروند کیجریوال ہیں جو لوگوں کے درمیان ہیں. اپنی غلطی کے لئے معافی مانگ رہے ہیں. جلسے کر رہے ہیں. دوسری طرف الیکشن سے پندرہ بیس دن پہلے آئیں کرن بیدی ہیں. وہ انتخابی سیاست میں نہیں رہیں ہیں ، لیکن عوامی زندگی میں کافی دنوں سے سرگرم ہیں. مقابلہ اتنا سخت ہوگا کہ ووٹر کے لئے فیصلہ کرنے میں کم مشکل نہیں پیش آئے گی . اب دیکھنا ہوگا کہ عام آدمی پارٹی کرن فیکٹر کا کیسے مقابلہ کرتی ہے. بی جے پی سے لڑنا اتنا آسان نہیں ہے. آج وہ ایک پیشہ ور اور طاقتور پارٹی ہے.
دہلی انتخابات کو لے کر سخت مقابلہ جاری ہے. کمار وشواس نے آج ٹویٹ کیا ہے کہ جنگوں میں کبھی نہیں ہارے، ہم ڈرتے ہیں چھل-چھندوں سے، ہر بار شکست پائی ہے، اپنے ہی گھر کے جے چندوں سے . وشواس کا یہ تكا نہیں تیر ہے. ایسے ہی تیر دونوں طرف چلیں گے. بس آپ بچ کر رہیے گا. دو ایماندار رہنماؤں کے درمیان کی لڑائی میں ایمانداری داو پر لگی ہے. سیاست میں شکست ایمانداری کی ہوتی ہے. آگے بھی ہوگی.انا تحریک کا ویسے بھی اب فالودہ نکل چکا ہے. اب اس کے باقی بچے حصے کی بھی چیر-پھاڑ ہوگی. لوک پال کا مریل سا قانون کہیں بیہوش پڑا ہے. اب کوئی شورنہیں مچائے کہ لوک پال کہاں ہے کیونکہ لوک پال کے دونوں بہادر سپاہی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے میدان میں جنگ لڑ رہے ہوں گے۔اس تحریک کو اپنے حق میں موڑنے میں نریندر مودی تب بھی کامیاب ہو گئے تھے اور آج بھی. سیاست میں جو چالاک ہوتا ہے وہ مارا جاتا ہے، جیت اسی کی ہوتی ہے جو چالیں چلتا ہے مگر چالاک نہیں لگتا. دہلی اسمبلی کے انتخابات کی اس زبردست لڑائی کا مزہ لیجئے. ہاں سانس روکے رکھیے گا اور دانتوں سےاپنے ناخن مت کا چبائیے گا ۔
بہ شکریہ ایشیا ٹائمز،دہلی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *