
وائبرینٹ گجرات چوٹی کانفرنس اور مودی
تحریر: اشہرہا شمی
گاندھی نگر میں وائبرنٹ گجرات چوٹی کانفرنس میں افتتاح کے دن سرمایہ کاری اور روز گار کے نئے مواقع کے اعلان سے کہیں زیادہ اہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا یہ بیان ہے کہ انہیں نریندر مودی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ زیادہ متاثر کررہا ہے۔ یہی نریندر مودی ہیں کہ وزیر اعلی گجرات رہتے ہوئے انہیں امریکہ نے اپنے یہاں آنے کا ویزا نہیں دیا تھا۔
گو کہ ہندوستانی سیاست نریندر مودی کے 2002کے گجرات کو فراموش کردینا یا پس پشت ڈال دینا چاہتی ہے لیکن زندگی کا دستور ہے کہ کسی کا ذکر اس کے کام کاج کے حوالوں سے ہی ہوتا ہے۔ مودی نے وزیر اعلی گجرات رہتے ہوئے 2002میں فسادیوں پر قابو پانے کی کوشش نہ کرنے کا الزام 12سال ڈھویا ہے۔ یہ الزام بھی اگر صرف مسلمانوں کی طرف سے ہوتا ، صرف اپوزیشن کی طرف سے ہوتا تو اسے نظر انداز کرسکتے تھے، لیکن مودی سرکار کے ریاستی وزراء جیسے کہ مایا کوڈنانی باضابطہ فساد سے متعلق کیسوں میں جیل جا چکے ہیں۔
خود بی جے پی کے صدر امت شاہ کو تمام الزامات سے بری کئے جانے سے پہلے تک سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس کا اہم ملزم سمجھا جارہا تھا۔ نریندر مودی کے خلاف تب کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا یہ بیان آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ وزیر اعلی نے راج دھرم نہیں نبھایا۔مشکل یہ ہے کہ مودی کے خلاف مقدمہ نہیں بنا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران تمام مراحل طے کرکے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا جائے جیسا کہ امت شاہ کے ساتھ ہوا ۔
یہ بہر حال ایک کٹھن صورتحال ہے جس میں مودی کو کام کرنا ہے مودی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس مرحلے سے بعافیت گذران کی صورتیں نکالی ہیں۔ پوری انتخابی مہم میں انہوں نے مسلمان ،سجد،مدرسہ،فساد جیسے موضوعات سے گریز کیا۔ حکومت بننے کے بعد بھی مودی کی زبان سے کچھ ایسا نہیں نکلا ہے جس کیلئے بطور وزیر اعظم ان کی گرفت کی جاسکے۔ مودی بولتے ہیں، بہت اچھا بولتے ہیں، لیکن جتنا اچھا بولتے ہیں اتنی ہی اچھی خاموشی بھی سادھے رہنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ اب ان کی کوشش اپنے ہمہ گیر ترقیاتی ایجنڈے کا پوری دنیا کو معترف کرانے کی ہے۔
اس میں کامیابی مل رہی ہے، وائبرنٹ گجرات چوٹی کانفرنس مودی نے 2013میں شروع کی تھی۔ ہر دو سال کے بعد اس چوٹی کانفرنس میں گجرات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی صورتیں نکلتی ہیں، روز گار کے نئے مواقع نکالنے کا وعدہ ہوتا ہے اور اس میں کامیابی بھی ملتی ہے۔ اس سال عالمی لیڈروں نے اس کانفرنس میں اس وقت شرکت کی جب سابقہ موقعوں کے برخلاف وزیر اعلی کے عہدہ پر آنندی بین پٹیل ہیں اور سابق وزیر اعلی ہندوستانی سیاست میں عوامی تائید سے ترقی کرکے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔
گوکہ مقررین نے ہندوستان کو کچھ مشورے بھی دیئے جیسے کہ سبسڈی کے شعبے میں اصلاحات کی بات کہی گئی۔ اصلاحات کا سیدھا مطلب ہے سبسڈی ختم کرنا۔ گو کہ ہندوستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ اب سبسڈی لینے کے حق میں اس لئے بھی نہیں ہے کہ رسوئی گیس پر یا کسی دوسری چیز پر جو سبسڈی سرکاری خزانے سے نکلتی ہے وہ بچولیوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ عام آدمی کو اس سے کم فیض پہنچتا ہے ۔
گیس کے سلنڈر آج بھی کالے بازار میں کم مقدار میں گیس کے ساتھ زیادہ قیمت پر بکتے ہیں اور ایک بہت بڑا طبقہ اس دوہری مار کو جھیل کر بچولیوں کی جیب گرم کرتا رہتا ہے۔لیکن سرکاری خزانے پر بوجھ برقرار ہے۔ اس طرح کے مشوروں کے علاوہ ریلائنس نے گجرات میں 100000کروڑ برلا نے 20000کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا عہدکیا۔ آسٹریلیا نے گجرات میں ہیرے تراشنے کے کام میں روز گار کے 30000نئے مواقع نکالنے کا اعلان کیا۔ ابھی دو دن باقی ہیں دو دنوں تک یہ سرمایہ کاری بڑھے گی۔ گجرات کو سرمایہ کاری کیلئے ایک ترجیحی مقام کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں نے تسلیم کیا کہ گجرات میں تجارت کرنا آسان ہے۔
وہاں سہولتیں زیادہ ہیں ۔ لال فیتہ شاہی کم ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ کوششیں برابر ہورہی ہیں اور ان کا خیر مقدم بھی کیا جانا چاہئے کیونکہ اس وقت جب کہ معیشت کسی ایک علاقے تک اپنے فیض کے حوالے سے محدود نہیں ہے اور گجرات میں آنے والا سرمایہ گجرات سے باہر بھی صنعت اور تجارت سے تعلق رکھنے والوں کو فیض پہنچانے کا اہل ہو سکتا ہے۔
یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ گجرات میں فرقہ وارانہ امن کو حسب دستور برقرار رکھنے کے سلسلے میں حکومت کا رویہ کیا ہے؟ گجراتی مسلمان خاص کر بوہرا فرقے کے مسلمان بنیادی طور پر تجارت پیشہ لوگ ہیں ۔ گجراتیوں کو تجارت کرنا خوب آتا ہے ۔ وزیر اعظم نے اسی کافائدہ اٹھایا ہے ،لیکن اسی کے ساتھ انہیں ہندوستان کے معاشرے کی ایک ایسی تصویر بھی دنیا کے سامنے پیش کرنی ہے۔ جہاں سرمایہ کاری کیلئے درکار سستے ہنر مند مزدور، بجلی کی سپلائی، لال فیتہ شاہی سے نجات اور حکومت کا ہر اعتبار سے بھر پور تعاون تو ضروری ہے ہی ، امن بھی ایک پیشگی ضرورت ہے۔
اگر حکومت پر ، حکمران جماعت پر اور تجارت پر یا معیشت پر صرف گجرات کا قبضہ نظر آئے تو بھی مودی سرکار سوالیہ نشانات کے گھیرے میں آئے گی۔ اگر سرمایہ کاری ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں بھی اسی پیمانے پرکرانی ہے جس پیمانے پر گجرات میں کرائی جارہی ہے تو صنعتی امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی دونوں کے حوالے سے یقین دہانی لازمی ہے۔
یہ وزیر اعلی گجرات ہونے کے بارہ برس کے تجربے کا تسلسل ہے کہ وائبرنٹ گجرات چوٹی کانفرنس عالمی سطح پر ہندوستان کو گجرات برانڈ کے ریپر میں لپیٹ کر انڈیا برانڈ بیچنے کی سہولت فراہم کررہا ہے، لیکن بطور وزیر اعظم سات مہینے کا کام کاج بہت کم وقت میں چھان پھٹک سے گذرنے کے مرحلے میں آجائے گا اور اس کیلئے نریندر مودی کو گجرات عینک اتار کر ہندوستانی محدب شیشے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔