
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی،پیداواری ممالک پر منفی اثرات
نئی دہلی (معیشت نیوز) عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے مسلسل گرنے کے نتیجے میںاگر ہندوستان کی عوام نے راحت کا سانس لیا ہے تو وہیں تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک بالخصوص ایران اور روس پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث دونوں ملکوں کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی لانے پر بھی مجبور کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگرتیل کی قیمتیں بدستور کم ہوتی رہیں تو ماسکو اور تہران چند سال بعد پالیسیوں میں مزید تبدیلی پر مجبور ہوجائیں گے۔
امریکا کے ادارے‘‘انرجی انفارمیشن ایڈ منسٹریشن‘‘ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال عالمی منڈی میں تیل کی درمیانی قیمت 58 ڈالر فی بیرل رہنے کا مکان ہے تاہم اگر تیل کی قیمت میں چڑھائو آیا توآئندہ سال تک 75 ڈالر فی بیرل بھی ہوسکتی ہے۔ پچھلے تین سال کے دوران تیل پیدا کرنے والے ممالک نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ایک سوڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ کردی تھی۔ اچانک تیل کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں پیداواری ممالک کواس کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف تیل کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوئی ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایران اور روس جیسے ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں کمی اور اس کے ایران اور روس پر اثرات کے حوالے سے امریکا کی جونز ھوبیکنز یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ نگار افشین مولافی نے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران قدرتی تیل کے کاوربار پر اس لیے زیادہ انحصار کرتا ہے کیونکہ تہران کی ہارڈ کرنسی کا 80 فی صد حصہ تیل ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی قومی پیداوار کا 60 فی صد تیل کی فروخت پرمنحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے سے ایران کو ناقابل تلافی معاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد ایرانی حکومت کی چیخ پکار بجا ہے کیونکہ ایرانی جانتے ہیں کہ اگر قیمتیں بدستور کم رہتی ہیں تو اس کے نتیجے میں تہران کو سنگین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی مانیٹری فنڈ کے مطابق ایران کا قومی بجٹ اسی صورت میں توازن میں آسکتا ہے جب تہران کو فی بیرل تیل کی قیمت 135 سے 143 ڈالر فی بیرل حاصل ہو۔ بعض اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران چالیس اور پچاس ڈالر فی بیرل کی قیمت صرف ایک سال تک برداشت کرسکتا ہے۔ اس کے بعد ایران کو متبادل ذرائع اختیار کرنا ہوں گے کیونکہ اس کے بعد ایران کو اتنی کم قیمت پر تیل فروخت کرنے کا مزید نقصان قابل برداشت نہیں ہوگا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں ایران کی حزب اللہ اور شام کی مدد متاثر ہوگی؟َ تو ان کا کہنا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کا اپنا مخصوص بجٹ ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ایران حزب اللہ اور شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت اور مدد جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران حزب اللہ کے لیے سالانہ 500 ملین ڈالر جبکہ صدر بشارالاسد کے لیے تین ارب ڈالر کی رقم خرچ کرتا ہے۔ گوکہ یہ ایران کےلیے موجودہ معاشی بحران میں غیرمعمولی رقم ہے، اس کے باوجود پچاس سے سترارب ڈالر کا زرمبادلہ کمانے والے ملک کے لیے کوئی زیادہ پریشانی کا موجب بھی نہیں ہوگا۔ مولافی کا مزید کہنا تھا کہ تیل کی قیمتیں گرنے سے ایران میں اندرون ملک جوہری معاملے پر جاری تنازع پر بھی کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے روس کی معیشت اور اس کی پالیسیوں پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے افشین مولافی کا کہنا تھا کہ روس ایران سے معاشی اعتبار سے زیادہ مضبوط ملک ہے۔ یہ درست ہے کہ روس کی ذرائع آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بھی تیل ہی ہے تاہم عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے ماسکو کی شام کے بارے میں پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ یوکرائن کے معاملے پرماسکوکے اندرونی سیاسی حلقوں میں پائی جانے والی کشیدگی میں ضرور اضافہ ہو گا۔
روس کے اندرونی حلقوں میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں زیادہ اختلافات نہیں لیکن یوکرائن کے اییشو پر تنازعات زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن یورپ کی جانب سے ماسکو پرعاید اقتصادی پابندیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ روس سمجھتا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرانے میں یورپ اور مغربی ممالک ذمہ دار ہیں اور وہ ایران اور روس جیسے ممالک کی معیشت کو کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں۔