سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ انتقال کر گئے،شہزادہ سلمان نئے شاہ مقرر

Saudi King Shah Abdullah

ریاض: سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہوں نے اگست سنہ 2005ء میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ عمرکے آخری عرصے میں وہ زیاد ترعلیل رہنے لگے تھے۔ گذشتہ ماہ دسمبر میں بھی انہیں نمونیا کے بعد ریاض میں شاہ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں علاج کے لیے داخل کیا گیا تاہم انہیں جلد ہی وہاں سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ خرابی صحت کے باوجود انہوں نے امور حکومت کی انجام دہی میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔
یہی وجہ ہے کہ خارجی معاملات میں انہیں ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔خارجی امور کے ماہرین کے مطابق پڑوسیوں سے تعلقات میں انہوں نے ہمیشہ مسلم ممالک میں ابھرتے ہوئے لیڈر شپ کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مصر میں اخوان المسلمون کی تباہی اور جمہوری انداز میں منتخب ہوئی حکومت کو پس دیوار زنداں کرنے میں بھی سعودی کے مرحوم فرمانروا کا اہم رول سمجھاجاتا رہا ہے۔مرحوم شاہ عبد اللہ نے فلسطین کے مسئلہ کو بھی الجھائے رکھنے میں ہی عافیت سمجھی تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں کی ویسی مدد نہیں کی جس کا وہ طلبگار ہوا کرتے تھے۔ترکی کے معاملے میں بھی شاہ کا رویہ معاندانہ رہا ہے اور وہاں کی ابھرتی ہوئی قیادت کو انہوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالانکہ شاہ عبداللہ عبدالعزیز مرحوم کا شمار سعودی عرب کے ان حکمرانوں میں ہو گا جن کے دور حکومت میں ملک نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی ترقی اور خوش حالی کے نئے باب رقم کیے۔ شاہ عبداللہ کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت سوشل ویلفیئر، نقل وحمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نبست سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا۔ مرحوم نہ صرف اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشہور تھے بلکہ اس باب میں ان کی شہرت منصوبوں کو ان کے وقت مقررہ سے بھی قبل مکمل کرنے کے حوالے سے رہی۔
ان کے دور حکومت میں سعودی عرب میں تعلیم کے شعبے نے خوب ترقی کی۔ کم وبیش 20 نئی جامعات قائم کی گئیں، درجنوں کی تعداد میں ٹیکینکل اور میڈیکل کالجز کا قیام، شاہ عبداللہ سائنس وٹیکنالوجی یونیورسٹی، جازان، مدینہ منورہ، حائل اور رابغ شہروں میں شاہ عبداللہ اکنامک سٹی کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔
شاہ عبداللہ (مرحوم) کی مساعی جلیلہ کے نتیجے میں مملکت میں آج تعلیمی بیداری کی ایک ہمہ جہت تحریک موجود ہے۔ ملک کے طول عرض میں کالجوں اور اسکولوں کا ایک جال بچھا دیا گیا۔ کئی جامعات کے زیر انتظام نئے کالجز قائم کیے گئے اور 701.681 طلباء وطالبات کی تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ کالجوں کے قیام کے ساتھ ساتھ 32 ہزار نئے اسکول قائم کیے گئے جن کے قیام کے بعد سعودی عرب میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام سے چار لاکھ چھبیس ہزار مردو خواتین اساتذہ کو روزگار فراہم کیا گیا۔
سعودی عرب کے شاہی دیوان نے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے نئے سعودی فرمانروا کے طور پر حلف اٹھانے کی تصدیق کی ہے۔ حلف برداری کی تقریب آج بروز جمعہ نماز عشاء کے بعد ریاض پیلس میں ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *