اوبامہ نے نوبل امن انعام کی لاج رکھ لی

ڈاکٹر سید ظفر محمود

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر باراک اوباما کے ہمراہ
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر باراک اوباما کے ہمراہ

ُفی الوقت امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں منعقد بین الاقوامی سیمینار ’’اکیسویں صدی میں دنیا میں امن کو کس طرح فروغ دیا جائے‘‘ میںشرکت کی تیاری کے دوران یہاں بوسٹن میں بیٹھ کر میں نے آئی پیڈ پرامریکہ کے صدرر بارک اوباما کے دورہ ہند کے ہر لمحہ پر غور کیا۔ دورے کے آخری دن انھوںنے دہلی میںعلاء الدین خلجی کے قلعہ کے احاطہ میں تعمیر شدہ سری فورٹ آڈیٹوریم میں نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوے اپنی مدلل تقریر کے 12منٹ میں65 بیش قیمت جملوں میں کہا کہ میں ہندوستان آیا ہوں یہاں کے آئین کا جشن منانے کے لئے‘میں نے کل کی پریڈ میں یہاں کی مختلف النوعیت (Diversity)دیکھی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہند امریکہ رشتہ دنیا میںاکیسویں صدی کا خصوصی رشتہ بن سکتا ہے۔آج میں ہندوستان کے عوام سے براہ راست گفتگو کر کے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ رشتہ کس طرح بن سکتا ہے۔انھوں نے کہاکہ جب امریکہ میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیرنسلی علیہدگی پسندی(Racial segregation) کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ انھیں مہاتما گاندھی سے حوصلہ ملا ہے جس سے انھیں معلوم ہوا کہ عدل اور انسانی وقار کی لڑائی میں سب سے طاقتور حربہ ہے عدم تشددپر مبنی مزاحمت(Non-violent Resistance)۔ساتھ ہی مجھے سوامی وویکانند بھی یاد آرہے ہیں جب وہ ایک صدی سے زیادہ قبل میرے وطن شکاگوآئے اور انھوں نے ہر فرد میں الوہیت اور باہمی محبت کی پاکیزگی(Divinity & purity of love) کا ذکر کیا ۔ ہمارے دو ممالک کی اسی طرح کی مشترکہ اقدار کی پابندی ہمیں ایک دوسرے کے لئے کارآمد بنا سکتی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی تجدید ہو جس میں ہندوستان کو سکیورٹی کائونسل کی مستقل رکنیت دی جائے۔لیکن طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔آپ کی جمہوریت کے تجربہ کا استفادہ دیگر ممالک کو ہو سکتا ہے۔ آپ کے یہاںصحت کے میدان میں تحقیقات سے دیگر ممالک کے لوگ بھی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔جوہری توانائی(Nuclear energy) سے تیار شدہ بجلی سے آپ کے ملک کی چوطرفہ ترقی میں بے انتہا مدد ملے گی۔دنیا میںآب وہوا میں آنے والی تبدیلی(Climate change) کا سب سے زیادہ نقصان جن ممالک کا ہو نے والا ہے ان میں ہندوستان شامل ہے‘ جس کے لئے ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ملکی بالیدگی (National development)جس سے عوام کی زندگی بہتر ہو جائے‘ تجارت جس سے معاشی مواقع پیدا ہوں ‘ ملکی دفاعی انتظامات جس سے ہمارے ملک خطروں سے محفوظ رہیں‘ یہ سب کام ہم دونوں ممالک ساتھ کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ غور کریں کہ آپ اپنے ملک کے اندر ایک دوسرے کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ہم اور آپ تبھی طاقتور ہوں گے جب ہم ہر انسان کے وقار و عظمت کی پاسداری کریں۔ہمارے دونوں ممالک میں بے انتہا تنوع (Diversity)ہے۔آپ کا دستور شروع ہوتا ہے انفرادی وقار کی بالادستی برقرار رکھنے کی ضمانت(Assuring the dignity of the individual) سے ‘ ہمارا دستور بھی شروع میں ہی اعلان کرتا ہے کہ سب انسان برابر پیدا ہوتے ہیں۔کئی نسلوں سے ہمارے ممالک کے لوگ اِن آدرشوں کی پاسداری میں لگے ہوے ہیں۔میرے دادا کینیا میں برطانوی فوج میں باورچی تھے۔میری اہلیہ کے خاندان میں ماضی قریب کے رشتہ دارلوگ غلام تھے ۔ ہمارے ملک میں انفرادی و گروپ پہچان سے متعلق دقتیں رہی ہیں۔ آپ کے ملک میں یہ تفریق اب تک ہے۔میرا یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کی ہماری آپ کی مشترکہ کارکردگی سے صرف چند لوگوں کو ہی فائدہ ہو‘یاد رکھئے کہ ہر ایک کو برابر کا موقع ملنا چاہئے۔
ہمارے ممالک تبھی مضبوط مانے جائیں گے جب ہم یہ یقین کرنے لگیں کہ ہم سب خدا کے بندے ہیں‘ سب اس کی نظر میں برابر ہیں اور سب اس کی محبت کے حقدار ہیں۔ ہمارے دونوں ملکوں میں ہندو ہیں‘ مسلمان ہیں‘ عیسائی ہیں‘ سکھ ہیں‘ یہودی ہیں اور بدھ ہیں‘ جین وغیرہ ہیں‘ ہمیں گاندھی جی کا جملہ یاد ہے کہ میرے لئے مختلف مذاہب باغ کے خوبصورت پھول کی طرح ہیں ‘ وہ ایک ہی شاندار پیڑ کی شاخیں ہیں ۔ ہمارے قومی بنیادی دستاویزوں میں مذہبی آزادی کا حق نمایاں طور پر تحریر ہے ‘ وہ امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم ہو یا آئین ہند کا دفعہ 25 جس میں لکھا ہے کہ تمام شہریوں کے ضمیر کی آزادی بالکل برابرہے اور ہر ایک کواپنے مذہب کااقبال بلند کرنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی توسیع کرنے کا مکمل حق ہے (Right to profess, practice and propagate religion)۔ ہمارے دونوں ممالک میں بلکہ تمام ملکوں میں ان حقوق کی بالادستی بنائے رکھنے کی ذمہ داری (Duty to uphold these rights)حکومت کی بھی ہے اور ہر فرد کی بھی ہے۔
صدر اوبامہ نے کہا کہ کوئی بھی سماج انسان کے تاریک ترین اضطرار سے محفوظ نہیں ہے(No society is immune from the darkest impulses of man) اودیکھنے میں آیا ہے کہ‘ خدائی نور سے مستفید ہونے کے بجائے‘مذہب کو ان شرانگیزیوں کا تختہ مشق بنایا جا رہاہے۔تین برس قبل امریکہ کے شہر وسکانسن میں سکھوں کی ایک عبادت گاہ میں ایک شخص نے گھس کر 6 معصوم فراد کا قتل کر دیا تھا جن میں امریکی بھی تھے اور ہندوستانی بھی۔ اس وقت غم سے پر اندوہ ہوتے ہوے بھی ہم دونوں ممالک نے بنیادی سچائی کی بات کی تھی ۔اسی بنیادی سچائی کی تصدیق و توثیق (Reaffirmation of the fundamental truth)ہمیں آج پھر کرنی پڑے گی کہ ہر فرد کو حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے مذہب پر عمل کر سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اس کی کوئی ایذا رسائی (Persecution)نہیں ہو نی چاہئے ‘ نہ اسے خوفزدہ کیا جائے اور نہ اس کے خلاف تعصب (Discrimination)ہو ۔تقریر کے دوران یہ جملہ بولتے وقت صدر اوبامہ کی آواز بدل گئی تھی ‘ اس میں خود وثوقی و کشش کے ساتھ عجیب قسم کے جذبات جھلک رہے تھے گویا وہ یہ کہ رہے ہوں کہ اتنی ظاہر اور عیاں بات آپ کی سمجھ میں بہ آسانی آ جانی چاہئے۔
اوباما نے کہا کہ ہم عالمی سطح پر جو امن چاہتے ہیں وہ انسان کے دل میں شروع ہوتا ہے۔ ہم اس سے تب مستفید ہوں گے جب ہم ہر فرد کی خوبصورتی میں مسرت محسوس کرنے لگیں۔ اور اس احساس کی اہمیت اور اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔ بیحد ضروری ہے کہ ہندوستان میں ان بنیادی اقدار کی پذیرائی کی جائے۔ ہندوستان تب تک ہی کامیاب رہ سکے گا جب تک اس میں بین المذاہب ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے دی جائے(India will succeed so long as it is not splintered on religious lines) اوراس کے بجائے یہاں ملکی اتحاد کو فروغ دیا جائے ۔ اور یہ تب ممکن ہو گا جب ‘ بلا تفریق مذہب‘ آپ سب لوگ ایک ساتھ فلم دیکھنے جائیں شاہ رخ خان کی اور ملکھا سنگھ و میری کوم جیسے کھلاڑیوں کی ہمت افزائی کریں۔ ہر ہندوستانی کو فخر کرنا ہو گا اس شخص میں جو بچوں اور بچیوں کو مزدوری سے آزادی دلوائے جیسے کیلاش ستیہ ورتی جنھیں حال میں نوبل انعام ملا ‘اسی قسم کی عمل آوری ہم کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔
آئیے ہم غور کریں کہ کیا ہم میں سب کے لئے ہمدردی اور ہمگدازی (Compassion & empathy)کی شدت یکساں ہے ؟ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ میںکیا ہم اپنے کو اپنے کردار کے مواد سے تولتے ہیں ؟ یاہم اپنی کھال کے رنگ یا اپنی عبادت کے طریقہ کار سے اپنے کو پرکھتے ہیں ؟ہمارے دونوں ممالک امریکہ اور ہندوستان میں ہماری گوناگوئی (Diversity)ہی ہماری طاقت ہے۔ اور ہمیں پہرہ داری کرنی ہوگی تاکہ ہمیں کوئی مذہب کی بنیاد پر بانٹ نہ سکے ۔ اگر امریکہ اور ہندوستان اپنے اپنے ملکوں میں اس گونا گوئی کی حفاظت کر سکیں ‘ اس کا جشن منا سکیں اور اس سے اپنی جمہوریت کو مضبوط کرتے رہیںتو یہ پوری دنیا کے لئے ایک خوش آئند رہنما ئی ہو گی ۔اگر ہم دونوں ممالک دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم تنوع کے باوجود شانہ بہ شانہ آگے بڑھ رہے ہیں تو یہی عوامی ہمنوائی ہمیں عالمی لیڈر بنائے گی ‘ نہ کہ ہماری معیشت کے اعداد و شمار یا یہ کہ ہمارے پاس کتنے ہتھیار ہیں۔ ہم میں طاقت ہونی چاہئے دنیا کو دکھانے کی کہ ہم ایک دوسرے کی کتنی عزت کرتے ہیں ۔
اس طرح تین دن کے شاندار دورے کے اختتام پر دنیا کے سب سے طاقتور لیڈر نے ہمارے ملک عزیزکے عوام اور حکومت دونوں کو تنبیہ کر دی کہ اگر اکیسویں صدی میں دنیا کی قیادت کرنی ہے تو اپنے گھر کے اندرونی حالات ٹھیک کرنے کے لئے اپنی سیاسی پالسی میں خاطر خواہ تبدیلی کرنی ہو گی کیونکہ اقتصادی وسماجی خوشحالی اگر ایک فرقہ کے حصہ میں نہ آئے تو اسے ملک کے چہرے پر بدنما داغ مانا جائے گا جس کی وجہ سے اسے عالمی لیڈر بننے کی دوڑ میںدشواری آ سکتی ہے۔اس طور پر صدر اوبامہ نے اپنے نوبل انعام کی لاج رکھ لی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *