
باصلاحیت و بااخلاق عملہ کاروبار کی بنیادی ضرورت ہے
سونے کےمعروف سعودی تاجر، فتیحی گروپ آف کمپنیز کے مالک شیخ احمد حسن فتیحی سے انٹرویو
وہ پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ اپنی تعلیم میں مگن تھا،پڑھائی کے ساتھ اپنے والد کا ہاتھ بٹانا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا لہذا وہ ان کے ساتھ کبھی دکان پر بھی جاتا۔ تجارتی آئیڈیاز سنتا اور غور کرتا رہتا۔ اس کے اندر اب تجارتی مزاج پرورش پانے لگا تھا۔ دھیرے دھیرے مشاہدہ وسیع اور ویژن پروان چڑھتارہا۔ ابتدائی تعلیم تو روایتی انداز میں حاصل کرلی، مگر اعلیٰ تعلیم کا حصول شاید اس کے مقدر میں نہ تھا۔ اٹھارہ سال کا ہوا تو اس کے والد کو بیماری نے آ گھیرا۔ گھر چلانے کی ذمہ داری اس کےکاندھوں پر آ گئی۔ یہاں سے اس نے تعلیم کو خیر باد کہا اور والد کا کاروبار سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب اپنے بچپن کے خوابوں کی تعبیر کا وقت آ گیا تھا۔اس کا جذبہ جوان تھا۔ وہ اپنے آپ کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر چکا تھا۔ سو، اس نے تجارت کے میدان میں قدم رکھااور آگے بڑھتا چلا گیا۔ آج اس کا شمار عالم عرب کے مشہور سناروں میں ہوتا ہے، اسے دنیا شیخ احمد حسن فتیحی کے نام سے پہچانتی ہے۔آئیے! ان کی کہانی، خود ان کی زبانی سنتے ہیں:
سوال:کاروبار کی ابتدا کے حوالے سے کچھ بتلائیے۔
احمد حسن فتیحی:میں نے اپنے کاروبار کو ابتدا سے ہی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ٹھانی۔ میں ذاتی طور پر ملک میں درآمد ہونے والے جواہرات کی اقسام و انواع سے مطمئن نہ تھا۔ میںنے بچپن میں بہت کچھ نیا سن رکھا تھا۔ بیس سال کی عمر میں میں نے اٹلی کا پہلا تجارتی سفر کیا، تاکہ یورپی طرز کے جواہرات و جیولری کا سامان اپنے ملک میں لا سکوں۔ اٹلی سے واپسی پر اپنے ساتھ ایک کلو اعلیٰ قسم کا سونا بھی لایا۔ اسی باعث میں پہلا سعودی سنار قرار پایا جس نے غیر ملکی سونا درآمد کیا تھا۔
سوال :آپ نے اپنے مستقبل سے متعلق کیا سپنا دیکھا تھا؟
احمد حسن فتیحی:جی ہاں! جب میں اٹلی سے جیولری خرید کر وطن پہنچا تو کئی ایک خواب میری آنکھوں میں تیرنے لگے۔ میں نے اس سفر سے واپسی پر کاروبار کو مزید وسعت دینے کی کوششیں تیز کر دی۔ 1965 ء میں میرے والد نے کاروبار میں میری رغبت دیکھتے ہوئے ’’احمد حسن فتیحی‘‘ کے نام سے منسوب ایک مستقل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ پانچ سال کے محدود عرصے میں، میں اسی کمپنی کی تشکیل میں کامیاب ہو چکا تھا۔
سوال :ایسا کوئی اصول جو ابتدا ہی سے آپ نے طے کیا اور پھر آپ کی تمام کامیابیاں اسی کی مرہون منت رہیں؟
احمد حسن فتیحی:میں نے کمپنی قائم کرتے ہی جو کوشش خصوصی اہتمام کے ساتھ کی، وہ یہ تھی کہ میں نے ایماندار اور باصلاحیت ملازمین بھرتی کرنے کی طرف خاص توجہ دی۔ اس طرح جلد ہی میں ایک عمدہ ٹیم تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ میں نے کمپنی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش اور حربہ اختیار کیا۔
سوال:کون سی چیز آپ کی شہرت کا باعث بنی؟
احمد حسن فتیحی:1984 ء میں ایک طویل سوچ و بچار کے بعد میں نے جدہ میں ایک سینٹر بنانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ یورپی ماہرین کی نگرانی میں عالمی طرز پر تیار کیا گیا۔ اس میں کسٹمرز کے ذوق کا خاص خیال رکھتے ہوئے سونے اور جواہرات کے علاوہ گھڑیاں، مہنگے پرفیوم، زنانہ و مردانہ کپڑے بھی سجائے گئے۔ بنا بریں میں تھوڑے ہی عرصے میں الحمدللہ! اپنی جہد مسلسل اور منفرد تجارتی انداز کے بل بوتے پر نہ صرف سعودیہ بلکہ عرب اور ایشیائی ممالک میں بھی مشہور ہو گیا۔ میں نے قلیل عرصے میں جواہرات کی دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا۔
سوال:اپنی کامیابی کا راز ،اگر آپ بتانا چاہیں؟
احمد حسن فتیحی:الحمدللہ! میں شروع ہی سے محنت کا خوگر ہوں۔ تاہم بڑے پیمانے پر کاروبار کے لیے مخلص عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلسل محنت کے علاوہ عملے کا گاہکوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنے کا خصوصی اہتمام کیا۔ نیز کمپنی کی پروڈکٹ کا انتہائی بلند معیار اور جانچ پڑتال کے کٹھن مرحلے سے گزار کر مارکیٹ پہنچانے کا خاص خیال رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے میری کمپنی ایسی قیمتی دھاتیں اور مہنگے خوبصورت پتھر مارکیٹ میں لانے لگی جن کی مثال نہ ملتی تھی۔ یہ وہ پہلی سعودی کمپنی ہے جس کی ایڈورٹائزنگ سعودی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہوئی۔
سوال:اپنے کاروبار کے بڑے بڑے یوٹرن اور نمایاں کامیابیاں بتائیے۔
احمد حسن فتیحی:1990 ء میں کمپنی کا کل سرمایہ 200 ملین ریال تک پہنچ چکا تھا۔ اپنے تجارتی تجربے کو بڑھانے اور پروان چڑھانے کی غرض سے نیٹ ورک کو وسیع کرتے ہوئے ریاض اور جدہ میں دو مزید سینٹر کھول دیے گئے۔ اس موقع پر لوگوں مجھے نے مال خریدنے والا تاجر نہیں بلکہ مکمل کمپنیاں خریدنے والا شخص قرار دے دیا۔ 1995 ء میں سوئٹزرلینڈ کی جواہرات کی سب سے بڑی Bvlgari Marians کمپنی تمام شاخوں سمیت خرید لی۔ یہ کمپنی اب Bvlgari Marians کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اُس کی شاخیں اس وقت یورپ، ایشیا اور امریکی ریاستوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ میں بزنس کی مشکلات اور پیچیدگیوں سے بخوبی واقف تھا۔ ان مسائل کو بھی جانتا تھا جو موروثی یا نجی کمپنیوں کو عالمی معیشت کے مدمقابل درپیش ہوتے ہیں۔ میں نے خندہ پیشانی سے دنیا میں رائج طریقے کو اختیار کرتے ہوئے ’’نجی کمپنی‘‘ کو جوائنٹ اسٹاک کمپنی میں تبدیل کر دیا۔ یوں عالمی اقتصادی تغیرات کا مقابلہ آسان ہو گیا۔ سعودیہ میں یہ پہلی کمپنی تھی جو جوائنٹ اسٹاک کمپنی میں تبدیل ہوئی۔ اس سے کمپنی کی ترقی میں تیزی، معیار میں بہتری اور جدت میں مزید اضافہ ہوا۔ اب یہ کمپنی نہیں بلکہ تجارتی گروپ کی شکل اختیار کر گیا۔
سوال:اپنی کمپنی کے اثاثہ جات سے متعلق کچھ ذکرکیجیے۔
احمد حسن فتیحی:2003 ء میں میں نے کمپنی کا سرمایہ بڑھا کر 385 ملین ریال کر دیا۔ کاروبار آئے روز بڑھ رہا تھا، ہر نیا دن ترقی کی نوید لے کر ابھرتا۔ گاہکوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے مجھے چار سال کے اندر کمپنی کی مزید دو شاخیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ ان شاخوں میں صارفین کے ذوق اور جواہرات کے عشاق کی نفسیات کا خاصل خیال رکھا گیا۔ اس طرح تیسری شاخ جدہ میں کھولی گئی۔ حالات کی نبض بھانپنے کے طفیل کمپنی کو 2008 ء کی پہلی چھ ماہی میں 22.7 ملین ریال صرف منافع ہوا۔ یہ پچھلے سال کے مقابلے میں 7091 فیصد زیادہ تھا۔
سوال:ملازمین کے آپ کے ساتھ آپ کا سلوک اور رویہ کیسا رہتا ہے؟
احمد حسن فتیحی:میں الحمدللہ! اپنی ٹیم کی ہمیشہ حوصلہ افزائی، ملازمین کا خیال، عملے کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاق سے پیش آتا ہوں۔ کمپنی کے ملازمین دل وجان سے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ میری کامیابیاں میرے مخلص ساتھیوں کی ہی بدولت ہیں۔ میرا گروپ اپنے خلوص اور اچھی کارکردگی کے سبب سعودیہ میں کئی کمپنیوں کا مالک بن چکا ہے۔ سعودی عرب میں ’’صدوق العالمیۃ اللاستثمارات القابضۃ‘‘ جو 100 ملین ریال سے زائد سرمائے پر قائم ہوئی۔ اسی طرح دوسری کمپنی ’’مدماک الخلیفۃ الکمالیۃ‘‘ بھی قائم کی۔ جس کی 9 شاخیں صرف سعودی عرب میں ہیں۔ فتیحی گروپ نے اپنے پر مزید پھیلاتے ہوئے مصر اور اٹلی کی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ مصر میں بھی ’’شرکۃ النساجون الشرقیون المصریۃ‘‘ مصری جنینات پر تیار ہوئی۔ جسے مصری عوام نے بڑی مقبولیت بخشی۔ فتیحی نے مصر میں غریبوں کی امداد اور عوام کی بہبود کے لیے مختلف فلاحی منصوبے بھی شروع کیے۔ کئی بینک اور ہسپتال بنائے۔
سوال:کوئی ایسا عمل جسے آپ زندگی کا اعزازسمجھتے ہوں؟
احمد حسن فتیحی:28 رجب کو جدہ میں گروپ نے اپنے ایک مرکز کے افتتاح پر ملازمین اور سعودی باشندوں میں 12 ہزار شیئرز تقسیم کیے۔ میں نے کمپنی کے تقسیم کردہ شیئرز درحقیقت گروپ اور ملازمین کے باہمی روابط کو مزید مضبوط کرنے کے لیے دیے تھے۔
اگر آپ میرے خیالات کو مختصر سننا چاہیں تو میں یہ کہوں گا کہ اتنے کم عرصے میں تیز ترین ترقی کا راز جدید طرز کی رعایت، صارفین کی چاہتوں کا لحاظ، عملے سے حسن سلوک، غفلت و سستی سے دوری اور گروپ کے ساتھ ہمیشہ خودبھی مستعد رہنا ہے۔ اٹلی حکومت نے مجھے سعودیہ اور اٹلی کے اقتصادی روابط بڑھانے پر صدارتی ایوارڈ ’’نجمۃ التضامن‘‘ سے بھی نوازا۔