Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

تجارت میں اپنی دنیا آپ بنانی پڑتی ہےجبکہ ایمانداری کامیابی کی ضمانت ہے

by | Feb 9, 2015

اورنگ آباد کے مشہور تاجر سلیم صدیقی

اورنگ آباد کے مشہور تاجر سلیم صدیقی

اورنگ آباد کے مشہور تاجر سلیم صدیقی سے دانش ریاض کی ملاقات
مہاراشٹر کے مردم خیز مسلم اکثریتی علاقے اورنگ آباد میں ۱۰جنوری ۱۹۶۳؁ کوصدیقی خاندان میں آنکھیں کھولنے والے الحرا ایجوکیشنل سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے صدر،ایشیا ایکسپریس کے ڈائرکٹر ،مجتبیٰ اینڈ صدیقی ڈیولپرس کے پارٹنراور صدیقی میڈیکل کے بانی سلیم صدیقی کا شماران لوگوں میں ہوتاہے جنہوں عملی تجربات کی روشنی میں اپنی دنیا آپ بنائی ہے۔درجہ چہارم تک اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے سلیم نے جب میٹرک کا امتحان مراٹھی میںامتیازی نمبروں سے پاس کیا تو معاشی ضرورتوں نے ایسا آگھیرا کہ انہیں کسی ایسے پروفیشن میں داخلہ کی ضرورت آن پڑی جہاں سے فوری طور پر کسبِ رزق کیا جا سکے بالآخر دو سو روپئے ڈونیشن دے کر ڈی فارما میںداخلہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے روزگار کی تلاش شروع کردی لیکن شومی قسمت کہ کوئی ملازمت دینے پر آمادہ نہیں ہوا ۔پریشان حال سلیم نے ایک جگہ تین سو روپئے پر ملازمت شروع کردی اور روزگارِزندگی چلانے لگے۔جد و جہد سے بھر پور اپنی داستان معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض سے بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں’’میرے والد حکومت مہاراشٹر میں ڈرائیور کی ملازمت کیا کرتے تھے، بھرے پرے گھر میں محدود آمدنی تھی،اخراجات کا انبار مجھے پریشان کئے رکھتا تھاجبکہ میں والد صاحب کا ہاتھ بٹانا اور کسی طرح گھر کے اخراجات میں شریک ہونا چاہتا تھا لیکن فارمیسسٹ بننے کے بعد بھی کوئی ملازمت دینے پر آمادہ نہیں تھا کہ ایک دن اقبال سی مونی نے مجھے اپنے میڈیکل اسٹور پر کام کر نے کا آفر محض تین سو روپئے کی اجرت پر دیا تومیں نےبخوشی قبول کرلیا اور پورے میڈیکل اسٹور کو اس طرح سنبھالا کہ اقبال صاحب ہر کام کے لئے مجھ پر منحصر ہوگئے‘‘۔سلیم کہتےہیں ’’ملازمت تو میں کر رہا تھا لیکن گھر کی پریشانی برقرار تھی محدود وسائل کو وسعت دینے کی فکر دامن گیر رہتی،حالت یہ تھی کہ کوئی دس ہزار پر پوری زندگی گروی رکھواتا تو شاید میں اس کے لئے بھی آمادہ ہوجاتا لیکن کہتے ہیں کہ جس کو رب رکھے اس کو کون چکھے،مجھے بھی سال بھرتک محض تین سو روپئے کی ملازمت کے بعد یہ احساس ستانے لگا کہ جب تک میں ذاتی کاروبار شروع نہیں کروں گا اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی۔لہذا اب میں اس سلسلے میں جد و جہد کرنے لگا اور بینک سے لون لینے کی جد وجہدمیں شامل ہوگیا۔میںنہ بڑے گھر کا تھا نہ بڑوں کا رسوخ حاصل تھا۔کوئی ایسی چیز بھی نہیں تھی کہ جس کے سہارے لون پاس کروالیتا لہذا بینک کا چکر کاٹتا اور بے نیل و مرام واپس آجاتا۔لیکن کہتے ہیں کہ صدق دل سے کی جانے والی جد و جہد رنگ لاتی ہے تو ایک روز میں نے لون آفیسر کو پریشان حال دیکھا ،اسے اپنے بیٹے کے لئے برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی جو کارپوریشن کے لوگ نہیں دے رہے تھے میں نے آفیسر سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں مجھے تفصیلات دیں میں کارپوریشن سے سر ٹیفکیٹ نکلوا دیتا ہوں ۔اللہ کا شکر رہا کہ کسی طرح میں نے سر ٹیفکیٹ نکلوا کر دیا اور مجھے صلے میں ۶۰ہزار روپئےکا لون مل گیا۔اور پھر میں نے ۱۹۸۳؁ میں اپنا میڈیکل اسٹور قائم کیا۔ لوگوں کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کر لئے کہ گراہکوں سے فیملی ریلیشن بن گئے میرا زیادہ تر وقت میڈیکل اسٹور پر صرف ہونے لگا ۔خدا نے بھی برکت دی اور میں اس کاروبار کے ساتھ اب دوسرے کاروبار کے لئے پر تولنے لگا۔یہ ۱۹۷۷؁ کا زمانہ تھا جب اورنگ آباد کی مشہور شخصیت مجتبیٰ فاروق صاحب کے ساتھ مل کر میں نے زمین کا کاروبار شروع کیااور مجتبیٰ اینڈ صدیقی ڈیولپرس کے نام سے اپنی فرم بنائی الحمد للہ یہ کاروبار بھی وسعت اختیار کر چکا ہے اور ہم مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں‘‘۔
سلیم صدیقی بزنس کے گُر بتاتے ہوئے کہتے ہیں’’موجودہ دور میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہمارے بچے فوری طور پر تجارت شروع کر دیتے ہیں حالانکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس تجارت کا بھی آپ آغاز کر رہے ہوں پہلے کہیں اور اس کا تجربہ لے لیں،کیونکہ صرف ڈگریوں کے بھروسہ پر جو تجارت شروع کی جاتی ہے وہ اکثر ناکامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔دراصل بزنس میں ٹیکنیکل چیزیں زیادہ ہوتی ہیں جو پریکٹیکل چاہتی ہیںلہذاجو لوگ ٹیکنیکل چیزیں سیکھ چکے ہوتے ہیں وہ بہتر انداز میں تجارت کر پاتے ہیں‘‘۔
عموماً یہ دیکھا جاتا ہےکہ جب کوئی شخص تجارت شروع کررہاہوتا ہے تو وہ اپنی ہی دنیا کا شہسوار بنا رہتا ہے جبکہ سلیم صدیقی کے مطابق’’تجارت میں آدمی کو Flexibleرہنا چاہئے۔جیسا بھی ماحول ہو اس میں Adjust کرنے کا مادہ ہونا چاہئے۔اسی طرح نہ بہت جلد کسی سے مرعوب ہونا چاہئےنہ اپنی انا کا شکار ہونا چاہئے‘‘۔سلیم اپنی مثال آپ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میں کسی اور کو دیکھ کر کبھی لالچ میں مبتلا نہیں ہوا ،اور نہ ہی کسی سے غیر ضروری طور پر Impress ہوا،کبھی احساس کمتری نے مجھےآکر نہیں چھوااور نہ ہی بہت کچھ ملنے کے بعد میں کبر و غرور میں مبتلا ہوا۔یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے حالات تبدیل ہوئے اسی طرح میں نے اپنے آپ کو Adjustکرنے کی کوشش کی اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنا سفر جاری رکھا۔‘‘
خدمت خلق کا جذبہ لئے ملت کے نوجوانوں کو آگے آنے میںدست شفقت دراز کرنے والے سلیم کے مطابق ’’مسلم نوجوانوں کو پارٹنرشپ دے کر میں بزنس میں لانے کی کوشش کرتا ہوںلیکن المیہ یہ ہے کہ دس میں سے ۹بچے ناکام رہتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب کسی نوجوان کو کوئی اچھی جگہ مل جاتی ہے تو اسے پھر شیطان آگھیرنے لگتا ہے اور وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اسی کی وجہ سے کمپنی چل رہی ہے حالانکہ بزنس میں مختلف ڈپارٹمنٹ ہوتے ہیں۔آپ ایک ڈپارٹمنٹ میں کامیاب ہوکر پورے ڈپارٹمنٹ کو نہیں چلا سکتے۔بسا اوقات لوگ مخلص ہوتے ہیں لیکن بزنس کے تمام علم کا احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہتے ہیں۔لہذا پہلی چیز جو لوگوں کو سمجھنی چاہئے وہ یہ کہ آپ جس بھی چیز کا بزنس کر رہے ہوں پہلے اس بزنس کی مکمل معلومات حاصل کر لیں۔جب پورے بزنس کی Thorough اسٹڈی آپ کے پاس ہوگی تو آپ بآسانی بزنس کو سنبھال سکیں گے۔اس کی بہترین مثال فلم انڈسٹری ہے،جہاں ڈائرکٹر،پروڈیوسر،اسکرپٹ رائٹر وغیرہ وغیرہ کا اہم رول ہوتا ہے لیکن کوئی صرف اپنے آپ کو ہی کسی فلم کی کامیابی کا ضمانت دار سمجھ جائے تو پھر اس کی نیّا ڈوبنے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘
بزنس میں پیش آمدہ منفی پہلوئوں پر گفتگو کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں’’ہر بزنس کا اپنامنفی پہلو بھی ہوتا ہے لہذا منفی پہلو کیا ہے اس کا مطالعہ بھی بزنس کی کامیابی پر منحصر ہے۔کیونکہ جو آدمی فٹ پاتھ پر چنا بیچ رہا ہوتا ہے وہ بھی اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کہاں کھڑا ہونا ہےاورکب کھڑا ہونا ہے۔لہذا جب تک ہم بزنس کا حق نہیں ادا کریں گے اس وقت تک ہم تجارت میں کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ عموماً ہم ان چیزوں کا سطحی علم رکھتے ہیںاور سطحی علم کے ساتھ آپ بہتر تجارت نہیں کر سکتے‘‘اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تجارت میں کسی کا استقبال نہیں کیا جاتا بلکہ لوگوں کو اپنی جگہ آپ بنانی پڑتی ہےاپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور جب آپ کرسی پر پہنچ جاتے ہیں تو عموماً کوئی ہٹانے والا نہیں ہوتا ۔اس کی بہترین مثال آپ ممبئی کی لوکل ٹرین سے لے سکتے ہیں جہاںصبح و شام کے اوقات میں سفر کرنے والا مسافر اپنی جگہ خود بناتا ہے اور پھر سیٹ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہےجب وہ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر اسے کوئی ہٹانے والا نہیں ہوتا‘‘۔بزنس میں دلجمعی ،وابستگی ،مکمل خودسپردگی پرگفتگو کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں’’ہم نے اکثر لوگوں کو موسمّی یا گننے کا جوس نکالتے ہوئے دیکھا ہے ،جتنی ہی قوت کے ساتھ موسمّی یا گننےپردبائو ڈالا جاتا ہے اتنی ہی مقدار میں جوس باہر نکلتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔تجارت میں بھی جتنی قوت لگائی جائے گی نتیجہ اسی کے بقدر سامنے آئے گا۔عموماً لوگوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ ’’میرے پاس تو صرف ایک لاکھ کی رقم تھی ،اگر مجھے دس لاکھ روپیہ مل جاتا تو شاید میں فلاں بزنس میں کامیاب ہوجاتا ‘‘ حالانکہ بنیادی اصول یہ ہے کہ جو تھوڑے میں کامیاب نہیں ہوسکتا وہ کبھی بھی بڑے میں کامیابی درج نہیں کرا سکتا ۔لہذاجو شخص ایک لاکھ روپیہ میں دس ہزار کما سکتا ہے وہی شخص ایک کروڑ میںدس لاکھ کما سکتا ہے۔چونکہ عمومی مزاج یہ ہے کہ لوگ مالک بن کر لوگوں سے تجارت کے گُر سیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ مالک بننے سے پہلے ملازم بن کر تمام گُر سیکھ لینا چاہئے۔اسی طرح کسی پروڈکٹ کو شروع کرتے وقت ہم جتنا Positiveسوچتے ہیں ہمیں اس سے زیادہ اس کے Nigativeپہلو پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ جب کسی چیز کا منفی پہلو پتہ ہوگا تو آپ کو اس پر دسترس حاصل کرنے میں زیادہ کامیابی ملے گی۔‘‘
معاملات میں صاف ستھرا برتائو کا مشورہ دیتے ہوئے سلیم کہتے ہیں’’معاملات میں ہمیشہ صاف ستھرا رہنا چاہئے،اگر معاملات میں کسی طرح کی کوئی کمی آتی ہے تو پھر ہم بہتر تجارت نہیں کرسکتے۔کیونکہ صاف ستھرے معاملات میں جہاں آپ کی شبیہ بہتر بنتی ہے وہیں آپ دعوتی فریضہ بھی بہتر طور پر ادا کرسکتے ہیں۔کیونکہ اچھے اور ایماندارانہ کام کی ہر آدمی قدر کرتا ہے۔دراصل معاملات میں گڑبڑی اس وقت ہوتی ہے جب ہم منافع کو سامنے رکھ کر بزنس کرتے ہیں۔لہذا جو لوگ محض Profitکو سامنے رکھ کر بزنس کرتے ہیں وہ بھی لمبی پاری کھیلنے میں پریشان ہوجاتے ہیں اسلئے آپ کام کرتے جائے بزنس کا حق ادا کیجئے کم منافع رکھئے تو آپ لمبی ریس کا گھوڑا ثابت ہوں گے۔حقیت یہ ہے کہ تجارت کے تمام معاملات قرآن و حدیث میں بتائے گئے ہیں لیکن کبھی ہم اس پہلو سے ان چیزوں کا مطالعہ نہیں کرتے اگر مطالعہ کرتے بھی ہیں تو اسے عملی زندگی میں برتنے کی کوشش نہیں کرتے۔حالانکہ وعدے کی پابندی،ملازم کا پسینہ سوکھنے سے قبل ہی اس کی اجرت،غرور وتکبر سے پرہیز،عیب بتا کر مال فروخت کرنے کی تلقین، درگذر سے کام لینے کی ہدایت وغیرہ ایسے اصول ہیں جس کی بجا آوری ہی تجارت کی کامیابی کی ضمانت ہے‘‘۔
سلیم کہتے ہیں’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک مسلمان اگر سچا مسلمان بن کر تجارت کرے تو اسے کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرنا پڑے گا،بلکہ اللہ رب العزت بھی اس کی تجارت میں برکت دیں گے اور وہ کم منافع میں بھی خوش و خرّم رہے گا‘‘۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...