پرجوش اور محنتی ملازمین کا حصول مگر کیسے؟

Asrar Alam at work

شیخ نعمان
اب تک ہم نے جدید مینجمنٹ کی روشنی میں مطالعہ کیا کہ ایک منیجر اپنے ماتحتوں کو کس طرح کاموں پر لگائے رکھے؟وہ کیا گر اپنائے کہ اس کے ماتحت پرجوش انداز میں کاموں کو سرانجام دیں؟یقینا جدید مینجمنٹ کی فنی (Technical aspects)چیزیں استعمال کرنے سے ہمارا دین ہمیں منع نہیں کرتا،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ وہی طریقے ایک غیر مسلم بھی استعمال کرتا ہے اور ایک مسلمان بھی۔ لیکن دونوںایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ جیسے وہی بیج ایک غیرمسلم بھی زمین میں لگاتا ہے اور ایک مسلمان بھی،
لیکن مسلمان کی نظر اپنے بیج پر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالی پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالی اسے اگائے گا۔بالکل اسی طرح مروجہ مینجمنٹ کے اصولوں کو ایک مسلمان بھی استعمال کررہا ہوتا ہے اور ایک غیر مسلم بھی، لیکن دونوں میں فرق ہونا چاہیے۔آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان منیجر اپنے ماتحتوں کو پرجوش کیسے رکھے گا؟اسلام ہمیں کیا امتیازی تصور دیتا ہے جو ایک مسلمان کی مینجمنٹ کو غیر مسلموں کی مینجمنٹ سے نہ صرف ممتا ز کرتا، بلکہ ایک درجہ بلند بھی کرتا ہے۔
مسلمان اور غیر مسلم کی سوچ کا فرق
اسلام کا عقیدہ آخرت کہ یہ دنیا حتمی (Ultimate Goal)نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایک راہ گزر،امتحان گاہ سے زیادہ نہیں۔ اس دنیا کی کامیابی اصل کامیابی نہیں،اس کی ناکامی اصل ناکامی نہیں ہے۔اگر اس دنیا میں کوئی شخص سب سے زیادہ مالدار ہوجائے،سب سے زیادہ طاقتور ہوجائے تو کیا وہ دنیا کا کامیاب ترین شخص ہوگا؟یا دوسری طرف ایک اور شخص جسے دنیا میں کو ئی اچھائی نہیں ملی ہمیشہ تکالیف اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا،کیا یہ دنیا کا ناکام ترین شخص ہوگا؟یقینا ایک عقیدہ آخرت کا منکر جس کے نزدیک یہ دنیا ہی حتمی ہے ،اس میں مال ودولت،عزت و شہرت اور طاقت کا حاصل ہو جانا ہی کامیابی کا معیار(Standard of Sucess) ہو تو پھر یقینا پہلا شخص دنیا کا کامیاب شخص ہے اور دوسرا ناکام! مگر ظاہر ہے کہ ایک کلمہ گو کی یہ رائے ہرگز نہیں ہو سکتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کیا پہلے کے مالدار ہونے میں اس کا کتنا عمل دخل ہے؟ اگر واقعی اس کی محنت سے یہ سب کچھ ہوا تو شاید دنیا میں خوش قسمتی یا بد قسمتی کے الفاظ نہ ہوتے۔ ایک منٹ کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ جس چیز کے حصول میں بڑا دخل اس کے خوش قسمت یا بد قسمت ہونے کا ہے تو دوسرے کے ناکام ہونے میں اس کا کیا قصور ہے؟ کیا قدرت نے اس کے ساتھ ظلم کیا؟ جو شخص اللہ کے وجود کا قائل ہو وہ اللہ کو ظالم نہیں کہہ سکتا؟ العیاذ باللہ! لہذا عقلا اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی کا ہونا عقلا بھی ضروری ہے، تاکہ اس دنیا کے ظلم و انصاف کا صحیح بدلہ دیا جا سکے اور وہی دنیا اصل ہو گی جہاں اس دنیا کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اسلام نے اس دنیا کی صحیح حیثیت مقرر کر کے انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے اثرات پوری زندگی پر پڑتے ہیں۔ یہی اثرات ایک مسلمان کے عمل کو غیر مسلم کے عمل سے ممتاز کرتے ہیں۔ مسلمان کی محنت و مشقت کا محور ہر عمل میں یہ عارضی دنیا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کی دنیا اور اس کی کامیابی ہوتی ہے۔ وہ آخرت کی کامیابی کے لیے دنیا کی ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں سے سبق ملتا ہے کہ ایک مسلمان کے عمل میں آخرت کا رنگ کس طرح غالب ہونا چاہیے۔
اسلام میں حوصلہ افزائی کا تصور
ایک مسلمان جس کا آخرت پر ایمان ہے۔ جس کی نظر میں اس دنیا کی حقیقت ایک راستے کی سی ہے، وہ اپنے آپ کو اس دنیا میں مسافر کی حیثیت دیتا ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، اس زندگی کا مقصد صرف اللہ کی کامل بندگی ہے۔ اس دنیا میں اچھے حالات بھی آئیں گے اور برے بھی، میرا کام ان میں صرف اللہ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا ہے۔ جب یہ عقیدہ ایک مسلمان کے دل میں پختہ ہو اور ہونا چاہیے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے مادی وسائل کی فراہمی معنی نہیں رکھتی۔ اسے کسی عمل پر آخرت کی کامیابی کا یقین ہوجائے، وہاں کا فائدہ نظر آئے تو اس کام میں لگن کے ساتھ لگنا، اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ اسی پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ پر محنت فرمائی۔احادیث کے ذخیرے میں یہ بات جا بجا ملتی ہے کہ کسی کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مادی کامیابی کا وعدہ نہیں فرمایا، بلکہ ہمیشہ اخروی ثمرات کی طرف توجہ دلائی۔ معاشرت یا معاملات کے آداب سکھائے توبھی مدنظر آخرت کو رکھا۔
حالانکہ ان تعلیما ت پر عمل کے نتیجے میں دنیا کا بھی بن جانا یقینی تھا، لیکن تربیت فرمائی صرف آخرت کو مدنظر رکھ کر۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام کی نظر میں دنیا کی حیثیت درست انداز میں مقرر ہوگئی جن کے پاس مالی فراوانی تھی تو انہوں نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے آخرت کے فوائد سمیٹے، معاشرت و معاملات میں حد درجہ احتیاط فرمائی۔ صرف اخروی فوائد و نقصات کو مدنظر رکھا۔ البتہ چونکہ انسان کی طبیعت جلد بازی کی ہے تو بہت سے اعمال کے دنیاوی فوائد و نقصانات سے بھی ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر ابھارا، جیسے قریبی رشتے داروں سے اچھے تعلقات رکھنے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر مالی فراوانی اور عمر میں برکت ہونا، اسی طرح غزوہ خندق کے کٹھن مرحلہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے روم و ایران کی فتحیابی کی بشارت دی۔
حاصل یہ کہ اسلام کے تصور حوصلہ افزائی میں مادی وسائل سے کہیں زیادہ اہمیت اخروی کامیابی اور ناکامی کی ہے۔ اور ایک مسلمان کے لیے اپنے رویے کو بدلنے کی اساس ہے۔
اسلام کے تصور حوصلہ افزائی کے نتائج
مروجہ مینجمنٹ کے بیان کردہ تمام تصورات کی بنیاد اسی زندگی کی فلاح و بہبود اور اس میں زیادتی پر ہے۔ لہذا انسان کے کسی کام میں لگن پیدا کرنے، اس میں اسے پرجوش کرنے کے لیے بھی جن اسباب کی نشاندہی کی جاتی ہے ان کا تعلق بھی مادی وسائل کی فراہمی سے ہے۔ اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسان اس زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے کے لیے درکار وسائل کی فراہمی سے خوش ہوتا ہے، کسی کام کے نتیجے میں اس کو مادی وسائل مل جائیں یا کوئی مادی ضرورت پوری ہو جائے تو یہی اس کے رویے پر اثر اندا ز ہو جاتا ہے۔ اس تصور میں اگر منیجر کے پاس مادی وسائل کی فراہمی نہ ہو، کسی بھی وجہ سے، یا وہ ان مادی وسائل کو مزید بہتر استعمال میں لانا چاہتا ہے تو یہ منیجر کبھی بھی اپنے ماتحتوں کو کاموں میں بہتری لانے پر آمادہ نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب اسلام کے تصور حوصلہ افزائی کی بنیاد اس عارضی دنیا پر نہیں بلکہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پر ہے۔ اس دنیا میں کیا جانے والا کوئی بھی جائز کام، اخروی زندگی میں کامیابی کے امکانات کو بڑھاتا ہے، لہذا منیجر اگر مادی وسائل فراہم نہ بھی کرے تب بھی وہ اپنے ماتحتوں کے رویے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ کم وسائل میںبہتر انداز میں اپنے ماتحتوں کو کاموں سے مخلص کر کے بہتر انداز میں کام کروا سکتا ہے۔ یہ وہ امتیاز ہے جو مروجہ مینجمنٹ سے اسلامی مینجمنٹ کو ممتاز کرتی ہے۔
اسلام کے تصور حوصلہ افزائی کا نفاذ
اب تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اس تصور کی بنیاد آخرت کے عقیدے کی پختگی پر ہے۔آخرت پر عقیدہ تو ہر مسلمان کا ہے، لیکن وہ عقیدہ اتنا پختہ ہوجائے کہ اس کے اثرات ہماری عملی زندگی میں نمایا ں ہوجائیں۔ہمارے اندر یہ عقیدہ اتنا پختہ ہو جائے کہ جب ہم کسی کام کو کریں تو اس لیے کریں کہ اس میں میرا آخرت کا فائدہ ہے اور کسی کام سے کنارہ کش ہوجائیںتو اس لیے کہ اس میں میری آخرت کا نقصان ہے۔اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔مزید اس کے علاوہ ہم سوچ سمجھ کر مزید فکر کر سکتے ہیں۔
اداروں میں علمائے کرام کا تقرر
ایک کام جسے ہمیں اداروں کو شریعت کے مطابق کرنے کے لیے کرنا چاہیے، وہ یہ کہ ایسے علما جو اپنے علم و عمل میں پختہ ہیں، مزید جدید معاملات کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے اداروں میں کل وقتی بنیادوں پر رکھیں۔ جن کا کام ادارے کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا،مزید نئی پالیسیوں کے لیے رہنمائی کرنا، منیجرز اور عملے کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دینا، ادارے میں نمازوں کی جماعت کے ساتھ ادائیگی کا اہتمام کروانا، ضروری علم دین کی ترویج کے لیے محنت کرنا اور دیگر ذمہ داریاں دی جاسکتی ہیں۔ جب ایک باعمل عالم ہمارے ادارے میں موجود ہو گا اورہدایت کا چراغ ہمارے ادارے میں ہوگا تو ان شاء اللہ جلدیا بدیر ادارے کی فضا تبدیل ہوجائے گی۔
بزرگان دین کے بیانات رکھوانا
دوسرا کام ہم یہ کرسکتے ہیں کہ علماء و صلحاء ،کے بیانات کی کوئی ترتیب اپنے اداروں میں رکھ سکتے ہیں۔جس میں تمام عملہ شریک ہو۔یہ بیانات ہفتہ واری بنیادوں پر رکھوائے جاسکتے ہیں۔ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں بھی ہمارے دلوں میں فکر آخرت پیدا ہوگی اور عمل درست ہونا شروع ہوجائیں گے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ترویج
نیکیوں کو پھیلانا اور برائیوں کو مٹانا، اپنی استطاعت کے مطابق ہر مسلمان کے ذمہ فریضہ ہے۔ اور فریضے میں یہ خاصیت ہے کہ جب یہ فریضہ زندہ ہوتا ہے تو برائی مٹتی نظر آتی ہے اور نیکیاں عام ہونے لگتی ہیں۔ہم اپنے اداروں میں اس فریضے کو اپنے ادارتی کلچر کے طور پر نافذ کر کے بہت تیزی سے تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اپنی اصلاح کی فکر
یاد رکھیے! چراغ سے چراغ جلتاہے۔ہم اگر پورے معاشرے کو نہیں سدھار سکتے، لیکن اپنے آپ کو تو سدھار سکتے ہیں۔ہم اپنی فکر کریں کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں؟اخلاق کیسے ہیں؟ عقائد کیسے ہیں؟اس کی فکر کریں اور انہیں سدھارنے کے لیے معاشرے میں موجود جس بھی دین کی محنت کے ساتھ مناسبت ہو اس میں اپنے آپ کو جوڑ لیں یعنی اگر دعوت و تبلیغ سے مناسبت ہے ان کے ساتھ جڑ جائیں،خانقاہ سے مناسبت ہے تو کسی اللہ والے سے جڑ جائیں، علما کے بیانات میں جائیں۔ بہر حال کم از کم اپنی فکر تو کریں۔ ان شاء اللہ اگر ہم سب اپنی فکر بھی کرنا شروع کردیںتو معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، جب افراد سدھرجائیں گے تو معاشرہ بھی سدھر جائے گا۔
آخری بات
ہم مسلمان ہیںیاد رکھیے! اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ غیروں کے طریقوں پر چلنے میں کبھی بھی ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اپنے اداروں اور کاروبار کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔ اپنے ملازمین کی دینی تربیت کریں تو یقینا وہ ہمارے ساتھ مخلص بھی ہوجائیں گے اور بہت کم مادی وسائل میں ہم اپنے ملازمین کو چلا سکیں گے اور ان کی آخرت بنانے کی وجہ سے ہمارے لیے ہمارے ملازمین صدقہ جاریہ بھی بن جائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ہم نعرے بھی لگاتے ہیں،شوق بھی رکھتے ہیں لیکن اکثر عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن اللہ کی مدد قدم اٹھا نے کے بعد آئے گی۔ آئیے! قدم بڑھائیے خود بھی اپنے دین و ایمان کی فکر کریں اور اپنے ماتحت ملازمین کے بھی دین و ایمان کی فکر کریں،ان شاء اللہ اس پر فتن دور میں دین پر چلنے والوں پر تو اللہ کو ضروربہت پیار آئے گا اور ضرور اللہ ان کی مدد و نصرت فرمائے گا۔اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *