Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

روزنامہ سیاست (حیدرآباد)نے اردو کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے

by | Feb 24, 2015

ہندوستان کا کثیر الاشاعت اردو اخبار’’روزنامہ سیاست‘‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر ظہیر الدین علی خان

ہندوستان کا کثیر الاشاعت اردو اخبار’’روزنامہ سیاست‘‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر ظہیر الدین علی خان

ریاست تلنگانہ کے شہرحیدر آباد سے ہندوستان کا کثیر الاشاعت اردو اخبار’’ سیاست‘‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر ظہیر الدین علی خان اردو کی بقا ء کے حوالے سے پریشان نہیں ہیں وہ تبدیل ہوتی دنیا میں اردو کو آج بھی لائق مقام پر دیکھتے ہیں البتہ وہ اردو کے تئیں سماج میں تبدیلیاں چاہتے ہیں معیشت کے اڈیٹر دانش ریاض اوراسسٹنٹ ایڈیٹر محمود عاصم نے موصوف سے مختلف موضوعات پرگفتگو کی ۔ انٹرویو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
معیشت : برائے مہربانی آپ اپنا تھوڑا پس منظر اور تعارف کرا دیجیے ؟
ظہیر : میں بنیادی طور پر کامرس گریجویٹ ہوں ۔ ایم اے کیاہے ۔ اس کے بعد میں اسٹاک بروکر کے طورپر بھی کام کرچکا ہوں ۔ ہندوستان میں صرف پانچ اسٹاک بروکر ہیں اس میں سے میں ایک مسلمان این ایس ای کا ممبر ہوں ۔ لیکن 2002 فساد کے بعد میں نے وہ سب تجارت چھوڑ دی ۔ حالانکہ میرا روز کا سو کروڑ کا ٹرن اوور رہتا تھا ،اب اپنے آپ کومکمل طور پر کمیونٹی کاموں کے لئے وقف کردیا ہے ۔ اللہ کے فضل سے اردو کو ہم نے حیدرآباد میں پھر سے زندہ کیا ہے ۔ یونانی حکمت کے لئے کالج بھی کھولے ہیں ۔ 1996میں اردو ٹیچرس کے بھرتی کا کام بھی شروع کیا ۔ 2002میں کال سنٹر ٹرینگ کی شروعات کی ۔ جس کی بہت مخالفت ہوئی ۔ لیکن جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ آج سترہ ہزار بچے بچیوں کو کام ملا ہے ۔
معیشت : میڈیا میں کام کرنے والے اور مالکان و مینجمنٹ کے درمیان جو مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟ اس تناظر میں بتائیں جب اکثر و بیشترخبروں پر مینیجمنٹ کا اثررہتا ہے؟
ظہیر : دیکھئے! مفادات کا ٹکراؤ تو ہوتا ہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اردو میڈیا میں یہ کم ہے ۔ مالکان کا کنٹرول انگریزی میڈیا پراتنا زیادہ ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور وہی زیادہ تر اسٹوریاں طے بھی کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں 56 چینل صرف امبانی صاحب کے ماتحت ہے اور ان پر پوری طرح سے ان لوگوں کا کنٹرول رہتا ہے۔
معیشت : 2014 کےالیکشن کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں سے متعلق خبریں خاص طور سے دہشت گردی سے متعلق خبریں اردو پریس میں کچھ اور آرہی تھیں اور انگریزی میڈیا میں کچھ اور ۔ عام طور سے یہ مانا جارہا تھا کہ اردو پریس کمیونٹی کی نمائندگی کرتا ہے ۔ آپ کا کیا ماننا ہے ؟
ظہیر : دیکھیں کمیونٹی کو اردو کےبرقعے سے باہر آنا پڑے گا ۔ اپنے مسائل کو لے کر ہر میڈیا کے پاس جانا چاہیئے ۔ اخبارات کے ایڈیٹرس سے ملنا چاہیئے تاکہ اپنے مسائل صحیح صحیح بتایا جاسکے ۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں بم دھماکہ ہوا ۔ ہماری مسجدوں میں بم پھٹا اور ہمارے ہی لوگ مارے گئے ۔ اس پر حد یہ کہ ہمارے 200 بچوں کو مسلمانوں کے فارم ہاؤس میں رکھ کر ٹارچر کیا گیا ۔ ٹارچر کرنے والے پولیس بھی مسلمان اور جس کا ٹارچر ہو رہا ہے وہ بھی مسلمان۔ یہ چیزیں سمجھ کے باہر تھیں ۔ میں کبھی خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا کہ کوئی مسلمان بم لے کر مسجدوں میں پھوڑے گا۔ میں نےتو شروع کردیا کہ نہیں یہ ہمارے بچے ہوہی نہیں سکتے ۔ پھراہم چیز جو ہے کہ ہمیں اپنی لڑائی میں مسلکی جھگڑے ختم کرکے برادران وطن کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کرتے ہماری لڑائی کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔
معیشت : میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا اردو میڈیا ہماری آواز بنتا ہے یا نہیں ؟
ظہیر : اردو میڈیا ہماری آواز ہو سکتا ہے لیکن صرف اردو میڈیا سے کام نہیں چلنے والا ہے ۔
معیشت : مراٹھی ، بنگالی اور دوسری زبانوں کی میڈیا کی آواز ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سنی جاتی ہے لیکن اردو میڈیا کی آواز صرف اپنے اندرون اور مسلمانوں میں ہی سنائی دیتی ہے ۔ مین اسٹریم میڈیا کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ ہم ایسی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ دوسروں کو اپنی بات پہنچا سکیں ؟
ظہیر : دیکھو اردو تو صرف مسلمان پڑھتا ہے اور وہ بھی غریب مسلمان ۔ ہم اور آپ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ اور اردو صرف بطور ایک زبان کے پڑھا رہے ہیں ۔ تو کیسے ہو سکتا ہے
معیشت : ایک وقت تھا جب ’’روزنامہ سیاست‘‘ ہندوستان کا سب سے بڑا اخبار تھا لیکن اب پوزیشن ڈاؤن ہوئی ہے ؟
ظہیر : نہیں ایسا نہیں ہے ۔ ہم آج بھی نمبر ایک پر ہیں ۔ اگر کوئی اے بی سی کا کوئی سرٹیفیکیٹ لاکر حقیقت کو بدلنا چاہتا ہےتو کیا کیاجائے ۔ 1995- 1996 میں ہمارا سرکولیشن 44-45ہزار تھا اور اب بھی تقریبا اتنا ہی ہے ۔ لیکن ہوا یہ کہ تین بڑے سرمایہ دار آکر اخبار نکالے ،وہ ایک شیئر ہوا ۔ دوسرے منصف کے لوگ حقائق کو توڑ کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ریڈرشپ نہیں لےسکے۔ ان کی ریڈرشپ ڈھائی لاکھ کی ہے جب کہ ہماری پانچ لاکھ ریڈرشپ ہے ۔
معیشت : اردو میڈیا کو اپنی بقاء کے لئے بہت سی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ’’روزنامہ سیاست‘‘ کو کیا کیا برداشت کرنا پڑا ہے ؟
ظہیر : اردو میڈیا کے مالکان کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ وہ اخبار یا تو سیاسی مطمح نظر یا مسلکی نظریات کو فروغ دینے کے لئے نکالتے ہیں ۔ اس کو اخبار کیسے چلانا ہے یہ معلوم ہی نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ روزنامہ سیاست ہندوستان کا واحد اخبار ہے جو نفع میں چل رہا ہے۔ اردو والوں کو نہیں معلوم کہ بزنس کیسے کرنا ہے ۔وہ پورے ہندوستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے معاملہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو پیش ہی نہیں کرتے ہیں۔ اگر پیش بھی کرتے ہیں تو فقیروں کی طرح۔وزیروں کے یہاں اشتہار مانگنے۔ آج سیاست کا پانچ صفحے کا کلاسیفائیڈ اشتہار آتا ہے ۔ ایسا کسی اردو اخبار کے پاس نہیں ہے ۔ بزنس کو بزنس کی طرح کرنا چاہئے۔ میں جب سیاست سے جڑا تو میں نے کہا کہ منافع کا پچیس فیصد کمیونٹی ورک کے لئے دینا ہے ۔ اور ہمارے منافع میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ پچھلے پینتیس سال سے ہم نے بینک سے ایک پیسہ سود پر نہیں لیا ہے ۔
معیشت : انگریزی میڈیا کے مقابلے اردو میڈیا کی زبان ، مواد اور معیار سب پست ہوتے ہیں ۔ اور زیادہ تر جذباتیت پر مبنی خبریں ہوتی ہیں ۔ آپ کاکیا خیال ہے، ایسا کیوں ہے ؟
ظہیر : آپ کی بات صحیح ہے ۔ اتنی چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ دنیا کدھر جارہی ہے ۔ مسلم لیڈر شپ کی بھی ذہنیت بھی وہی ہے کہ گھیٹو میں رکھتے ہیں پوری قوم کو ۔ اس کو ترقی مت کرنے دو ۔ کتنے اخبارات کیریئر گائڈنس ، جاب اور نوکریوں کے کالم نکالتے ہیں۔ کتنے اخبارات تجارت کا صفحہ رکھتے ہیں۔ پانچ سال میں ٹیلی ویژن چلا جائے گا کل کو انٹرنیٹ ٹی وی آئے گا ۔ ہم اسی کے حساب سے چلنا ہوگا ۔
معیشت : کرائسس کے دور میں ہم کمیونٹی جرنلزم کو کیسے بڑھاوا دے سکتے ہیں ؟
ظہیر : سوشل میڈیا ہے بھائی ،اسے استعمال کرنا ہے ۔ انٹرنیٹ میڈیا کواستعمال کرنا ہے ۔ جب ہم نے شروع کیا تو ہمارے آفس میں اس کی مخالفت ہوئی ۔ پہلے دو ہزار کاپیاں سعودی عرب جاتی تھیں اب صرف سات سو اخبار جاتا ہے لیکن پھر بھی میں نے کہا کہ یہ میڈیا الگ، وہ میڈیا الگ ہے ۔ دونوں کا موازنہ مت کرو ۔ آج چوبیس گھنٹے کبھی بھی سو سے زیادہ ریڈر ہمارے انٹرنیٹ پر ہوتے ہی ہیں۔ اخبار سے جو خبریں چوبیس گھنٹے بعد ملتی تھیں آج سیکنڈوں میں مل جاتی ہیں ۔ آج ہاکرس ملنا مشکل ہو رہے ہیں ۔
معیشت : انٹر نیٹ میڈیا جب آپ نے شروع کیا تو اس سے آپ کے ریونیو پر کیا اثر پڑا ؟
ظہیر : دیکھو بھائی ، ریونیو سب کچھ نہیں ہے لیکن ہاں اثر پڑا ۔ اب صرف جمعہ اور سنیچر کو ہی سعودی جاتا ہے ۔ ہندی ریڈر کے لئےانڈرائڈ کا جو سسٹم ہے اس سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہورہا ہے ۔ کیوں کہ عام بول چال کی زبان ہونی چاہئے ۔
معیشت : گولکنڈہ کی تاریخ کو مسخ کرکے وہاں کے لائٹ شو میں دکھایا جاتا ہے ۔ مجلس اتحاد المسلین کے ایم ایل ایز اور 41 کارپوریٹر ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہورہا ہے ؟
ظہیر : پہلے ہمارا اور مجلس کا ایک ہی پلیٹ فارم تھا ۔ 2003 تک ہم ٹرسٹی تھے ۔ مخالفت ٹرینگ سنٹرس اورٹیچر بھرتی سے شروع ہوئی ۔ یہ سب کام ان کو براہ راست ہٹ کرتا تھا ۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کے 42 انجینیئرنگ کالج اور 32-35 ایم بی اے کالج ہیں ، چار میڈیکل کالج اور35 بی ایڈکالج ہیں ۔ اور ان سیٹوں کو خوب پیسے لے کر قوم کے نام پر بیچا جاتا ہے ۔ جب ہم نے ڈونیشن پر اور فیس وغیرہ پر اسٹوریاں کرنی شروع کیں تو مجلس سے ہمارا اختلاف ہونا شروع ہوگیا ۔ مثال کے طور پر جب ہم آٹو والے کو انگریزی پڑھاتے تو یہ اسد میاں کہتے! یہ کیا کررہے ہو آپ ؟ روڈ پے نکلیں گے تو کوئی سلام نہیں کرے گا ۔ میں بولا بھائی سلام میں کیا ہے جس کی نظر پڑ جائے وہ کردے تو اسد نے جواب دیا ۔ ارے میاں تھیوریٹیکل اسلام الگ ہے پریکٹکل اسلام الگ ہے ۔ میں پاؤں پڑتا ہوں آپ کے یہ سب کام چھوڑو ۔ تو یہ ذہنیت ہے ہمارے لیڈران کی ۔
معیشت : آپ نے کہا کہ اردو اخبارات یا تو سیاسی مقاصد کے لئے یا مسلکی مقاصد کے لئے شروع کئے گئے ۔ خود مجلس نے سیاسی مقاصد کے لئے اپنا اخبار نکا لا ہے ۔ اس نے کہیں نہ کہیں روزنامہ سیاست کو بھی اثر انداز کیا ہے ؟
ظہیر : نہیں میرے حساب سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ بلکہ الٹا ہمیں فائدہ ہوا ۔ اردو ریڈرشپ بڑھ رہی ہے ۔ ہمارے پچیس ملازمین نکل گئے ۔ آج خان لطیف خان بولتے ہیں کہ میں نہیں نکلا تھا ۔ اویسی صاحب نے مجھ سے بولا تھا ۔ ارے بھائی آپ دودھ پیتے بچے نہیں تھے ۔ اگر یہ اخبارات نہیں ہوتے تو مجھےاشتہار کا فائدہ ہے ۔ اخبار کا دھندہ ایسا ہے کہ زیادہ سرکولیشن ہوا تو نقصان ہی ہوتا ہے ۔ مسابقاتی فضا سے فائدہ ہوتا ہے میرا اس میں یقین ہے ۔
معیشت : بزنس کا آپ کا طریقہ کیا ہے ؟
ظہیر : اسے دھندہ سمجھ کر چلانا چاہئے ۔ بزنس کے جو اصول ہیں اس کو استعمال کرو ۔ کون سے اردو اخبار والے ای میل کو جواب دیتے ہیں ۔
معیشت : اگر اخبار کسی ایمبیشن کے تحت نکالا جاتا ہے تو بزنس کے طور پر دونوں کو ایک ساتھ کیسے لے کر چلا جاسکتا ہے ؟
ظہیر : ایک بات بولتا ہوں میں ۔ کمیونٹی کے جو مسائل ہیں ان کو حل کرو ۔ تم کو خود بخود بزنس ملے گا ۔ ہم تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کام کرتے ہیں ۔ ایجوکیشن کے سیزن میں دو تین کروڑ کا بزنس ہمارا ہوتا ہے ۔ شادیوں کے مسائل کو ہم نے حل کرنا شروع کیا ۔ پانچ سات کروڑ کا بزنس اس سے ہمیں آنے لگا ۔ کمیونٹی کے مسائل کو حل کرنا ہی ایک بہت بڑا بزنس ہے ۔ کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر آپ یہ کام اچھے سے کر سکتے ہیں ۔
معیشت : اسکل ڈیولپمنٹ اور میڈیا ٹرینگ کے لئےآپ کا کوئی پلا ن تاکہ اردو میڈیا کی کوالٹی اور معیار کو بڑھایا جاسکے ؟
ظہیر : میں ابتدائی مرحلے میں ہی کوالٹی پر اعتماد نہیں کرتا ۔ پہلے آپ کوانٹیٹی بھرو ۔ کوالٹی خود بخود آجائے گی ۔ پہلے آپ لوگوں کو کام کرنے کے لئے آمادہ تو کیجیے اس کے بعد معیار آجائے گا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...