بی جے پی کے اچھے دن کابجٹ : کارپوریٹ کے لئے پھول تو غریبوں کے لئے کانٹے
سید زاہد احمد علیگ
وزیر مالیات نے ۲۸ فروری کو پارلیمنٹ میں جب اپنی تقریر کے دوران شعرپڑھا تو شاید اراکین پارلیامنٹ کے پاس تالیاں بجانے کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن اپنی تقریر کے بعد جیٹلی صاحب نے جو بجٹ پیش کیا، اس پر اگر غور کریں تو معلوم ہوگاکہ جس باغ کے پھول اور کانٹے کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس باغ کے پرانے کانٹے بڑ ھ گئے، اور غریبوں کے لئے جو پھول تھے وہ بھی گھٹ گئے ، اور اب جو نئے پھول کھلائے جائیں گے وہ درحقیقت صرف کارپوریٹ اور بڑے سرمایہ داروں کے لئے ہی ہوںگے۔ اپنے شعرکو اگر جیٹلی صاحب کارپوریٹ دوستوں کی مجلس میں پڑھتے تو شاید یوں کہتے ۔
آپ کے کچھ قرضہ جات چکا دیا ہم نے ، آگے کچھ اور چکانا ہے،
مشکل یہ ہے کہ ابھی سرکار کے اُوپر، بڑھتا ہوا قرض بھی پرانا ہے۔
بجٹ پر اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سرکار پر یہی بڑھتا ہوا سودی قرضہ جات اس باغ کا سب سے بڑا کانٹا ہے۔ اور جو پھول (رعایات کی شکل میں) سرکار غریبوں کو دیتی ہے، وہ کم کر دئے گئے ہیں، جبکہ کارپوریٹ کو نیا پھول( کارپوریٹ ٹیکس میں رعایت ) پیش کر کے خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جناب جیٹلی صاحب نے جس کانٹے ( سودی قرضہ جات کی وجہ سے سرکار کے مالی خسارہ ) کی طرف اشارہ کیا ہے اسے پچھلی سرکاروں نے بڑھایا تھا، تاہم خود پچھلے ایک سال میں وہ اور بڑھ گیا۔ اس کانٹے کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں سرکار پبلک سیکٹر ادارے کے شیئرس فروخت کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے سے جہاں سودی قرض کی ضرورت کم ہوگی، وہیں نجی سرمایہ داروں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا ۔ لیکن اس کوشش کے بعد بھی سرکار کی کل آمدنی کا بڑا حصہ سودی قرضہ جات پر صرف ہوگا۔ سمجھ میں آیا کہ جس باغ میں پچھلی سرکار کے دور حکومت میں ۳۴ کانٹے تھے اب نئی سرکار کے دور حکومت میں ۳۸ کانٹے ہو گئے ہیں کیوں کہ جہاں سال ۱۴۔۲۰۱۳ میں پچھلی سرکار نے اپنے کل اخراجات کا ۳۴ فیصد رقم سودی قرضہ جات پر صرف کیا تھا، وہیں سال ۱۶۔۲۰۱۵ کے لئے مودی سرکار نے کل آمدنی کا ۳۸ فیصد رقم سودی قرضہ جات کے لئے رکھا ہے۔
جب سرکار ہر سو روپیہ پر ۳۸ روپیہ سودی قرضہ جات پر صرف کرے گی ، تو کیسے امید کی جائے کہ وہ غریبوں اور پسماندہ طبقات کے لئے رقومات میں اضافہ کرےگی۔ یہی وجہ ہے کہ جو پھول سرکار غریبوں کی بھلائی اور ترقی کے لئے رکھتی تھی، بڑھتے کانٹوں کے سبب ان پھولوں میں کمی آ گئی۔ جہاں پچھلی سرکار نے سال ۱۴۔۲۰۱۳ میں اپنی کل آمدنی کا ۲۹ فیصد منصوبہ جاتی اخراجات پر صرف کیا تھا، وہیں جیٹلی صاحب نے یہ طے کیا ہے کہ اب سرکار کی کل آمدنی کا صرف ۲۶ فیصد منصوبہ جاتی اخراجات پر صرف کیا جائے گا۔ اب اس سے عوام کے لئے اچھے دن کس طرح آئیں گے، یہ وہی بتا سکتے ہیں۔
اب ملک کے عوام کو سوچنا ہے کہ اگر سرکار اپنےکل اخراجات کا صرف ۲۶ فیصد منصوبہ جاتی اخراجات پر صرف کرے گی تو اچھے دن کیوں اور کس طرح آئیں گے۔ عوام کے لئے شاید اچھے دن کی جگہ برے دن آ جائیں، لیکن ان کارپوریٹ اور امپورٹ ہائوسیس( درآمد کی کمپنیاں) کے لئے اچھے دن لانے کے وعدے پر سرکار ایمانداری سے کام کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار نے اس بجٹ میں کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ اس سال سے لےکر آئندہ چار سالوں کے اندر کارپوریٹ ٹیکس کو ۳۰ فیصد سے گھٹا کر ۲۵ فیصد کر دیا جائیگا۔ یہ خاص پھول جیٹلی صاحب نے ان کارپوریٹس کی خدمت میں پیش کیا ہے جنہوں نے غالباً ان کی سرکار بنانے میں مالی تعاون دیا ہے۔ کارپوریٹس کے علاوہ ازیں جو گجراتی امریکہ میں کاروبار کرتے ہیں انہوں نے بھی عام انتخابات میں بی جے پی کو مالی تعاون دیا ہوگا، جب ہی تو سرکار نے کسٹم ڈیوٹی کم کیا ہے تاکہ وہ ہندستان میں بہ آسانی اپنا مال بھیج کر کاروباری نفع حاصل کر سکیں۔ اس طرح بی جے پی سرکار نے انتخابات کے دوران جن سے مالی تعاون لیا تھا، ان کو رعایتی پھول پیش کیا ہے۔
کارپوریٹ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی وجہ سے چوں کہ سرکار کے لئے مجموعی طور پرکل ٹیکس محاصل میں کمی آ جاتی، اس لئے سرکار نے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے سروس ٹیکس اور مرکزی ایکسائز ڈیوٹیز میں اضافہ کر دیا ہے۔ خبر رہے کہ ایسا کرنے سے ان کارپوریٹس اور امپورٹس ہا ئو سیس پر کوئی فرق نہیں پڑےگا جنہوں نے مودی سرکار بنانے میں مالی تعاون دیا تھا، بلکہ چھوٹے کاروباریوں اور صنعت کاروں کے خدمات اور اشیاء مہنگی ہو گی جس کا اصل بوجھ عام ہندوستانی کو اٹھانا پڑےگا جو ان خدمات یا اشیاء کا استعمال کرنے والے ہیں۔ اس طرح سرکار نے اپنے سرمایہ داروں اور کارپوریٹ دوستوں کی گل پوشی کے لئے عام ہندستانیوں کے سر پر مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
سب کا ساتھ ،سب کا وکاس جیسے نعرہ دینے والی مودی سرکار کا ملک کی اقلیتوں کے متعلق کیا رجحان ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں سرکار نے مجموعی طور پر کل سالانہ عام بجٹ میں ۰۰۔۶ فیصد کا اضافہ کیا ہے وہیں اقلیتوں کے لئے ۱۱۔۰ فیصد کا اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے وزارت اقلیتی امور کا سالانہ بجٹ جو سال ۱۵۔۲۰۱۴ میں ۰۱۔۷۳۴،۳ کروڑ روپیہ کا تھا ۱۔۴ کروڑ روپیہ کے اضافہ کے بعد سال ۱۶۔۲۰۱۵ کے لئے مجموئی طور پر ۱۱۔۳۷۳۸ کروڑ روپیہ طے کیا گیا ہے۔ جہاں سرکار کے عام بجٹ کی مکمل تفصیل ۲۸ فروری کو حکومت کی ویب سائٹ پرشائع ہو چکی تھی، وزارت اقلیتی امور کے بجٹ کی تفصیل جاننے کے لئے چار دن سرکار ی بابئوں سے درخواست کے بعد ۴ مارچ کو اسے ویب سائٹ پرصحیح طور پردیکھا گیا۔
اب مودی سرکار یہ بتائے کہ جب وہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بات کرتی ہے تو اقلیتوں کے بجٹ میں ۶ فیصد کی بجائے ۱۱۔۰ فیصد کے اضافہ کو کس طرح حق بجانب قرار دیگی؟ اتنا ہی نہیں اپنی بجٹ کی تقریر میں جیٹلی صاحب نے جس نئی نسل کاذکر کرنے کے بعد یہ کہا کہ اقلیتوں کے بجٹ کو محفوظ رکھا گیا ہے، اس اسکیم کے لئے اقلیتوں کے بجٹ میں کوئی گنجائش تک نہیں رکھی ہے۔ امید تھی کہ آگے بڑھانے کے لئے سرکار جس تعلیمی وظائف کا سہارا لے رہی ہے، اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ امید کے خلاف اس میں بھی کمی کر دی گئی۔
جس سرکار نے وزارت اقلیتی امور کے سال ۱۵۔۲۰۱۴ کے لئے نظر ثانی شدہ بجٹ میں تین طرح کی تعلیمی وظائف کے لئے مجموعی طور پر ۵۔۸۷۲،۱ کروڑ روپیہ مختص کیا تھا، اسی سرکار نے سال رواں کے لئے اس رقم کو گھٹا کو اب ۸۵۵،۱ کروڑ روپیہ کر دیا ہے۔ شاید مودی سرکار کو ایسا لگ رہا ہے کہ اقلیتوں کو تعلیمی وظائف سے زیادہ اب خود نئی منزل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اقلیتوں میں استاد پیدا کرنے کی اسکیم کے لئے سرکار نے کل ۱۔۱۷ کروڑ روپیہ مختص کیا ہے۔ کیا اسی کو مودی سرکار راج دھرم سمجھتی ہے؟
کچھ جو مودی سرکار کے قریبی مسلم اکابرین کی دلیل ہے کہ اس سرکار نے مسلمانوں کے لئے وہ کچھ کیا ہے جو کانگریس سرکار نے کبھی نہیں کیا۔ وہ اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، کہ مودی سرکار نے این ایم ڈی ایف سی (NMDFC) میں ۱۲۰ کروڑ روپیہ کی سرمایہ کاری کر کے اس کے سرمایہ کی میعاد کو ۵۰۰،۱ کروڑ سے بڑھا کر ۰۰۰،۳ کروڑ کر دیا ہے۔ ان کی اس دلیل کے برخلاف بجٹ کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ جہاں سال ۱۵۔۲۰۱۴ کے لئے این ایم ڈی ایف سی میں ۱۰۸ کروڑ کی سرمایہ کاری تجویز کی گئی تھی، اسے مودی سرکار نے نظر ثانی کے بعد گھٹا کر ۲۷ کروڑ کر دیا اور اس سال کے لئے پھر سے ۱۰۸ کروڑ کی تجویز پیش کی ہے۔
غور سے دیکھیں تو اقلیتوں کی ترقی کے لئے تعلیمی وظائف کو چھوڑ کر دیگر سرکاری اسکیمیں اس طرح پیش کی جاتی ہیں جو اسلامی عقائد اور تہذیب سے ٹکرا تی ہیں، اسی لئے اقلیتوں کے لئے جو مالی امداد کی اسکیمیں تیار کی جاتی ہیں، اس سے مسلمان تو کم فائدہ حاصل کر پاتے ہیں، غیر مسلم جیسے سکھ، عیسائی اور جین وغیرہ زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کو نئی نسل اب خود تلاش کرنی ہے۔ کیوں کہ اگر مودی سرکار انہیں نئی منزل تک کی راہ دکھائے گی تو اندیشہ ہے کہ قوم کے نوجوان شریعت کے حدود سے انتے دور چلے جائیں گےکہ ان میں شریعت کے دائرہ میں رہ کر زندگی گزارنے کا حوصلہ باقی ہی نہ رہیگا۔
جس قوم کے پاس مالیات کا ایسا نظم تھا جس سے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور اقتصادی عدم مساوات جیسی بیماریوں پر لگام لگایا جا سکتا ہے، آج وہی قوم معاشی طور پر سب سے پسماندہ قوم بن چکی ہے۔ اس قوم کے پاس جو دین تھا اس کے طریقہ کو اسے دیگر قوموں کو بتا نا تھا، مگر اس قوم نے خود اسلامی نظام مالیات کو اپنے زندگی سے فراموش کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں اللہ نے ایسا عذاب دیا کہ مسلمانوں کی مالیات سے غیر مسلم فائدہ اٹھاتے ہیں، اور غریب مسلمان مالیات کے لئے دوسرے تیسرے کا منہ دیکھتا ہے۔
آج بھی مسلمان اگر اسلام کے مالی اور معاشی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اختیار کر لیں اور نظم بیت المال پر عمل پیرا ہو جائیں تو نہ صرف اپنے حالات بدل سکتے ہیں، بلکہ اس ملک کو ایک نئے مقام پر پہونچا سکتے ہیں۔ خبر رہے کہ جب تک مسلمان اسلامی نظام مالیات اور معاشیات کو فراموش کرتے رہیں گے، ان کی تقدیر میں غربت اور مغلوبیت چھائی ر ہےگی۔ جس دن مسلمان اسلامی نظام مالیات اور معاشیات پر عمل پیرا ہو جائیں گے، رب العالمین اس قوم کو پھر سے غلبہ عطا کرے گا۔
عام بجٹ کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری خزانہ میں سودی قرضہ جات کی وجہ سے سیندھ لگی ہوئی ہے۔ اسی سودی قرضہ جات کی وجہ سے معاشی عدم مساوات اور مہنگائی جیسی اہم بیماریوں سے ملک کا عام آدمی پریشان ہے۔ کارپوریٹ کو چھوٹ اور عوام کو ٹیکس اور مہنگائی کی مار کا تحفہ ملتا ہے۔ اس ملک کو معاشی عدم مساوات اور مہنگائی جیسی بیماریوں سے اگر بچانا ہے تو سرکار کوسودی قرضہ جات سے توبہ کر کے غیر سودی مالیات کے سہارے فنڈ جمع کرنا ہوگا۔ تبھی وہ ملک اور عوام کے ساتھ انصاف کر سکے گی۔ لیکن سرکار کو اس جانب متوجہ کرانا ان کا کام ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ دین صرف اسلام ہے اور سنت پر چلنے سے ہرمسئلہ کا حل مل سکتا ہے۔ کیا ملک کا مسلمان اسکے لئے تیار ہے؟