بجٹ کا پیغام مسلمانوں کے نام

Budget 2015

ڈاکٹر سید ظفر محمود

جدہ میں 25 برس قبل جب میں ہندوستانی سفارتخانہ میں فرسٹ سکریٹری تھا تو رہائش گاہ پر اپنے 8 برس کے بیٹے کو تیرنا سکھانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے اونچا اٹھا کے سومنگ پول میں پھینک دیتا تھا تا کہ وہ مصیبت سے نکلنے کے لئے خود تیرنا سیکھیں۔اس طرح وہ اچھے تیراک بھی بنے اور الحمدﷲکم عمری سے ہی اپنے پیروں پر کھڑے رہ کردنیا کی بہترین ڈگریاں حاصل کرکے وہ نوع انسان کی آرام رسائی کے لئے ماہرمعالج بن گئے۔ بجٹ 2015 نے ملک میں مسلمانوں کے لئے کچھ اسی طرح کے حالات پیدا کر دئے ہیں۔ حکومت وقت نے بین السطور اعلان کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو بے شک سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن نے سب سے کمزورپایاہے اور دستور ہندکے دفع 46میں یقیناً لکھا ہے کہ کمزور طبقوں کے تعلیمی و اقتصادی مفاد کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دینے کے لئے حکومت پابند ہے ‘ لیکن پھر بھی پسماندگی کے باوجود مسلمان حکومت کی توجہ کے مستحق نہیں ہیں۔اسی منظر نامہ کے مد نظرمیرے ایک حالیہ مضمون کا عنوان تھا کہ’ اب گیند ہمارے ہی پالے میں رہنے والی ہے‘۔ میڈیا کے نامہ نگاروں نے مسلمانوں کے تعلق سے بجٹ2015 پر میرا رد عمل مانگا تو میں نے عرض کیا کہ بجٹ پر کاہے کا رد عمل جب سال میں ہر طبقہ کے تیوہار پر وزیر اعظم متعدد دفع ملک کو تہنیت پیش کریں اور ان تیوہاروں میں اسرائیل کا ہنوکا تک شامل ہو‘ لیکن مسلمانوں کے تیوہاروں پر ٹویٹ کرنے سے قصداًگریز کریں تو اسی سے حکومت کے ظرف ِ تکریم و مساوات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔نئے بجٹ سے اشارہ صاف ہے کہ شڈیولڈ کاسٹ (ہندو‘ سکھ و بودھ)اورشمال مشرقی علاقوں کے لئے مخصوص بجٹ گرانٹ مل سکتی ہے‘ لیکن مسلمانوں کے لئے ایسا نہیں کیا جائے گا۔
جولائی 2014 میں پیش کئے گئے بجٹ میں مسلمانوں کے لئے دو پیرا گراف تھے۔ ایک میںفنکاری ‘ وسائل اورتجارتی مال کے دائروں میںاقلیتوں کے روایتی ہنر کو اونچے درجہ میں لانے کے لئے نیا پروگرام بنائے جانے کا اعلان تھا۔ دوسرے میں مدارس کی تجدیدکاری کے لئے 100 کروڑ روپیہ کی گرانٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب وزیر مالیات نے 28 فروری کو جو بجٹ پیش کیا ہے اس کے ساتھ منسلک دستاویز جو انھوں نے پارلیمنٹ میں پیش کئے ان میں تحریر ہے کہ’ ترقی کے مقصد سے روایتی فنکاری و کاریگری کے دائرے میں ہنر مندی و ٹریننگ کو اونچے درجہ میں لانے کے لئے USTTAD کے نام کی ایک نئی اسکیم تیار ہے اور جلد ہی منظر عام پر لا کر اس کا نفاذ کیا جائے گا۔مدارس کی گرانٹ کے لئے بجٹ سے منسلک دستاویز میں لکھا ہے کہ اکسپنڈیچر فائنانس کمیٹی (EFC)کے لئے نوٹ تیار ہے۔ گویا ہنوز روز اول‘نو ماہ میں ابھی تک دونوں میں سے کسی بھی وعدے کا زمینی استفادہ ملت کو نہیں مل پایا ہے۔ 2015 کے بجٹ میں اعلان ہے کہ ’نئی منزل ‘کے نام کی ایک نئی اسکیم بنائی جائے گی ۔ اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جو طلبا اسکول جانا درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں ان کی دوبارہ آبادکاری کے لئے انھیں ہنر سکھائے جانے کا پروگرام ہے‘واﷲاعلم با لصواب۔

سچر کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ مسلم طالبات کی پہنچ اپر پرائمری اسکولوں تک یقینی بنائی جائے ‘ اس کے لئے جا بجا خلصتاً لڑکیوں کے لئے اسکول قائم کئے جائیں اورزیادہ مسلم آبادی والے علاقوں میں کستوربا گاندھی بالکا ودیالے قائم کئے جائیں۔ اس سفارش پر عمل کی رپورٹ دیتے ہوے وزارت اقلیتی امور نے ویب سائٹ پر لکھ رکھا ہے کہ سرو شکشا ابھیان کی ذمہ داری ہے کہ سب کے لئے بتدریج ایک اور تین کلومیٹر کے اندر پرائمری اور اپر پرائمری اسکول مہیا کرے۔ بہت خوب‘کس کی کیا ذمہ داری ہے یہ تو معلوم ہی ہے لیکن اس پر عمل تو نہیں ہوتا جبکہ سچر کمیٹی نے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تعداد والے علاقوں میںاسکول عنقہ ہیں۔ اسی طرز پر سچر کمیٹی کی متعدد سفارشوں کا نفاذ صرف مسلمانوں کے لئے کرنے کے بجائے کل اقلیتوں کے لئے ورنہ پھر تمام شہریوں کے لئے بتاتے ہوے ان کا اصل اثر تحلیل کر دیاگیا ہے۔ وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام کا حال کچھ خاص مختلف نہیں ہے‘ شاید اسی لئے احتیاطاً وزارت اقلیتی امور کی اپنی ویب سائٹ پر اس ضمن میں 2014-15 میں کئے گئے کام کے اعدادو شمار ابھی تک دئے ہی نہیں گئے ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ پچھڑے طبقات کے لئے خصوصی مثبت کاروائی کرنے کے آئینی فریضے پر عمل نہیں ہو گا اگر اس طبقے کے لوگ کلمہ گو ہیں۔ ایسا کہا نہیں جائے گا لیکن ملک کی عام فضا ایسی بنائی جائے گی کہ قول و فعل سے نتیجہ یہی نکلے۔ یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ 2014 کے پارلیمانی الکشن سے قبل زمینی حقیقت کوئی بہت مختلف نہیںتھی۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے بہ آواز بلند ایسا کہا نہیں جاتا تھا اور اب کہنے میں بھی کوئی تکلف نہیں ہے۔ لبِّ لباب یہ ہے کہ ملت کے افراد کو خود ہی تیرنا سیکھنا ہو گا‘ اکیلے بھی اورٹیم بنا کے بھی۔ آئیے اب ہم اپنا پینترا بدل دیں۔ میں کچھ عرصہ قبل عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں طے کرنا ہے کہ اپنی آگے آنے والی نسلوں کے لئے ہم کیسا ہندوستان چھوڑ کے جانا چاہتے ہیں‘ کیا خدانخواستہ آج کے میانمار (برما) جیسا ؟ اگر نہیں تو ہمیں مستقل بہت سلیقہ سے قطار در قطار کام کرنا ہو گا۔ ملت کے ہم جو پڑھے لکھے لوگ ہیں انھیں روز باقاعدہ کئی گھنٹے ملی فروغ کے لئے ایسے کام کرنا ہیں گویا یہی ہماری حیات کا نصب العین ہوں‘ گویا ہم کسی دفتر میں بیٹھ کر فائلوں میں کام کر رہے ہوں یا کسی کارخانہ میں کام کر رہے ہوں یا بازار میں کام کر رہے ہوں وغیرہ۔صرف زبانی جمع خرچ اور وقتاً فوقتاً لفاظی سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ Zakatindia.org کے ہوم پیج پر ’روڈ میپ ‘ (Roadmap) کے پیلے رنگ کے بٹن کو کلک کیجئے ۔ بس آپ اپنے بستریا میز یا دفتر یا دوکان میں بیٹھ کر ملت کے لئے خوب کام کر سکتے ہیں‘ ذرا کر کے تو دیکھئے۔
مرکزی وقف کائونسل کی ویب سائٹ کے ذریعہ آپ فارم لے کر اپنے علاقہ میں آئی ٹی آئی قائم کر سکتے ہیں‘ پیشہ ورانہ ٹریننگ کے مرکز قائم کر سکتے ہیں‘ طلبا کے لئے کتابوں کی امداد حاصل کی جا سکتی ہے اور لائبریری کے لئے گرانٹ بھی ۔ وزارت اقلیتی امور کی اسکیم ’سیکھو اور کمائو‘کے تحت کڑھائی‘ بنائی‘چکن کا کام‘ زردوزی‘ پیچ ورک‘ زیور جواہرات کا کام‘ چمڑے کا کام‘ پیتل کا کام‘ شیشہ کا کام‘ قالین بنانے وغیرہ کے لئے ٹریننگ کا انتظام ممکن ہے۔ مائنارٹی سائیبرگرام (Minority Cyber Gram) اسکیم زیادہ مسلمانوں والے علاقوں میں نوجوانوں‘ عورتوں مردوں‘ بڑوں سب کو کمپیوٹر کے ہنر سے آراستہ کرنے کے لئے ہے جس سے آپ اپنے پورے علاقہ کو استفادہ پہنچا سکتے ہیں۔ملک میں زیادہ اقلیتی آبادی والے 196 ضلعوں کے 710 بلاکوں اور 66 قصبوں کو چنا گیا ہے جہاں تعلیمی اور اقتصادی مواقع قائم کرنے کے لئے ملٹی سکٹورل ڈولپمنٹ پلان (MSDP) بنایا گیا ہے جس کے تحت ہر بلاک میں کروڑوں روپئے کا بجٹ منظور کیا جاتا ہے۔ آپ اس اسکیم کا پوری طرح مطالعہ کریں اور اپنے بلاک یا قصبے میں اس اسکیم کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ ’نئی روشنی‘ اسکیم کے تحت خواتین کو سرکاری اسکیموں سے آگاہ کرنے کے لئے تربیتی پروگرام کئے جا سکتے ہیں۔ ان اسکیموں میں شامل ہیں تعلیم‘ صحت‘ حفظان صحت‘ غذائیت‘ بیماریوں سے بچائو کے لئے خفاظتی ٹیکے‘ فیملی پلاننگ‘ راشن کی دوکان‘ پانی‘ بجلی‘ صفائی ستھرائی‘ ذاتی کارو بار‘ عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام‘ پنچایت راج‘ نگر پالکا‘ حقوق نسواں‘ حق اطلاع قانون‘ منریگا‘ آبادی کا سروے‘ بی پی ایل فہرست‘ آدھار کارڈ‘ حکمرانی کے اصول‘ غیر سرکاری دفاتر‘ تدارک شکایات(Redressal of grievances) وغیرہ۔ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لئے مراکز قائم کرنے کے لئے ’فری کوچنگ اینڈ الائیڈ اسکیم‘ موجود ہے۔بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے مالی امداد کی اسکیم ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب پھولوں کی سیج ہے لیکن ہم آپ خوب واقف ہیں کہ ‘ بغیر تفریق مذہب‘ملک کے ہر باشندے کے لئے سرکاری دفتر سے کام کروا لینے میںبہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔لیکن مشکلات کا سامنا کیاجائے اور پھر بھی اپنی ملت کو اس کا حق دلوا دیا جائے تبھی تو مومن کی پہچان ہو گی’کہ گم اس میں ہیں آفاق‘۔
وزارت فروغ انسانی وسائل کے تحت مدارس میں سائنس‘ کمپیوٹر‘ ریاضیات(Maths)‘ سماجیات(Social Studies) اور انگریزی پڑھانے کے لئے مدارس کے ذریعہ تعین شدہ استادوں کی تنخواہ اور ان مضامین کی تدریس سے متعلق لیب قائم کرنے کے لئے سرکاری امدادی اسکیم ہے جسے کہتے ہیں ایس پی کیو ای ایم(SPQEM)۔ اس اسکیم کا اردو ترجمہ اور درخواست فارم زکوٰۃ فائونڈیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں‘ Zakatindia.org کے ہوم پیج پربائیں طرف باکس میںSPQEM لکھ کر آپ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے اس اسکیم کا مطالعہ کیا ہے ‘ اس سے ضرور استفادہ کیا جانا چاہئے۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن کے تحت تعلیمی اداروں میں نئی تعمیر یا کمپیوٹر لیب وغیرہ قائم کرنے کے لئے مالی امداد دی جاتی ہے اور طلبا کو وظیفہ بھی ملتا ہے۔کئی برس سے فائونڈیشن کا سالانہ فنڈجزوی طور پر غیر مستعمل رہنے کی وجہ سے بچا رہتا ہے اور مجبوراًفائونڈیشن کے بنیادی سرمایہ(Corpus) میں ہی جوڑ دیا جاتا ہے۔ فائونڈیشن کے اراکین کو چاہئے کہ اس اہم مدعے پر نظر رکھیں اور یقینی بنائیں کہ ملت کا بیش قیمت سرمایہ اسے سال بہ سال ملتا رہے۔ متعددوزارتوں کی بہت سی اور بھی اسکیمیں ہیں۔آئیے ہم ماضی میں سے نکل آئیں اورملک کی موجودہ حکومت میں سے مثبت عناصر چن کے اپنی ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔علامہ اقبال ہمیں سکھا گئے ہیں: اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *