ڈاکٹر سید ظفر محمود
پرسوں حیدرآباد کی مولانا آزاد قومی اردویونیورسٹی میں’’ اقلیتیں‘ جمہوریت اور میڈیا‘ ‘پراپنی نوعیت کی انوکھی اوربیحد کامیاب دو روزہ کانفرنس کا اختتام ہواجس میں ملک کے ہر کونے سے سینئر صحافی اور دیگر اکابرین نے بھرپور حصہ لیا۔ ہندواخبار کے چیف اڈیٹر این رام نے افسوس کا اظہار کیا کہ عموماً میڈیا اسلام سے بے وجہ خوفزدہ رہتا ہے اوران سے تعصب کرتا ہے‘فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان ہی زیادہ تر مظلوم ہوتے ہیں لیکن انھیں اور ظلم کرنے والوں کو یکساں بنا کے پیش کیا جاتا ہے‘ جب کوئی کہے کہ ہندوستان ہندو ملک ہے تو وہ دستور کی توہین کرتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو ایک ہزار برس پرانی اپنی عالمی روایت کو دوبارہ زندہ کر کے سائنسی ایجادوں وغیرہ کے ذریعہ آج کی دنیا میں اپنا مقام اعلیٰ تر کرنا چاہئے۔ راجدیپ سردیسائی ‘شیکھر گپتا اور ونود شرمانے بھی ٹی وی پر لائیو مباحثے کے دوران اعتراف کیا کہ ٹی آر پی بڑھانے کے لئے ٹی وی پر ہندو مسلم بحث کو بدصورت شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے فوراً بعد اشارتاً مسلمانوں پر شک کی انگلی گھما دی جاتی ہے اور بعد میں کئی دفعہ وہ غلط ثابت ہوتا ہے‘ جہاد اور فتوے کے پاکیزہ تصورات کو غلط طریقہ سے پیش کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد میںبرطانہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر نے بتایا کہ ان کے ملک میں 18 لاکھ مسلمان ہیں جو برطانیہ کی ترقی میں چوطرفہ مدد کر رہے ہیں۔ وہاں اسلامی اقتصادی فورم کام کر رہا ہے اور قرض کی ضمانت کے لئے شریعت سے مطابقت رکھنے والے متبادل موجود ہیں۔ دیگر مقررین کا خیال تھا کہ مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے مثائل کو سمجھ کے‘ دانائی کی بنیادپرمبنی ان کے حل کا ذکر میڈیا میں کیا جانا چاہئے۔ مثلاً اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے شریعت سے مطابقت رکھنے والے اکویٹی فنڈ کے اجرا کوملتوی کئے جانے پر احتجاج ہونا چاہئے‘اور پارلیمنٹ و اسمبلیوں کے وہ انتخابی حلقے جن میں مسلمان بڑی فیصد میں ہیں اور وہاں شڈیولڈ کاسٹ بہت کم ہیں انھیں رزرویشن سے آزاد کرنے کے لئے حکومت پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ حد بندی کمیشن قائم کرے اور اسے اس گڑبڑی کو وقت کی پابندی کے ساتھ رفع کرنے کی تاکید کی جانی چاہئے۔ در ایں اثنا صوبہ تلنگانہ کے اعلیٰ اعدہ داروںسے میری مجرب گفتگو ہو گئی جس کے نتیجہ میں اسی سال سے تلنگانہ میںقابل ترین اقلیتی گریجویٹ طلبا و طالبات کو چن کے صوبائی حکومت دہلی میں سول سروسز کی کوچنگ کے لئے بھیجے گی‘ ان شا اﷲ۔
این رام کے تاثرات کے گویا الحام کے ساتھ ان پرپیشگی عمل آوری گذشتہ ہفتہ بنگلور میں جنوبی ہند این جی اوز کانفرنس سے خطاب کے موقع پر مجھے دیکھنے کو ملی۔ جنوب کے مومن افراد ملت کے تئیں اوستطاً زیادہ فعال ہیں لیکن پھر بھی اپنے اس رول کے لئے ان میں زیادہ عاجزی و انکساری ہے۔ صرف بنگلور کے چھوٹے بڑے تقریباً 160 صنعتکاروںنے مل کے ایک مسلم انڈسٹریلسٹس اسوسیشن(Muslim Industrialists Association)قائم کر لی ہے جس کے اراکین کافی حد تک خام مال بھی ایک دوسرے سے خریدتے ہیں اور پیدہ شدہ مال بھی ایک دوسرے کے ذریعہ فروخت کرتے ہیں۔صرف اس باہمی تعاون ہی کی وجہ سے ان صنعتکاروں کے کاروبار (Turnover)میں گذشتہ 7-8 برس میں قریب 30% اضافہ ہوا ہے۔ یہ صنعتکار ہر ماہ 1-2دفعہ آپس میں ملتے بھی رہتے ہیں اور اپنی کمپنی کی سماجی ذمہ داری(Corporate Social Responsibility-CSR) بھی حتیٰ الامکان متحدہ لائحہ عمل کے ذریعہ ہی ادا کرتے ہیں‘ تفصیل miaindia.net پر موجود ہے۔ہواﷲ العظیم‘ ملک کے ہم دیگر مسلمانوں کے لئے خصوصاً شمالی ہند کے مسلم صنعتکاروں کے لئے اس میں بڑا سبق ہے۔ ایک بڑے صنعتکار نے بنگلور میں 1,000مربع گز کے پلاٹ پر اپنے اور بہن بھائیوںکے مکان بنوائے اور بالائی منزل صرف اس لئے وقف کردی ہے کہ شہر و صوبہ کے مسلمان ہر ہفتہ وہاں چھوٹی بڑی میٹنگ کر کے ملت کے آپسی اشوز پر گفت و شنید کریں اوران کے دیر پا حل نکالیں‘ وہاں نماز کا انتظام اور طعام کی ذمہ داری بھی اہل خانہ نے اپنے سپرد لے رکھی ہیں۔
جنوبی ہند این جی اوز کانفرنس کرنے کا ذمہ بنگلور سے تعلق رکھنے والے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ دو نوجوانوں نے بڑی خندہ پیشانی سے اپنے کندھوں پر لے رکھا ہے اور وہ 4 برس سے یہ کام خوش اصلوبی سے کرتے آ رہے ہیں جس میں اﷲنے بڑی برکت دے رکھی ہے۔ متعدد این جی اوز جو کانفرنس میں شامل ہوے ان میں سے کئی نے تعلیمی اداروں کی جھڑی لگا رکھی ہے۔ بیدر کے شاہین گروپ آف اسکولوں کی شروعات 30 برس قبل ایک اسکول میں 11 طلبا سے ہوی تھی اور اب پورے علاقے کے شاہین اسکولوں میں 11,000 بچے زیر تعلیم ہیں‘ یہاں قرآن کا حافظہ کئے ہوے بچوںکو فوقیت دی جاتی ہے(shaheengroup.org)۔ تعلیمی اداروں کے بیاری گروپ نے ادوپی ضلع میں 1996 میں ایک اسکول قائم کیا تھا اور اب وہاں 15 اداروں میں 5,000 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں(bearysgroup.com/education.asp)۔ ان اداروں میں ہلکی اقلیت غیر مسلم طلبا کی بھی ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں فرقہ پرست طاقتیں سر نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔ بیدر کے اکثریتی فرقہ کے ایک کالج میں طلبا کے لئے برقع پر پابندی لگانے کے لئے فیصلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ اگر شاہین کالج نے اس کا الٹا فیصلہ کر لیا تو وہاں پڑھنے والی غیر مسلم طالبات کو دقت آ سکتی ہے۔ گلبرگہ کے الشارع گروپ کے تعلیمی ادارے بھی طلبا و طالبات کی پرھائی میں انہماک سے لگے ہوے ہیں(alsharay.org)۔ ہبلی کے میک فائونڈیشن نے ضرورتمند مریضوں کو وقت سے خون مہیا کرنے کا کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے(makfoundation.blogspot.in)۔
چنئی کی مسجد کے امام و خطیب مولانا شمس الدین قاسمی نے تو انقلاب برپا کر دیا ہے۔ قارئین خیال فرمائیں گے کہ راقم السطور نے عرصہ سے ملک کے سول سروسز مقابلہ جاتی امتحان میں مسلمانوں کے کم حصہ لینے کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے‘ اب معلوم ہوا کہ کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا۔3 برس قبل مولانا شمس الدین صاحب کے دل میں اﷲنے اس نکتہ کی اہمیت ڈال دی۔ انھوں نے جمع کے خطبہ کے ذریعہ نمازیوں کو سمجھانا شروع کر دیا کہ ملک میں مسلمانوں کی بگڑتی ہوی صورت حال کو سنبھالنے کے لئے اگر کوئی دنیاوی طریقہ کار ہے تو وہ ہے سول سروسز امتحان میں مسلمانوں کی سنجیدہ شمولیت۔ پھر بھی گذشتہ 20 برس سے تامل ناڈو کا ایک بھی مسلمان نوجوان سول سروسز میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔مسجد کی عمارت کی بالائی منزل کو انھوں نے قابل ترین مسلم گریڈویٹ طلبا کی رہائش اور مطالعہ کے لئے وقف کر دیا۔ اس نئی اسکیم کا نام انھوں نے رکھا ہندوستان کی اسلامی خواندگی مہم (Islamic Literacy Movement of India-ILMI) جس کا افتتاح انھوں نے بیت المقدس کے چیف امام سے کروایا۔ پورے صوبہ میں سفر کر کے انھوں نے سول سروسز میں مسلم نوجوانوں کی شمولیت کی اہمیت سے متعلق آگاہی و ہوشیاری پیدا کرنے کے لئے 100 سے زائد منظم کوششیں کیںجس کے نتیجہ میں تمل ناڈو کے مسلم نوجوان اب خوب واقف ہیں کہ سول سروس میں شمولیت سے ملی مفاد کو جو فروغ ملے گا وہ کسی دوسرے دنیاوی طریقہ سے ممکن نہیں ہے۔
2012 میں امام صاحب نے اپنی مسجد میں آئی اے ایس اکیڈمی قائم کردی (ilmi.co)جس کے پہلے بیچ کے 28 طلبا کو رہائش‘ کھانا اور کتابیں مہیا کی گئیں۔ان میں سے ایک نے سول سروسز پریلمز اور مین امتحان میں کامیابی حاصل کرلی‘ 3 نے تامل ناڈو سول سروس کے پریلمز میں کامیابی حاصل کی ‘ 5 نے اسٹاف سلکشن کمیشن کے امتحان میں پہلا قدم رکھ لیا ہے اور 10 نے چوتھے درجہ کی سرکاری ملازمت حاصل کر لی ہے۔اکیڈمی کے دوسرے بیچ میں 40 طلبا سول سروس کی تیاری کر رہے ہیںاور تیسرے بیچ میں 100 طلبا کی شمولیت کا انتظام کیا جا رہا ہے‘ تازہ بیچ میں 3 طالبات بھی شامل ہیں۔تملناڈو کی یہ اعلیٰ و بیش قیمت مثال ملک کے دیگر صوبوں میں قابل تقلید ہے۔ اسی اکیڈمی کے زیر اہتمام چند دیگر سہولتیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں۔ ضرورتمندوں کو زیور رہن رکھ کے زیادہ سے زیادہ 100 روز کے لئے 40,000 روپئے تک کا غیر سودی قرضہ دیا جاتا ہے ۔ مناسب تربیت کی کمی کی وجہ سے کچھ مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ گھر سے فرار ہو جاتی ہیں اور بعد میں انھیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ ان لڑکیوں اور ان کے شوہروں کو راہ راست پر لانے کا کام کیا جاتاہے اورپھر ان کا باقاعدہ نکاح کروایا جاتا ہے۔ اسکولی بچوں کے لئے تعلیمی وظیفہ اور جھگیوں میں رہنے والوں کے لئے طبی کلنک کا بھی انتظام ہے۔ کیا خوب کہا علامہ اقبال نے: جنبش سے ہے زندگی جہاں کی۔