ہاشم پورہ : چشمِ نم ‘ جانِ شوریدہ کافی نہیں

Hashimpura mascare

ڈاکٹر سید ظفر محمود

ہمارے ملک عزیز کو یقین کامل ہے کہ ممبئی حملے کی منصوبہ بندی اور ہدایت کاری کرنے والا شخص ہے ذکی الرحمٰن لکھوی حالانکہ اس کے ملک کی ہائی کورٹ نے اسے ملزم نہیں پایا ہے ‘اسی وجہ سے جب عدالت نے اسے رہا کر دیا تو ہمارا متحدہ ضمیر چیخ اٹھا جس کا اثر وہاں کی قومی حکومت نے بھی قبول کیا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوے غیر معمولی انتظام کیا تاکہ لکھوی دوبارہ سلاخوں کے پیچھے چلا جائے۔ ہمارے ملک کا یہ رویہ اعلیٰ سماجی اقدار کی بہترین مثال ہے ۔انگریز ڈرامہ نگار جارج چیپمین نے اپنے 1654 کے ڈرامے ’رونج فور آنر‘(Revenge for honour) میں ڈائلوگ استعمال کیا تھا کہ ’’قانون گدھا ہے ‘‘(Law is an ass)۔ اس کے 3 صدی بعدمشہور انگریز ناول نگار چارلس ڈکنس(Charles Dickens) نے اپنے 1938 کے ناول اولیور ٹوسٹ (Oliver Twist)میں اس ڈائلوگ کو کہاوت کے طور پر استعمال کیا۔ اس میں ان اشخاص کے ذریعہ عدالت کی توہین کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ انھوں نے سماج کوانجیل مقدس کی تمثیل سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ’’ روح زندگی بخش ہے جبکہ الفاظ سے زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘(The letter killeth but the spirit giveth life)۔ لفظ ’گدھا ‘ ہندوستانی زبانوں میں بھی بے عقلی و بے وقوفی کے لئے استعارے (Metaphor)کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عرصہ سے یہ دونوں مہاورے انگریزی لغت میں بھی شامل ہیں۔ ماضی قریب کی طرف آنے پر دکھتا ہے کہ انگلستان کے مشہور اخبار ’دی انڈپنڈنٹ‘(The Independent) کے سینئر صحافی جیمس کیوسک (James Cusick) نے اپنے 14مئی 1994 کے مضمون ’قانون میںکمی بیشی سے ہاتھ میں چاقو لئے ہوے کوآزادی مل جاتی ہے‘(Loophole gives knifeman freedom)میں لکھا ہے کہ قانون میں اگر کچھ مبہم یا ذو معنی ہو تو فیصلہ کرنے والے کو تشریح کرنے کی زیادہ اور غیر واجب آزادی مل جاتی ہے۔ حال میں 2013 میں روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اس قسم کے معاملوں میں ان سوالوں کا ذکر کیا جن کے جواب عدالتی فیصلوں میں نہیں دئے جاتے ہیں۔ یعنی قوانین اپنی جگہ اور انسانی ضمیر اپنی جگہ۔ اگر دونوں میں کوئی تضاد ہو تو ضمیر ہی کی فتح ہونی چاہئے۔

لیکن ہاشم پورہ کیس میںانسانی ضمیر کو مات ہو گئی۔جن لوگوں کو پی اے سی کی 41 ویں کمپنی نے گولی مارکر سوچ لیا تھا کہ وہ مر گئے لیکن وہ در اصل زندہ تھے اور انھوں نے سانس روک رکھی تھی اور انھوں نے بیان دیا ہے کہ ان پر کس طرح حملہ کیا گیا اور کس نے کیا ‘ ان حالات میں قانونی جھول کی بنیاد پر ملزمین کو شک کا فائدہ دینا یقینا انسانی ضمیر کے لئے ضرب کاری ہے۔ذوالفقار ناصر اور محمد عثمان کا بیان کیسے خارج کیا جا سکتا ہے۔مظلومین کی وکیل ورندا گروور نے کہا ہے مقدمہ کے دوران کہ کسی بھی قدم پرغیر جانبدارانہ‘ منصفانہ‘سنجیدہ و با مشقت تفتیش نہیں کی گئی۔گواہی سے متعلق دستاویز اورچشم دیدمادی ثبوت یا تو جمع نہیں کئے گئے یا تلف و تباہ کر دئے گئے یاغائب کر دئے گئے۔یہ کوئی اتفاقیہ بھول نہیں تھی بلکہ منصوبہ بند ‘ طے شدہ عدم شمولیت اور مجرمانہ ڈھیلا پن تھا تا کہ مدعی کے کیس کو کمزور کر دیا جائے اور ملزمین بیجا طرفداری میں ڈھال مضبوط کی جا سکے۔مظلومین کی دوسری وکیل ربیکا جان نے کہا کہ جس ٹرک نمبر UR1493میں مظلومین کو نہر لے جایا گیا تھا اس پر سے خون کے دھبے صاف کرنے کے لئے بعد میں اسے دھویا گیا تھا جس کا ثبوت موجودہے۔ اور اس کا بھی ثبوت ہے کہ اس ٹرک میں بندوق کی گولیوں سے جو سوراخ ہو گئے تھے انھیں بعد میں بند کیا گیا۔لیکن عدالت نے ان گواہیوں اور ثبوتوںکو خارج کر دیا۔جسٹس راجندر سچر اور آئی کے گجرال نے مل کر پیپلس یونین فور سول لبرٹی(PUCL) کے تحت اس کیس میں ہاشم پورہ جا کرانکوائری کر کے رپورٹ تیار کی تھی جس کا نوٹس اس وقت کی مرکزی و یو پی کی صوبائی حکومتوں نے نہیں لیا۔مشہور صحافی نکھل چکرورتی نے ہاشم پورہ کا دورہ کرنے کے بعد لکھا تھا کہ یہ نازی جرمنی کی طرح کا منظم قتل عام تھااور اس کا مقصد تھا پورے مسلم طبقے میں دہشت پھیلانا۔اس وقت کے غازی آباد کے پولس سپرنٹنڈنٹ وبھوتی نرائن رائے نے اس واقعہ کی واضح و ترسیماتی تفصیل (Graphic details)درج کر رکھی ہے۔

اس پرستم یہ کہ ملک کے ذمہ دار خاموش ہیں۔کیا یہ لکھوی اور ہاشم پورہ معاملوں کے مابین دہرا پیمانہ نہیں ہے ؟ کیا انسانی ضمیر مظلومین کے مذہب کا مرہون منت ہے ؟آئیے یاد کریں کہ اس ضمن میںصدر اوبامہ نے حال میں واشنگٹن میں کیا کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ جب کروڑوں لوگ اور خصوصاًنوجوان غربت کی مار جھیل رہے ہوں اور ان کے لئے امید کے دروازے بند ہوں ‘ جب دور دور تک پھیلی ہوی بد عنوانی عوام کے لئے باعث ذلت ہو تی ہو اور کوئی راستہ نظر نہ آ تا ہو ‘ تو سماج میں عدم استحکام اور انتہا پسندی کے خطرے منڈلانے لگتے ہیں۔ تو ہم کاہے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ در ایں اثنا یہ تو طے ہے کہ ملک میں ووٹروں کی اکثریت کے ضمیر نے تو قانون کے ساتھ اس بھدے مذاق کو اپنے ذہن کے دریچوں میں محفوظ کر ہی لیا ہو گا۔اخبار انڈین اکسپرس کے فوٹو ایڈیٹر پروین جین اُس وقت سنڈے میل میں چیف فوٹوگرافر تھے۔ان کا بیان قلمبند ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ ہاشم پورہ میں فوج کے جوان مسلم گھروں میں گھس کے نوجوان مردوں کو گھسیٹ کے باہر نکال کر پی اے سی کے حوالے کر رہے تھے۔ انھوں نے تصاویر کھینچیں جنھیں انٹرنٹ پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ عورتیں چھتوں پر کھڑی منظر دیکھ رہی تھیںاور چیخ کر فوج کے لوگوں اور پی اے سے کے جوانوں سے رحم کی درخواست کر رہی تھیں۔اب مارچ 2015 میں دہلی کے ایڈیشنل سشنس جج سنجے جندل نے تمام ملزمین کو بری کر دیا۔فیصلے کی نقل ابھی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔22مئی 1987 کو پی اے سی کے کن اہلکاروں کو ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا وہ تو سرکاری رکارڈ سے طے ہے اور وہاں کے لوگوں کو نہر لے جا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یہ بھی طے ہے تو پی اے سی کے ان جوانوں کے خلاف سرکاری کاروائی کا جواز تو بنتا ہی ہے۔

لیکن جناب وجاحت حبیب اﷲ جو اب کامن ولتھ ہیومن رائٹس سے منسلک ہیں ‘ نے بتایا ہے کہ حق اطلاع قانون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ پی اے سی کے ان جوانوں کے خلاف کوئی سرکاری کاروائی بھی نہیں ہوی۔اس بے عملی کا لیکھا جوکھا تو سرکاری عملہ مسلمانوں کو دے سکتا ہے۔ پی اے سی کے ان جوانوں کے خلاف کن افسران نے عمل آوری نہیں کی ان کی پہچان کر کے ان کے خلاف تو سرکاری کاروائی تو اب بھی ہوہی سکتی ہے۔ کیس کو اگلی نہج پر معقولیت سے لے جانا بہت اہم ہے۔اہل بصیرت و اہل عمل افراد اوروکیل صاحبان کے ایک گروپ کو ملت کی بقا کی خاطر سامنے آ کر کیس کو آگے بڑھانا ہو گا۔PUCL کی رپورٹ کی دھول جھاڑی جائے اور اس کا استعمال کیا جائے ۔ذوالفقار ناصر اور محمد عثمان کو ملت خود سکیورٹی مہیا کرے۔اس معاملہ میں ہم میں سے ہر ایک فرد اور گروپ اپنی انا اور اپنے ذاتی مفادکو بالائے طاق رکھ دے تو اس کام میں آسانی ہو جائے گی۔اب چشم نم اور جان شوریدہ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ نہ تہمت عشق پوشیدہ سے کام چلے گا۔ آج بازار میں ہمیں آپ کو پا بجولاں چلنا پڑے گا۔ورنہ تیار رہئے مستقبل قریب میں ہندوستانی مسلمانوں کی اگلی نسلوں کو برما کے مسلمانوں جیسا بنانے کا ذمہ دار ہونے کے لئے۔ اسی سے جوڑ کر غورکریں کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا مجوزہ میوچول اکوٹی فنڈ سبرامنیم سوامی کی تنگ نظر سیاسی مداخلت کی نظر ہو گیاحالانکہ اس فنڈ کے ذریعہ فحش نگاری‘ عریانیت ‘جوا‘ شراب‘ تمباکو وغیرہ جیسی سماج کو خراب کرنے والی اشیا میں سرمایہ کاری کی ہمت شکنی کی جا رہی تھی۔ اب اگر سوامی صاحب چاہیں کہ ان سماجی خرابیوں پر روک نہ لگے اور اس کے عوض میں انھیں تھوڑی سستی شہرت مل جائے ‘ اور حکمراں جماعت یہ طے کرے کہ سماج میں آگے گھن لگے تو لگے لیکن ابھی ہماری سیاسی ناک اونچی رہے تو اس پر یقیناً ووٹروں کو غور کرنا ہو گا کہ وہ ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ کیونکہ قرآن و شریعت میں لکھا ہے کہ جھوٹ بولنا منع ہے اور کوئی یہ زور دے کر کہ دے کہ سچ بولنا شرعی فریضہ ہے تو حکمراں پارٹی اس کی اس لئے مخالفت کرے کیونکہ اسلام کو نیچا دکھانے میںاس کا سیاسی فائدہ ہے ۔سانحہ یہ ہے کہ اس پر بھی ملت خاموش ہے۔ فیض احمد فیض کی زبانی:
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بجولاں چلو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *