یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،پہاڑوں میں بسا تعلیمی مرکز

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ کیمپس کا داخلی منظر: تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ کیمپس کا داخلی منظر: تصویر معیشت

دانش ریاض
یہ ۲۷ فروری کےصبح صادق کا وقت تھا جب میں ممبئی ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہورہا تھا۔ میرے ہاتھ میں گوہاٹی کا ٹکٹ تھاجبکہ مجھے میگھالیہ جانا تھا ۔لیکن میں اس بات سے لاعلم تھا کہ مجھے گوہاٹی سے میگھالیہ تک کا سفر کیسے طے کرنا ہے۔بس میزبان کی یقین دہانی پر کہ ایئر پورٹ پر کوئی ریسیو کر لے گا میں نے انڈیگوفلائٹ کا بورڈنگ پاس لے لیا۔ دو گھنٹے تیس منٹ بعد ہی میں گوہاٹی کے ایئر پورٹ پر موجود تھا اور صدر دروازہ سے نکلتے ہی مجھے اپنے نام کی تختی بھی دکھائی دے گئی تھی۔مجموعی طور پر نارتھ ایسٹ اور عمومی طور پر آسام سے متعلق جو سنا تھا ایئر پورٹ سے نکلتے ہی اس کا اندازہ بھی ہوگیاکہ اگر مرکزی حکومتیں کسی علاقے کی ترقی سے چشم پوشی کر لیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے۔ راستے میں ہی یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر محبوب الحق صاحب کا فون موصول ہواکہ مجھے کار تک پہنچنے میںکوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) میں موجود مولانا آزاد لائبریری: تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) میں موجود مولانا آزاد لائبریری: تصویر معیشت

بل کھاتے خمدار پہاڑیوں پر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(میگھالیہ) تقریباً ۴۰۰ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے ،دلچسپ بات یہ کہ یہ گوہاٹی سے محض ۴۰کلومیٹر کی دوری پر آباد ہے ۔بعض جگہ سڑک کا ڈیوائیڈر ہی آسام اور میگھالیہ کو الگ کرتا ہے۔ہمارے میزبانوں نےشام کے وقت جب یونیورسٹی کا معائنہ کروایا اور انجینئرنگ کے طلبہ و طالبات نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور بمبئی مرکنٹائل بینک کے چیرمین محمود الرحمن صاحب کے سامنےاپنی کارکردگیوںکاپرزنٹیشن دینا شروع کیا تو موصوف بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگرابتدائی طور پر ہی طلبہ و طالبات کی یہ صلاحیتیں ہیں تو پھر ان کا مقابلہ بیرونی ممالک کی یونیورسٹی سے کیا جانا چاہئے۔

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) گرلس ہاسٹل کا منظر جبکہ گرلس ہاسٹل کی نگراں دپتی ناتھ بانیا کو بھی دیکھا جاسکتا ہے: تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) گرلس ہاسٹل کا منظر جبکہ گرلس ہاسٹل کی نگراں دپتی ناتھ بانیا کو بھی دیکھا جاسکتا ہے: تصویر معیشت

دراصل یونیورسٹی نے اپنے قیام کے مختصر دور میں ہی نارتھ ایسٹ کے اس پہاڑی خطے کو تعلیمی میدان میں تبدیل کردیا ہے۔پورے نارتھ ایسٹ سے تقریباً دو ہزار طلبہ و طالبات سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں میں اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔انجینئرنگ فیکلٹی میں تمام شعبہ جات کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم بھی ہورہی ہے۔کامرس کے ساتھ بزنس منیجمنٹ کا کورس بھی چل رہا ہےجبکہ یونیورسٹی نے اپنا ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کر رکھا ہے۔طلبہ کے کھیلنے کے لئے اگر سچن تیندولکر سے منسوب کرکٹ میدان ہے تو کلچرل پروگرام کے لئے علحدہ زمینیں مخصوص کردی گئی ہیں۔یونیورسٹی کے ایک سرے پر گرلس ہاسٹل بنایا گیا ہے جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
گرلس ہاسٹل کی نگراں۴۷ سالہ دپتی ناتھ بانیا معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں’’یہاں پر تقریباً ۹۰۰طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں جن میں ہاسٹل میں رہنے والی طالبات بھی شامل ہیں۔چونکہ ہاسٹل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اسلئے رہائشی طالبات کی تعداد کم ہے البتہ یہ لوگ خوش و خرّم تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘‘۔
سوشل ورک میں بیچلر کر رہی سال دوم کی طالبہ رومی کلیتا جن کا آبائی مکان گوہاٹی ایئر پورٹ کے قریب ہی ہےمعیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں’’مجھے یہاں ہر طرح کا آرام میسر ہے جبکہ پڑھائی بھی اچھی ہوتی ہے۔میرے والدین مجھے باہر بھیجنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے اس یونیورسٹی کا نام سنا اور یہاںآکر دیکھا تو میرا داخلہ یہیں کروادیاجبکہ یکسوئی کے لئے مجھے ہاسٹل میں ہی رہنے کی تاکید کردی۔اب میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہاسٹل میں رہتی ہوں اور بہت ہی کم خرچ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہوں‘‘۔ رولرڈیولپمنٹ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہی اینسنگ بینی جو دیما پور سے آئی ہیں اپنی تعلیم سے مطمئن نظر آتی ہیں۔ان کی سہیلی اننا بیل جو میگھالیہ کے طورا سے تعلق رکھتی ہیں کہتی ہیں’’یہاں ہماری پرائیویسی کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔جبکہ ہاسٹل کے اندر ہی بیڈمنٹن اور والی بال کھیلنے کا انتظام ہے ۔جو لڑکیاں کرکٹ کھیلنا چاہتی ہیں وہ سچن تیندلکر گرائونڈ کا رخ کرتی ہیں اوراپنا شوق پورا کرتی ہیں‘‘۔
دراصل کچھ دیواروں کے سہارے ٹین کے شیڈ میںوقتی ہاسٹل کا انتظام کردیا گیا ہے جس میں ابھی کمروں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ کچن،ٹوئیلیٹ باتھ روم کے ساتھ پرائیویسی کے تو تمام ترانتظامات ہیں لیکن عمدہ تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے دسری جگہوں کے بالمقابل یہاں حالت خستہ دکھائی دیتی ہے۔یونیورسٹی کے چانسلر محبوب الحق کہتے ہیںــ’’جیسے جیسے رقم ملتی ہے ہمارا تعمیری کام اسی رفتار سے شروع ہوجاتا ہے۔اس وقت ہم نے ہاسٹل کا ڈھانچہ تو تیار کردیا ہے لیکن جیسی عمارت ہونی چاہئے ویسا کچھ کرنے کی فی الحال طاقت نہیں ہے انشا ء اللہ اگر کہیں سے کوئی رقم اس مد میں آتی ہے تو ہم اس کا فوری انتظام کریں گے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام جدید سہولیات سے مزین یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے پاس اپنی زمین ہے لیکن تعمیرات کے لئے فنڈ نہیں۔یہاں پر نہ تو فی الحال کوئی آڈیٹوریم ہے اور نہ ہی گیسٹ ہائوس،اگر طلبہ و طالبات کا اجتماعی پروگرام منعقد کرنا ہوتا ہے تو انتظامیہ کھلے آسمان کا سہارا لیتی ہے اور وسیع و عریض میدان میں ہی مشترکہ پروگرام منعقد کرتی ہے جبکہ اگر کوئی مہمان آجائے تو اسے قریبی ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے۔محبوب الحق کہتے ہیں’’تقریباً دس ہزار اسکوائرفٹ پر مشتمل گیسٹ ہائوس کی تعمیر میں تخمیناً ایک کروڑ کا صرفہ آئے گااسی طرح آڈیٹوریم کی تعمیر میں بھی تقریباً اسی قدر رقم خرچ ہوگی،اگر کوئی چاہے کہ اس پروجیکٹ کو وہ مکمل کرسکتا ہے تو ہم باہمی رضامندی کے ساتھ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا چاہیں گے۔‘‘ محبوب الحق کے مطابق’’ ہمارے یہاں مہمانوں کے آنے کا سلسلہ لگا رہتا ہے اور ہم مہمانداری میں کوئی کسر اٹھائے نہیں رکھتے لہذا بڑی رقم اس مد میں بھی خرچ ہوجاتی ہے اگر ہمارا گیسٹ ہائوس بن جائے گا تو ہوٹل کے اخراجات کے ساتھ دوسرے اخراجات بھی کم ہوجائیں گے اور یونیورسٹی کو اس بات سے راحت مل جائے گی کہ اگر کوئی مہمان آتا ہے تو اسے کس ہوٹل میں ٹھہرائے ،کیا کھلائے اور کہاں تفریح کرائے‘‘۔

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) کے کھلے میدان میں طلبہ کلچرل پروگرام پیش کرتے ہوئے: تصویر معیشت
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( میگھالیہ) کے کھلے میدان میں طلبہ کلچرل پروگرام پیش کرتے ہوئے: تصویر معیشت

یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن سے وابسطہ عرفان ضیاء الرحمن کہتے ہیں’’ہم نے محنت و لگن سے ادارہ تو بنا دیا ہے اب چلانے کے لئے بھر پور جد و جہد کر رہے ہیں۔ ہمیں فنڈس کی کمی کاروزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بعض اہم کام اس لئے ادھورے رہ گئے ہیں کہ ہمارے پاس خاظر خواہ فنڈ نہیں ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس محنت و لگن کے ساتھ انتہائی مختصر مدت میں یونیورسٹی نے عروج کی بلندیاں طے کی ہیںاب اسے اس کے مقام پر برقرار رکھنا وہاں کے اساتذہ کے ساتھ انتظامیہ کے لئے بھی بڑا چیلنج ہے۔وائس چانسلر پی جی رائو،چانسلرمحبوب الحق کے ساتھ اجمل جیسے کارکنان اس کی ترقی کے لئے اپنا خون پسینہ تو بہا رہے ہیں لیکن وہ علم دوست عوام سے پر امید بھی ہیں کہ نارتھ ایسٹ میں ان کی جانب سے کی جانے والی تعلیمی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ خطہ بھی خاظر خواہ کردار ادا کرے گا۔چانسلر محبوب الحق کہتے ہیں ’’ہم نے ادارے کی ترقی و ترویج میں مدد دینے والوں کے لئے تمام آپشنس کھلے رکھے ہیں۔اگر کوئی کسی کے نام سے کوئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس جگہ میسر ہےجبکہ اگر کوئی غریب طلبہ وطالبات کو گود لینا اور اس کی پڑھائی کا خرچ برداشت کرنا چاہتا ہے تو ہم محض ۵یا چھ ہزار میں اسے تمام تعلیمی سہولیات دینے کے لئے تیار ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ جو بنیادی اخراجات ہیں کسی طرح وہ پورے ہوجائیں اور ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔اسی طرح ہم نے جس طرح دوسری یونیورسٹیز کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اگر کوئی ادارہ مختلف تعلیمی امور میں ہمارے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *