چین میں داڑھی پر سزااور ملت کی پـژمردگی

China Beared

ڈاکٹر سید ظفر محمود

چین کے مسلم اکثریت والے صوبہ سنکیانگ(Xinjiang) کے شہر کاشغر میں ایک مسلمان کو داڑھی رکھنے پر 6سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ان کی اہلیہ کو برقع پہنے پر دو سال کی سزا ہوی ہے ‘یہ خبر 3 روز قبل آئی۔ اب سے 6 ہفتہ قبل بھی خبر آئی تھی کہ وہاں اماموں کو سڑک پر رقص کرنے پر مجبور کیا گیا تھا یہ کہتے ہوے کہ وہ بچوں کو مذہبی تعلیم نہیں دیں گے بلکہ ان کو سکھائیں گے کہ عبادت کرنا روح کے لئے نقصان دہ ہے۔ اُس وقت یہ بھی خبر آئی تھی کہ سرکاری ملازمین سے بہ آواز بلند اعلان کروایا جاتا ہے کہ ہماری تنخواہ اﷲنہیں دیتا ہے بلکہ حکومت دیتی ہے۔ پہلی والی خبر پڑھ کے میں نے15 فروری2015 کو دہلی میں چین کے سفارت خانہ کوای میل کے ذریعہ ایک خط لکھ کر آنے والی خبر کے انٹرنٹ کے لنکس مہیا کئے اور ان سے درخواست کی کہ اس خبر کی راست گوئی (Veracity) کی تصدیق کریں کہ یہ صحیح بھی ہے کہ نہیں۔ اب تک اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ لہٰذااب دوسری خبر پڑھ کے میں نے دہلی میں چینی سفارت خانہ کو ایک اور خط ای میل کے ذریعہ بھیج دیا ہے جس میں انھیں یاد دلایا ہے کہ میرے15 فروری کے خط کا جواب ابھی موصول نہیں ہواہے اور اب جو تازہ خبر آئی ہے اس کی بھی تصدیق کر دیں بلکہ اگر یہ خبریں صحیح ہیں تو ان حالات کے ازالہ کے لئے چین کی حکومت کیا اقدام کر رہی ہے اس سے بھی ہمیں آگاہ کریں۔اس دفع میں نے اسی مدعے کا علیہدہ خط پی ایم او کی ویب سائٹ پر جا کر کے وہاں مہیا کردہ آن لائن سہولت کے ذریعہ وزیر اعظم کو بھی بھیج دیااور پی ایم او سے ای میل کے ذریعہ رسید بھی آ گئی کہ خط مل گیا ہے ۔

اُدھر چینی سفارت خانہ کے نام اپنے ای میل کو میں نے چینی حکومت کو‘ہندوستان کی وزیر خارجہ‘وزارت خارجہ میں وزیر مملکت اورخارجہ سکریٹری کو بھی اس طرح بھیج دیا کہ ان سب اشخاص کو معلوم رہے کہ یہ خط کس کس کو گیا ہے۔ ساتھ ہی اس ای میل کو میں نے ہندوستانی مسلمانوں کی متعدد ملک گیر تنظیموں میں سے جن کا ای میل مل سکا ان سب کو بھی بھیج دیا جن میں جماعت اسلامی ہند‘ جمیعت العلما ء کے دونوں گروپوں‘ کل ہند مسلم مجلس مشاورت وغیرہ اور اردو وانگریزی میڈیا کے مدیروں و نمائندوں کو بھی ارسال کر دیا۔ یہی ای میل میں نے دہلی میں مقیم مختلف مسلم ممالک کے سفارت خانوں کو بھی بھیج دیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ سب خواتین و حضرات اور قارئین کرام بھی اسی مدعے کے ای میل اور خطوط چینی سفارت خانہ‘ چینی حکومت اور حکومت ہند کو ارسال کریں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پوری ملت کو چاہئے کہ وہ مل کے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہے (3.103) اور یہ کہ ان کے ذمہ کوشش کرنا ہے اور اس کوشش میں اثر ڈالنا مالک حقیقی کا کام ہے۔ ورنہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتی جو خود اس تبدیلی کے لئے تگ و دو نہیں کرتی۔ تشویش کا اشو یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں خبر نہیں آئی کہ مسلم ممالک نے ان حالات پر احتجاج کرتے ہوے کچھ کاروائی کی ہو۔ چین کے تو دنیا بھر میں کارو باری رشتے ہیں جن سے عموماً چین کو ہی زیادہ مالی فائدہ ہوتا ہے۔مثلاًترکی میں ریل لائن بناکر بچھانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو ملا ہوا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ حال میں ترکی میں مظاہرہ ہوا تھا وہاں کی حکومت پر زور دینے کے لئے کہ چین میں مسلمانوں کی فلاح کی خاطر ترکی کے ذریعہ ضروری اقدام کئے جائیں۔

چین میںشروعات میں اسلام کی آمد حضرت سعد بن ابی وقاسؓ کے وہاں تین سفارتی اسفار (616, 637, 651)کے دوران ہوا‘ اس میں سے آخری حضر عثمان غنی کی خلافت راشدہ کے دوران عمل میں آیا۔اس کے بعد کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ڈینیل لیسلی نے اپنی کتاب ’ چین میں مذہبی اقلیتوں کا انضمام‘ میں لکھا ہے کہ چنگیز خان اور اس کے بعد کے بادشاہوں کے زمانہ میں ہلال زبیحہ منع تھااور یہودیوں کے لئے کوشر منع تھا۔اس کے منگ نام کے شاہی گھرانے کے دور حکومت (1368-1644) میںمسلمانوں کو اہمیت ملنے لگی‘ فوج کے اہم جنرل مسلمان ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک (لان یو) نے 1388 میں سپہ سالار کی حیثیت سے منگولوں پر فتح حاصل کی اور اس طرح چین پر دوبارہ قبصہ کرنے کا منگول خواب چکنا چور ہو گیا۔ اس سے خوش ہو کر اس وقت کے چینی بادشاہ ہونگوو نے اسلام اور پیغمبر دو عالم ؐ کی شان میں 100 الفاظ کا قصیدہ (The Hundred-Word Eulogy)لکھاجس کی نقلیں اب بھی چین کی مساجد میں دیواروں پر احترام سے ٹنگی ہوی مل جاتی ہیں۔ شاہی خزانے سے مساجد تعمیر کروائی گئیں ۔ بیجنگ میں مسلم عبادت اور رسم و رواج پر سے پابندی ہٹا لی گئی تھی۔ اس کے بعد 1644 میں جب قِنگ شاہی گھرانے نے منگ گھرانے پر حملہ کر دیا تومسلمانوں نے قنگ کے خلاف بغاوت کر دی لیکن مسلمانوں کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ تقریباً 1,00,000 مسلمان مارے گئے ۔حالانکہ بیجنگ کی مسلم آبادی پر اس کا اثر نہیں پڑالیکن شمالی چین اور خصوصاً صوبہ سنکیانگ میں حالات مسلمانوں کے خلاف بگڑنے لگے۔

وہاں کے کچھ مسلمان جیسے ما زہانو‘ ما الیانگ‘ ڈونگ فُکسیانگ‘ ما قیانلنگ اور ما جُلُنگ وغیرہ نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کر دی ‘ وہ قنگ شاہی گھرانے کے ساتھ مل گئے اور انھوں انفرادی ذاتی مفاد کے لئے مسلمانوں کو پامال کرنے اور ان کا قتل عام کرنے میں حکومت وقت کی مدد کردی۔ اسی طرح کی ایک اوربغاوت 1895 میں ہوی جسے ڈنگن بغاوت (Dungan Revolt)کہتے ہیںجس سے مسلمان مزید مصیبت میں پڑ گئے۔ پھر 1912 میں سن یات سین (Sun Yat Sen) نے جمہوری سلطنت (Republic of China) قائم کی۔ اس نے دیگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی ملک میں برابر کی حصہ دار ی کا اعلان کر دیا۔اس نے مسلم قائدین جنگ کو چار صوبوں کا گورنر بنایا اور ایک کو قومی وزیر دفاع تعینات کیا۔ لیکن اس کے بعد دوسری چین جاپان لڑائی (1937-1945) کے دوران مسلمانوں نے چین کی طرف سے لڑنے کا فیصلہ کیا اس لئے جاپانیوں نے چین کے مسلمانوں کی بہت زیادہ تباہ کاری کی۔ پھر ثقافتی انقلاب (1966-1976 Cultural Revolution) کے دوران مساجد کو نقصان پہنچایا گیا ‘ قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی‘ قبرستان بند کر دئے گئے۔ مسلمانوں کے رسم و رواج کو حکومت نے توہم پرستی قرار دیا۔ پھر اس کے 10-12 برس بعد مسلمانوں کے تئیں حکومت نے اپنی پالسی میں نرمی لانا شروع کی۔ تب سے اب تک چینی مسلمانوں میں عموماً تجدید حلیم دیکھی جا سکتی ہے‘ اسلامی تنظمیں قائم ہونے لگی ہیں۔ اس پس منظر میں اچانک 2015 میںمسلمانوں کے ساتھ پھر بد سلوکی کا سبب زیادہ سمجھ میں نہیں آتا بجز اس کے کہ پوری دنیا میں مسلمان تختہ مشق بنے ہوے ہیں ‘ اُن کو چھیڑنا اور پریشان کرنا فیشن بن گیا ہے تو شاید ٹسٹ کے طور پر چین میں بھی چھیڑ خوانی کی جارہی ہو۔ اب اگر دنیا کے مسلمان اس پر احتجاج نہیں کریں گے تو سلسلہ طول پکڑ سکتا ہے اور حوصلے بلند ہو سکتے ہیں۔

فی الحال چین میں مسلمان بڑی تعداد میں 4 صوبوں میں رہتے ہیں: زنجیانگ‘ ننگسیا‘ گانسواور قِنگھائی۔ان کی کل تعداد 2.5 کروڑ ہونی چاہئے‘ ان کی 36,000 عبادت گاہیں ہیں‘ اس سے زیادہ تعداد ائما کی ہے‘ مدرسے و اسلامیہ کالج ہیں‘ 10,000 سے زیادہ لوگ ہر سال حج کے لئے جاتے ہیں۔ سر ٹامس واکر آرنلڈ نے اپنی کتاب ’’تدریس اسلام‘ ‘ میں لکھا ہے کہ17 ہویں صدی میں چین میں کافی یہودیوں نے اسلام قبول کر لیاتھا۔آج وہاں ہلال گوشت کھلے عام ملتا ہے۔ عید‘ بقرعیدکی چھٹی ہوتی ہے۔پھر بھی سرکاری دفتروں اور تعلیمی اداروں میں نماز پرھنے پر پابندی ہے۔ آئے دن مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ ہوتی ہے۔اس ایذا رسائی سے تنگ آکر بہت سے نوجوان بیرون ملک ملیشیا‘ انڈونیشیا‘ ترکی وغیرہ چلے جاتے ہیں۔اپنے ملک سے محبت و مکمل وفاداری کرنا تو ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ لیکن حقوق انسانی کی سب شہریوں کے لئے یکساں حصول کو یقینی بنانا ہر ملک کا بھی فریضہ ہے۔ اس میں کہیں کوئی لاپرواہی یا کوتاہی ہوتی ہے تو اس کے خلاف آئین کے دائرے میں رہتے ہوے آواز اٹھانا بھی بہت ضروری ہے۔ یاد رکھئے کہ 17ہویں صدی میں چین کے مسلمانوں نے ذاتی خود غرضی کی خاطر ملی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا ہوتا تو آج وہاں کے مسلمانوں پر بھی ظلم و زیادتی کرنا فیشن نہ بناہوتا۔علامہ اقبال کی تنبیہ پر دھیان دیں:
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ‘ زباں تو ہے
یقیں پیدا کر ائے غافل‘ کہ مغلوبِ گُماں تو ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *