اتحاد بین ا لمسلمین فریضہء دین وقت کی ضرورت اور انعام الٰہی

اعو ذ با للہ من ا لشیطان ا لرجیم بسم ا للہ ا لر حمن ا لر حیم الحمد للہ رب ا لعالمین و ا لصلو ٰۃ وا لسلا م ُعلیٰ سید ا لا نبیا ء و ا لمر سلین و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین اما بعد فقد قال اللہ تبارک و تعالی فی کتا بہ ا لمبین فا لستعذ با للہ من ا لشیطن ا لرجیم بسم ا للہ ا لرحمن ا لرحیم یٰاَ یھا ا لذین اٰمنو ا اذا لقیتم فئۃفا ثبتوا و ا ذ کرو ا اللہ کثیر ا ً لعلکم تفلحون ۔و اطیعو اا للہ و رسولہ و لا تنا ز عو ا فتفشلو ا و تذھب ریحکم وا صبرو ا ۔ان ا اللہ مع ا لصا برین ۔ رب ا شرح لی صدری و یسر لی امری و ا ھلل عقدۃ من لسانی ، یفقھو ا قولی ۔ رب زدنی علماً و یقیناً و ا لحقنی با لصابرین ۔ السلام علیکم و رحمت ا ا للہ و بر کا تہ
ہم نے ابھی آپ کے سامنے سورہء مبارکہء انفال کی ۴۵ ویں اور ۴۶ ویں آیات کریمہ کی تلا وت کا شرف حاصل کیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’اے ایمان والو ، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو ۔ توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جا ئے گی ۔ ۔ صبر سے کام لو ، یقیناً اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے ۔ ‘‘
حضرات گرامی قدر ، عزیز طلباء اور ساتھیو ۔ امت کے آلام و مصائب کم ہو نے کے بجائے ، دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ پوری امت شدید آزمائشوں سے دو چار ہے ۔ ایک طرف ہزاروں خانوں میں بٹی ہوئی پوری دنیا ہمارے خلاف اس طرح متحد ہے کہ بلا مبالغہ ایک جسم نظر آتی ہے تو دوسری طرف جس امت مسلمہ کو جسد واحد کی شکل میں بنیان مرصوص ہو نا چاہیے تھا وہ امت اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اپنے دفاع میں متحد ہونے کے بجائے نہ صرف جدال باہم اور برادر کشی کا شکار ہے بلکہ خاص بلاد اسلامیہ میں خانہ جنگی کے عذاب میں بھی گرفتار ہے ۔
ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ صہیونی فتنہ اس قدر طاقت ور ہو گیا ہے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے حلیف و معاون امریکہ کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اور وہائٹ ہاؤس کے مکین بارک اوباما نے یہ کہ کر ایک طرح سے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے کہ بن یامن نیتن یاہو کے بر سر اقتدارہتے ہوئے وہ مغربی ایشیا کے قضیے کے ’دو ریاستی حل کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں ۔ صہیونی مقتدرہ نے بھی اپنے نئے عالمی نظام ، اور عالمی حکومت کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اب امریکہ کے بجائے چین ، روس اور ہندستان کو استعمال کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔تو دوسری طرف ۵۷ ملکوں اور قریب ڈیڑھ سو کروڑ کی آبادی والی امت مسلمہ ، قلب مسلم میں ۶۷ برسوں سے پیوست صہیونی خنجر کو نکالنے ،قبلہء اول مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے ، اور نو سال سے اکیسویں صدی کے شعب ابی طالب بنے ہوئے محصور ومقہور غزہ کی معاشی و تزویری ناکہ بندی ختم کرانے کے بجائے برادر کشی اور خانہ جنگی میں مصروف ہے ۱۹۶۷ میں اسرائیل کے ہاتھوں شرمناک شکست کے ۴۸ سال بعد عرب لیگ نے ایک مشترکہ عرب فوج بنائی بھی تو مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے نہیں اپنوں ہی کی سر کوبی کے لیے جنہیں مذاکرات کی میز پر لانا اور ایک منصفانہ اور باعزت معاہدہ کرا دینا جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوتا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا ۔حکمرانوں کا مخالف حوثیوں کا ایک طاقتور گروپ تو خود سعودی عرب کے دار ا لسلطنت ریاض میں آکر سہ فریقی امن مذاکرات کے لیے تیار تھا ۔
ہم بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے کچھ آیات قرآنی کا ترجمہ ، دانش جویان و طا لبان علم کے اس وقیع مجمع کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ؛ سورہء مبارکہء مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں جو چھٹے پارے کی آخری آیت بھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک ا لدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں تکبر اور غرور نفس نہیں ہے ۔ ‘‘ اسی سورہء مائدہ کی آٹھویں آیت میں کہا جا رہا ہے کہ ’’ اے ایمان والو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔ دیکھو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف سے منہ موڑ لو ، عدل کرو ، کہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کر تے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے ۔ ‘‘ ۔ اور سورہء نساء کی ۷۵ ویں آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ’’ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان کمزور مرد عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے واسطے جنگ نہیں کرتے جو بے بسے کے عالم میں اللہ سے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! کسی طرح ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سر پرست بنا اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار مقرر فرما ۔ ‘‘ اور سورہء آل عمران کی ۱۳۹ ویں آیت میں یہ مژدہء جانفزہ بھی ہے کہ دل شکستہ نہ ہو ، اور غم نہ کرو ، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو ۔ ‘‘ اور سورہء حجرات میںہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ’’ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ۔ پھر بھی اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے ۔ تب ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو ۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ (آیت ۹ )سورہء انفال کی آیت ۵۹ تا ۶۳ میں ارشاد رب ا لعزت ہے کہ ’’ کافر اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ۔ یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے ۔ ’اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، اپنی استطاعت بھر ، زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرو ، اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو ، جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ) خوف زدہ کر سکو ۔اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہیں دے دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا ۔ ‘‘
اور اب رسول کریم ﷺ کی چند مشہور اور متفق علیہ احادیثکا ترجمہ بھی سماعت فر ما لیجے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ؛ باہمی یگانگت ، محبت و رحمت اور لطف و کرم میں اہل ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے ،اگر ایک ؑضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم ہی شب بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے ۔ (بخاری کتاب ا لا دب ) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی دھوکہ دیتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم ) مسلمان کا خون اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ (مسلم ) مؤمن کو قتل کرنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ۔ (مسلم ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ضامن ہوں اس شخص کو جنت میں مقام دلانے کا جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑے سے گریز کرے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے جنت کے اعلیٰ حصے میں گھر تعمیر فر مائے گا ۔ (ابو داوؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور مؤمن وہ ہے جس کی طرف سے اس کا پڑوسی مطمئن ہو ( کہ اس سے اسے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔ بازار میں کوئی چیز بکتی ہو تو خریدنے کی نیت کے بغیر اس کی قیمت نہ بڑھاؤ ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے از راہ حقارت منہ مت پھیرو ۔ اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے ۔ اللہ کے بندو ! ایک دوسرے کے بھائی بن جاؤ ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس کی مدد سے ہاتھ کھینچے نہ اس کو حقیر جانے ، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ اس کی عزت اس کاخون اس کا مال ۔ (صحیح مسلم ) آپ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی آبرو کی حفاظت کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو آگ سے دور کر دے گا ۔ (ترمذی ) جس کسی نے اپنے کسی بھائی سے اس کی عزت یا کسی چیز میں کوئی زیادتی یا ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اس سے معاف کر والے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے کہ جب نہ دینار چلے گا اور نہ درہم ۔ اگر کوئی نیک عمل ہوگا تو اس میں سے اس کی زیادتی اور ظلم کے بقدر لے لیا جائے گا اور اگر کوئی بھی نیکی نہ ہو گی تو اس مظلوم کے گناہ اس ظالم کے نامہء اعمال میں ڈال دیے جائیں گے (بخاری شریف )
اختلاف کے ساتھ جینے کا ہنر
تو میرے عزیزو ! اختلاف سے مفر نہیں ۔ کیونکہ یہ تنوع ہی کی ایک شکل ہے ۔ اور تنوع فطرت کا خاصہ ہے ۔مشکل اس وقت ہو تی ہے جب اختلاف کو ، افتراق ،انتشار اور تنازعہ بنا دیا جاتا ہے ۔اور اختلاف تفرقے میں اس وقت بدلتا ہے جب لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے ہیں ۔ اختلاف خواہ کیسا بھی ہو اسے جڑ سے ختم کر دینا اس دنیا میں انسانوں کے لیے تو ممکن نہیں ، اگر ہوتا تو قرآن کریم میں دو سے زائد مرتبہ یہ بات نہ دہرائی گئی ہوتی کہ وہ ہمارے اختلافات کی حقیقت قیامت میں ہم پر کھولے گا ۔ مثلاً ’’وہ ضرور قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا (کیونکہ ) اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی کہ (تم میں کوئی اختلاف نہ ہو ) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے اور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس تو ہو کر رہے گی ۔ (سورہء نحل ۹۲ ۔ ۹۳ ) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے وہی ان کو (قیامت کے روز ) بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ۔ (سورہء انعام آیت ۱۵۹ ) اور یہ کہ ’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا ، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے ۔ اور بے راہ روی سے صرف وہی لوگ محفوظ رہیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور امتحان ) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا ۔ اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی ۔کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوںگا ۔ (سورہء ہود آیات ۱۱۸۔ ۱۱۹ ) اور یہ کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو ، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ، وہی اللہ میرا رب ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں (سورہء شوریٰ آیت ۱۰ )
یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے دن ہوگا کہ جن اختلافات کی وجہ سے ہمارے درمیان کشمکش برپا ہے ، ان میں ، حق پر کون ہے اور کس کا موقف باطل ہے ۔ لیکن خواہ کائی سراسر حق ہی پر کیوں نہ ہو ، اور اس کا حریف صد فی صد باطل پر ہو تو بھی ، بہ خیال خود اور بزعم خود حق پر ہونا اس بات کا اجازت نامہ نہیں بن جاتا کہ ہم اپنے حریف کے خلاف عہد شکنی ، کذب و افترا ، مکر و فریب ، اور قتل و غارت کے ہتھیار وں کا استعمال شروع کر دیں ۔ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں یا دنیا میں کوئی گروہ بزعم حق اپنے فریق مقابل کے خلاف یہی سب کر رہا ہے تو وہ اللہ کے اس دنیوی امتحان میں بروز قیامت ناکام ثابت ہو گا ۔ کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ طریقہء کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے ۔ مولانا مودودی نے ان آیا ت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ بات خصوصیت کے ساتھ ان مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جارہی ہے کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار (خدائی فوجدار ) ہیں اور ہمارا فریق خدا کا باغی (طاغی اور کافر ) ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ جس طریقے سے بھی ممکن ہو اسے نقصان پہنچائیں (یا بہ خیال خود اس کا استیصال کرڈالیں ) ہم سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا ۔ یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار (خدائی فوجدار ) سمجھ کر اپنے مذہب کو ( جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) بھلے اور برے ہر طریقے سے فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ حرکت سرا سر اللہ کے منشا کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا منشا واقعی یہ ہو تا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور تمام انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا دیا جائے تو اس کے لیے اللہ جل جلالہ کو اپنے نام نہاد ’’ طرفداروں ‘‘( یا خدائی فوجداروں ) اور ان کے ذلیل ہتھ کنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ یہ کام تو وہ تنہا اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا کہ وہ سب کو مؤمن اور فرماں بردار پیدا کر دیتا اور ان سے کفر و معصیت کے انتخاب و اختیار کی آزادی چھین لیتا ۔ پھر بھلا کس کی مجال ہوتی کہ وہ ایمان و اطاعت کی راہ سے بال برابر بھی ادھر یا ادھر بھٹک سکتا ۔ مطلب یہ کہ انسان کو انتخاب و اختیار کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں ۔ ’’ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے ارادہ و اختیار کو استعمال کرتے ہوئے از خود گمراہی کی طرف جا نا چاہتا ہے اللہ اس کے لیے ویسے ہی اسباب و وسائل فراہم کر دیتا ہے اور جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے صراط مستقیم کا طالب ہوتا ہے ۔ اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے ۔ یا فرمایا گیا ہے کہ ’’ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور اسی لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔ (اب ) ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب چاہے تو وہ شکر کرنے والا بن جائے اور چاہے کفر کرنے کر نے والا ۔ کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے (سورہء دہر آیات ۳ ۔ ۴ ) یعنی کفر اور شرک کا اختیار اسے دیتے ہوئے یہ بتا دیا ہے کہ دیکھو کفر کا راستہ کون سا ہے اور شکر کا راستہ کون سا ۔ اب انسان اپنے لیے جس راستے کا بھی انتخاب کرے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے کوئی اور نہیں ۔ (تلخیص تفہیم ا لقرآن ص ص ۴۴۳ ۔ ۴۴۴ اور ۱۰۱۱ )
مطلب صاف اور واضح ہے ۔ کہ ہمیں بہر حال اختلاف کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنا ہے ۔ اسی میں ہماری نجات اخروی کا راز پوشیدہ ہے ۔ اس دنیا میں ، ہم خواہ کچھ بھی کر ڈالیں ، سب کو ایک ہی راستے کا راہی بنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔
عزیزان گرامی ! گزشتہ ماہ ایک خبربا لعمو م نظر انداز کردی گئی ۔ خبر ایران اور سعودی عرب کے درمیان اتحاد عمل کی ضرورت اور امکانات کے بارے میں تھی ۔ دبئی کی ڈیٹ لائن سے ایجنسیوں کی جاری کردہ خبر کے مطابق ایران کی مصالحتی کونسل کے چئیر مین اور سابق صدر اسلامی جمہوری ایران علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے کہا تھا کہ شاہ سلمان بن عبد ا لعزیز کی قیادت میں سعودی عرب کے ساتھ ایران کی مصالحت کے قوی امکانات موجود ہیں ۔ گار جین کونسل کے سربراہ نے مرحوم شاہ عبد ا للہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی کئی با معنی اور نتیجہ خیز ملاقاتوںکا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ شاہ کے ساتھ انکے برادرانہ تعلقات اس وقت سے قائم ہیں جب وہ ریاض کے گورنر تھے ۔ رفسنجانی نے دستوری کونسل ایران کے سربراہ علی جنتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبد ا للہ کی وفات پر انکا (علی جنتی کا ) بیان غیر سفارتی اور انتہا پسندانہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ علی جنتی جیسے انتہا پسند لوگ ہی ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری کی راہ میں حائل ہیں ۔در آںحا لیکہ رہبر انقلاب آیت ا للہ خمینی بیسویں صدی کے ان معدودے چند علمائے کرام اور رہبران عظام میں سے ایک ہیں جنہوں نے لا شرقیہ لا غربیہ وحدہ وحدہ اسلامیہ کا نعرہ ہی نہیں دیا بلکہ اپنی پوری زندگی اتحاد امت کے لیے وقف کر دی ۔ ان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’وہ لوگ جو ہمارے سنی اور شیعہ بھائیوں میں اختلافات و نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر سازش کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ امریکہ اور روس کے آلئہ کار ہیں ۔ مسلمان دنیا کے اس سرے پر رہتے ہوں یا دوسرے سرے پر ان کے درمیان پیدا کیے جانے والے افتراق سے ہمیں بیدار رہنا چاہیے ۔ ‘‘
حالیہ دنوں میں حق و باطل کی تلبیس اور صہیونی سازشوں کی وجہ سے حالات نہایت پیچیدہ اور گنجلک ہو گئے ہیں ۔ جو کچھ ننگی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے اور جو کچھ فی ا لواقع اسکے پس پشت ہے ، دونوں میں بعد ا لمشرقین ہے ۔ خوارج کی طاقتور موجودگی صہیونی مقتدرہ کی سازشوں ہی کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے وہ اسلام کو بدنام کرنے کے ابلیسی ایجنڈے پر عامل ہیں ۔وہ اپنی طاقت کے اظہار اور دشمنوں پر اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں اس کا قرآن و سنت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ’’بغیر حق ‘‘ انسانو ںکا خون بہاتے ، زندہ جلاتے اور خواتین کو بے حرمت کر تے و قت اللہ اکبر کا نعرہ لگانا ابلیس کی پیروی ہے ، اتباع رسول ﷺ نہیں ۔ خوارج کے بارے میں صحیحین(بخاری و مسلم )اور صحاح ستہ کی دیگر کتب میں جو احادیث مروی ہیں ،ان میں سے منتخب ۳۱ احادیث شریفہ در ج ذیل ہیں
(۱)وہ کم سن لڑکے ہوں گے (۲)دماغی طور پر نا پختہ ہوں گے (۳)گھنی ڈاڑھی رکھیں گے (۴)بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے (۵)یہ حرمین شریفین کے مشرق کی جانب سے نکلیں گے (۶ )یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا (۷) ایمان انکے حلق سے نیچے نہیں اترے گا (۸)وہ عبادات اور دین میں بہت متشدد اور انتہا پسند ہوں گے (۹ )تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا (۱۰ )نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی (۱۱)وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوت قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی (۱۲)انکی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی (۱۳ ) وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن در حقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہو گا (۱۴) وہ لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہو گا (۱۵) وہ بظاہر بڑی اچھی اچھی باتیں کریں گے (۱۶ ) ان کے نعرے اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متائثر کرنے والی ہوں گی (۱۷)مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے (۱۸) وہ تمام مخلوق سے بد ترین لوگ ہوں گے (۱۹) وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمرہی و ضلالت کا فتویٰ لگائیں گے (۲۰)وہ اس وقت منظر عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا (۲۱ )وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے (۲۲) و ہ ، ناحق خون بہایئں گے (۲۳)وہ راہزن ہوں گے ، ناحق خون بہائیں گے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا ہوگا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے ۔(یہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے ) (۲۴) وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اسکی متشا بہات کے سبب ہلاک ہوں گے (یہ ابن عباس ؓسے مروی ہے )(۲۵ ) وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی (یہ حضرت علی ؓسے مروی ہے ) (۲۶ ) وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں (یہ ابن عمر ؓسے مروی ہے ) (۲۷) وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے (۲۸ )ان کے قتل کرنے والوں کو اجر عظیم ملے گا (۲۹) وہ شخص بہترین مقتول (شہید ) ہو گا جسے وہ قتل کر دیں گے (۳۰ )وہ آسمان کے نیچے بد ترین مقتول ہوں گے اور (۳۱)بے شک وہ خوارج جہنم کے کتے ہوں گے ۔
ان میں سے حدیث نمبر ایک تا چار ، سات ، نو ، بارہ ، پندرہ ،بیس ، اکیس ، اور ستائیس بخاری کی کتاب استتابۃ، باب قتل خوارج اور مسلم کی کتاب ا لذکوٰۃباب ا لتحریض علیٰ قتل خوارج سے نقل کی گئی ہیں ۔ حدیث نمبر پانچ اور چھبیس بخاری کی کتاب ا لتوحید اور حدیث نمبر دس ، گیارہ ، تیرہ ، اٹھارہ ، بائیس ، پچیس ، اور اٹھائیس مسلم کی کتاب ا لذکوٰۃ باب ا لخوارج سے لی گئی ہیں ۔ بقیہ احادیث شریفہ سنن نسائی ، کتاب تحریم ا لدم ، مسند ابو یعلیٰ ، ابو داؤود ، طبرانی ، ابن ابی عاصم ، الہیثمی مجمع ا لزوائد ، مستدرک ا لحاکم ، طبری ، عسقلانی فتح ا لباری ، اور ترمذی شریف سے ماخوذ ہیں ۔
تو میرے عزیزو ! اگر ہم اپنی فکر اور معاملات میں اتنے شدید ہیں کہ خود اپنی صفوں میں اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے تو ہم دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ ’امن و اتحاد اور رخصت و بر دا شت ‘ کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ اور ان سے ’امن و برداشت ‘ کا مطالبہ کرنے میں کیونکر حق بجانب ہو سکتے ہیں ؟
اگر ہم اپنی اقلیتوں کو برداشت نہیں کر سکتے ، اور جہاں ہم خود بر سر اقتدار ہیں اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں ، وہاں ، اپنی اقلیتوں کے ساتھ اگر انصاف نہیں کر سکتے ، یعنی ان کے ساتھ معاملات میں توازن و اعتدال ‘ قائم نہیں رکھ سکتے ، تو ، جہاں ہم اقلیت میں ہیں اور اپنی اکثریت کے ظلم و تعدی ، تعصب و جا نب داری اور بد سلوکی و نا انصافی کا شکار ہیں ، وہاں ، ان سے وہی مطالبہ کرنے میں، ’ خود را فضیحت و دیگراں را نصیحت ‘ کے الزام سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ جب ہم خود بہ شرط اقتدار و اختیار اپنی اقلیتوں کو جینے کا حق نہیں دے سکتے ، بلکہ انہیں کافر قرار دے کر ان کا قتل عام باعث ثواب سمجھتے ہیں تو ہم دنیا کی ان ظالم و قاہر اکثریتوں سے جینے کا حق کس منہ سے مانگ سکتے ہیں ؟
جہاں یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں سے ہمارا سابقہ ہے اور جہاں ہم اپنی علٰحدہ دینی و مذہبی ، لسانی و ثقافتی شناخت کی بنیاد پر حد درجے کی غیر رواداری ، تعصب ، امتیاز اور بنیادی حقوق کی پامالی کے شکار ہیں ، وہاں ، ہم ان سے یہ تمام حقوق اپنے لیے بھلا کس منہ سے طلب کر سکتے ہیں ؟ جبکہ ہم خود اپنے زیر اقتدار علاقوں میں آباد اقلیتوں کے حقوق ِ انسانی کے انکاری ہیں ؟ ہم امریکہ ، ہندستان اور اسرائیل میں تو نسل پرستی APARTHIED کے خلاف لڑ رہے ہیں یا لڑنا چاہتے ہیں اور متمنی ہیں کہ پوری مہذب دنیا ہمارا ساتھ بھی دے ، لیکن ، خود اپنے زیر اقتدار علاقوں میں نسل پرستی ، قبیلہ پرستی اور اقلیت دشمنی میں سرگرم گروہوں کی حمایت کرتے ہیں ۔۔کہیں کھلے عام تو کہیں در پردہ ۔۔ تو ہم دنیا سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری اس منافقانہ روش کے باوجود ہماری غیر مشروط حمایت جاری رکھے ؟
ہم مظفر نگر ، ملیانہ ، ہاشم پورہ ، گجرات ، جمشید پور ، جبل پوراور بھا گل پور وغیرہ میں اکثریتی دہشت گردی اور کشمیر سمیت پورے ملک میں سیکیورٹی فورسز کی سفاکی کے شکار ہیں ، ہماری مسجد پر پہلے طاقت اور اقتدار کے بل پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا اور پھر بھیڑ جمع کر کے اسے آخری حد تک مشتعل کر کے اس مسجد کو شہید کر دیا گیا لیکن ہمیں انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا ۔ لیکن ۔۔خود ہم نے ان علاقوں میں جہاں ہمارے ہی ہم مذہب بر سر اقتدار ہیں اور جہاں ہم اکثریت میں ہیں ۔۔ ہم نے دنیا کے سامنے کون سا نمونہ پیش کیا ؟ کیا ہم اپنے اقتدار و اختیار والے علاقوں میں قرآنی اخلاق و کردار اور اسوہء حسنہء رسول ﷺ پر عمل کر کے دنیا کے سامنے آئڈیل اسلامی خلافت و ریاست کا نمونہ پیش کر رہے ہیں ؟
ہاں ، بے شک ، اصول یہی ہے اور ہمیں بھی معلوم ہے کہ ۔۔ ایک جرم دوسرے جرم کا جواز نہیں بن سکتا ۔ ایک ظلم کو دوسرے ظلم کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ۔ ایک دہشت گردی کو دوسری دہشت گردی کے جواز میں پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ جرم ، ظلم ، نا انصافی اور دہشت گردی ہر حال میں ، ہر زمانے میں اور ہر مقام پر قابل مذمت اور مستوجب سزا ہی رہیں گے ۔لہذا
اب دنیا کو محض یہ بتاتے رہنے سے کام نہیں چلنے والا کہ ۔۔ اسلام تو خالص دین امن و سلامتی اور دین رحمت و رافت ہے ۔ دنیا قول نہیں عمل دیکھتی ہے ، کردار دیکھتی ہے ، ثبوت مانگتی ہے ، ایسا ثبوت جسے ننگی آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکے ۔۔ ہم اسلام کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ سب حق ہے ، سچ ہے درست ہے اور بر حق ہے لیکن ۔۔۔سورہء منافقون یاد ہے آپ کو ؟ کیا کہا جا رہا ہے کہ ’’ اے نبی ﷺ جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ﷺہیں ‘‘ ہاں ! اللہ جانتا ہے کہ آپ ضرور اس کے رسول ہیں مگر ۔۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق ہیں اور جھوٹے ہیں ۔۔‘‘ تو عزیزو ہمیں اس پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ کہیں خدا نخواستہ ، ہم ، اسی قسم کے جھوٹ اور منافقت کا سہارا تو نہیں لے رہے ہیں ؟ کوئی جواب دینے والا ہمیں یہ جواب دے سکتا ہے کہ بے شک تم کہ تو صحیح رہے ہو ، ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام تو نام ہی امن و سلامتی کا ہے ۔ کسی بھی طرح کی دہشت گردی ، ارہاب اور ظلم و نا انصافی سے اس کا ہر گز کوئی تعلق نہیں لیکن ۔۔ ’’تم جھوٹے اور منافق ہو ‘‘ ! کیونکہ وہ اسلام تو صرف قرآن و سنت کی کتابوں میں بند ہے ۔ ہمارے سامنے تو ایران و عراق ، سیریا اور لیبیا ، یمن و سعودیہ ، نائجیریا و کینیا ، اور افغانستان و پاکستان وغیرہ ہیں ! جہاں تم اپنی ہی اقلیتوں کے ساتھ اور اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جو خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں اور جن سے تمہارا دینی و مذہبی ، لسانی و قبائلی ، ملکی اور قومی اور سب سے بڑھ کر انسانی اخوت کا رشتہ ہے ، لیکن ۔۔۔ تم تو ان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہوجو ، مثال کے طور پر ۔۔ہندستان ، برما ( میانمار ) چینی ترکستان ، تھائی لینڈ ، فلی پائن ، وسطی افریقی ریپبلک ، کانگو اور اسرائیل وغیرہ میں غیر مسلموں کے اقتدار میں تمہارے ساتھ ہو رہا ہے !!
کیا ہم سے قیامت میں یہ سوال نہیں ہوگا کہ جب ہم نے تمہیں اپنی زمین کے کچھ خطوں پر اقتدار بخشا تو تم نے ہمارے دین کا جھنڈا کیسے اٹھایا ؟
تو عزیز ساتھیو ! امت مسلمہ ، امت واحدہ کا مصداق بنے بغیر کم از کم اس آخری زمانے میں تو اکیسویں صدی کے دجالی فتنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ مسلمانو ں کا اتحاد انعام الٰہی تو
ہے ہی ’فریضہ ‘ بھی ہے جس کی ادائگی ہر فرد مسلم پر واجب ہے۔ مربی و مرشدی پروفیسر رشید کوثر فاروقی نے ۱۹۹۷ میں جو بات کہی تھی وہ آج ۱۸ سال بعد بھی اتنی ہی صحیح ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جب وہ یہ سب لکھ رہے تھے ، ان کی دور بین نگاہوں کے سامنے آج ہی کا منظر نامہ تھا ۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ جہاں تک اسلامیانِ ہند کا سوال ہے تو میرے علم کی حد تک وہ جس صورت حال سے دو چار ہیں اس کی نظیر تاریخ عالم میں دور فرعون کی امت موسوی کے سوا ، نظر نہیں آتی ۔ اگرچہ مما ثلت سقوط اندلس سے بھی ہے ۔ بلکہ یہ صورت حال نازک تر ہے کہ اب اگر کوئی ہجرت بھی کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی وادی یثرب تو خیر ہے ہی نہیں ، کوئی ہامونِ تیہ جیسا صحرا بھی نہیں کہ جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک بھٹکتے رہے تھے ۔
ادھر عالمی منظرنامہ اس درجہ ہوش رُبا ہے کہ آشوب تا تار بھی ہیچ نظر آتا ہے ۔ کیونکہ اللہ کی زمین اللہ کے نام لیواؤوں پر اتنی تنگ نہ تھی اور نہ ان کے خلاف اتنے دور رس اور عالم گیر منصوبے تھے ۔ کہیے تو کیا کہیے اور کہیے تو سننے والا ، اور شنیدنی کو کردنی میں بدلنے والا کون ہے ؟ وقت اتنا کم بلکہ معدوم ہے ، اور احوال ایسے کہ اصلاح قادر مطلق کے سو ا فی ا لحال اور کسی کے بس کا روگ نہیں معلوم ہوتی (الا یہ کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ اور امام مہدی کے ہاتھوں اللہ تبارک و تعالیٰ عسر کو یسر سے اور ظلم کو عدل سے تبدیل فر ما دے ) حضرت موسیٰ کی قوم نے انہیں بھی طرح طرح سے دق کر رکھا تھا ہم بھی روح محمد ﷺ کے ساتھ تقریباً وہی کر رہے ہیں ۔ آپس میں منتشر ، خیر امت اور امت وسط کی ذمہ داریوں سے غافل یا شتر مرغ کی پیروی (یا پھر پچھلے دس پندرہ برسوں سے جاری باہمی سر پھٹول ، برادر کشی اور خون مسلم کی ارزانی میں غیروں کے ساتھ خود ہم بھی شامل ! )
بس ایک شعاع امید کی ، اگرچہ بڑی خفیف اور بہت نحیف ہے ، اعلائے کلمہ ا لحق ہے ،جو اس وقت جہاد ہی نہیں افضل جہاد ہے ۔ یہ تو سچ ہے کہ حق سننے والے کتنے ہیں مگر اس سے بڑاسچ یہ ہے کہ حق گو پر ، نہ عدم سماعت کی ذمہ داری ہے نہ گراں گوشی کی ۔ اسے تو حق کہنا ہے اور حق اسی لیے کہنا ہے کہ سنا جائے یا نہ سنا جائے مگر کہا جائے ، متصل کہا جائے ، مکرر کہا جائے ۔ ۔۔ سن لو مری نوا کہ یہ شاید ہو آخری ۔۔۔بلبل ہوں جس کو تاک لیا ہے عقاب نے ! و آخر دعوانا ان ا لحمد للہ رب ا لعالمین
۔فھل من مدکر ؟ وا لسلا م علیٰ من ا لتبع ا لھدیٰ ۔