
جوینائل جسٹس بل لوک سبھا میں منظور
قانون کے تحت سنگین جرائم میںملوث ۱۶؍سے ۱۸؍سال کے ملزموں کامقدمہ بھی بالغوں کی طرح چلایاجائے گا
مرزاعبدالقیوم ندوی
9325203227
جمعرات ۷؍مئی کوجوینائل جسٹس(کمسنی)بل پارلیامنٹ میںمنظور کرلیا گیاہے،جس میں سنگین جرائم میںملوث 16سے81سال کے ملزمو ں کا مقدمہ بالغ افراد کی طرح چلایاجانے کی تجویزہے۔آئے د ن ملک میںزنا بالجبر کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،جن میں نوجوان اورکم عمر کے لڑکوں کی شمولیت تشویشناک ہے۔ جس نے ارباب اقتداراور ماہرین قانو ن کو یہ سوچنے پرمجبورکردیا ہے کہ ان کم عمر مجرمین کو کیا کیا جائے ۔سزا کے وقت سب سے بڑا مسئلہ مجرمین کی کمسنی کا آتا ہے ۔کم عمر ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے جرائم کہ جن کے جن انجام دینے سے بالغ مرد کوعمر قید،پھانسی،10-20سال کی سزا ہوتی ہے ،اگر یہ جرائم کم عمرنابالغ لڑکے انجام دے تو ان مجرمین کوزیادہ سے زیادہ تین سال تک ریمانڈ ہوم رکھا جاتاہے۔کم عمر مجرم ہونے کے سبب ان کوکوئی خاص سزا نہیں ہوتی ۔عمر کی حدکو کمی جائے اس پر بہت بحث ہورہی ہیںماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ آج کے انٹرنیٹ کے زمانہ میں لڑکے لڑکیاںوقت سے پہلے ہی بالغ ہوجاتے ہیں۔نوعمر لڑکوں کے ہاتھوںمیںموبائل آجانے کے سبب ان کے اندر جنسی جذبات بڑی شدت سے ابھر رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں رونماہونے والے جرائم میںکم عمر کے لڑکوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔2011میں جب ملک کی راجدھانی دہلی میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کا ریکارڈ کی جانچ ہوئی تو اس میںیہ دیکھاگیا کہ ان کے انجا م دینے والے اکثرنوجوان اورکم عمر کے لڑکے شامل ہیں۔مختلف جرائم میں گرفتار ہوئے کمسنوں کا ریکارڈ NCRBکے مطابق :
1231زنا بالجبرکی پاداش میں1168قتل کے جرم میں826اقدام قتل میں628چھیڑخانی 646 اغوا کرنے177دیگر جرائم میںگرفتار کیے گئے ہیں
جس کی بناپر دہلی کے سابقہ نائب گورنر تیزیندر سنگھ کھنہ نے عمر کی حد کو کم کرنے کی شفارش مرکزی وزیر داخلہ سے کی تھی۔عمر کی حد کم کرنے کی مانگ کرنے سے پہلے ہمیںکچھ ضروری باتوں کا علم ہونا چائیے ۔بھارت نے نوعمر مجرمین کی عمر کی حدکا جو قانون بنایا ہے اس کی بنیاد 1989میںunoکے ذریعہ جاری کیاگیا اعلامیہ ہے ۔تعزیرات ہند میں18سال سے کم عمر والوںکی سزا تین سال تک ریمانڈ ہوم میںرکھنے کی ہے۔عمرکی جوقید لگائی گئی ہے وہ اس بنیادپر کہ 18سال سے کم عمروالے بچوں میںیہ سمجھ نہیںہوتی کہ وہ کیاکرنے جارہے ہیں اوراس کا انجام کیا ہوگا۔ان کے اندر پختگی نہیںہوتی۔ان باتوں کومدنظررکھتے ہوئے مذکورہ بالاسزاتجویزی کی گئی ہے۔کچھ سماجی تنظیموں کا یہ کہناکہ اگر ان کمرعمر والے مجرمین کو سولہ سال کی عمر میںہی جیل میںڈال دیاجائے گاتو وہ وہاںعادی مجرمین کو صحبت میںاور زیادہ بگڑجائیںگے۔؟ اگر گناہ انجام دیتے وقت ہی اس کے نام پراگر خون،زنا،ڈاکہ جیسے جرائم کا ا ندراج ہوں تو اس کوکیاکیاجائے۔!!!
مرکزی وزیرداخلہ کی رپورٹ میں چونکا دینے والے اور حیرت انگیز اعداد وشمار سامنے آئے ہیں جن میں بچہ جرائم کا ریکارڈ دیا گیاہے ۔2013میں1007بچوںپر خون کرنے سے جیسے خطرناک گناہوں کاانداج ہے۔2012میں39ہزار822اسی طرح 2013میں 43ہزار 506لڑکوںمختلف جرائم میں گرفتار کیاگیا۔2013میں 07سے 12سال کے عمر والے 1130،بارہ سال تا 16سال کے عمر والے 13346،اسی طرح16تا18سال کے عمر والے28ہزار830شامل ہونے کی رپورٹ ہاتھ میںآئی ہے۔زنا بالجبر جیسے جرائم میں سولہ تا اٹھار ہ سال کی عمر والوں کی تعداد زیادہ ہیں۔ان میںسے اکثر بچوں اور لڑکوںپر خون،رہزنی،ڈاکہ ،چوری ،پاکٹ مارنا،لڑائی جھگڑے جیسے جرائم میںان کا فیصد بہت ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو بچہ مجرم کہا جائے یا پختہ عمر کے عادی مجرموںمیں شمار کیاجائے۔ملک کی موجودہ سماجی وسیاسی صورتحال کے پیش نظرملت اسلامیہ کے اس بیش بہا سرمایہ کی حفاظت کرنا ،نوجوان نسل کو گناہ و جرائم کے راستے سے روکنابہت ضروری ہوگیاہے۔آج بڑے شہروں میںجومجرمین پکڑے جاتے ہیںنہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ان میںمسلمان پائے جاتے ہیں۔ان کو کیسے کم کیاجاسکتاہے،ا س پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔ورنہ ملت اسلامیہ کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہوجائیگا۔
اس وقت ملک میں اسٹریٹ چلڈرن کا مسئلہ بڑا اہم بنا ہواہے ۔اس وقت ملک میںایک کروڑ ۱۰ لاکھ بچے سڑکو ںپر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہی بچے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن سے وہ مختلف جرائم انجام دیتے ہیں۔ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کا ایک مضمون’’اسٹریٹ چلڈرن برصغیر کے لیے خطرناک سماجی ،سیاسی اور اقتصادی مسئلہ ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میںاسٹریٹ چلڈرن میں اضافے کی بڑی وجہ دیہی آبادیوں کا بہترمعیارِ زندگی کے لئے تیزی سے شہروں میں منتقل ہونا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی سڑکوں پر ایک کروڑ۱۰؍ لاکھ بچے آچکے ہیں ۔کیاحکومت اور دانشور طبقہ اس خطرناک صورتِ حال کو سنجیدگی سے محسوس کررہے ہیں۔‘‘ (روزنامہ انقلاب ۸؍مئی ۲۰۱۵ء)
مسلم نوجوانوں کا حال:مسلم محلوں اور بستیوں میں ہمارے نوجوان کس حال میںہیںاگر دیکھنا ہے تو رات کے کسی حصہ میںچلے جائیے اور دیکھ لیجئے کہ قوم وملت کا مستقبل کس حال میںزندگی گزار رہا ہے۔جس بے فکری وبے حسی کی وہ زندگی گزاررہے ہیں اور جس حال میںوہ رہ رہے ہیں ان سے آپ کیا اسلام اور ملت کے روشن مستقبل کی توقع کرسکتے ہیں؟ عالم اسلام کی صورتحال اور فلسطین و غازہ پر یہودیوں کے ظلم و ستم کی تصویریں بھی facebook.what’s upپرگردش کررہی ہیں، مسلمانان عالم اپنے بھائیوں پرہونے والے مظالم کی وجہ سے سخت غم اور غصے میں ہیں۔وطن عزیزکی بھی صورتحال بدلی ہوئی ہے۔ریاست کی عوام بارش کی وجہ سے پریشان ہے،لاکھوں ہاتھ اللہ کے آگے پھیلے ہوئے ہیں،کروڑوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔مسلمان آج بھی گڑاگڑاکر اور تہجد میںدھاڑے مارمار کر امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے اللہ کے سامنے رورہے ہیں۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ملت کے نوجوان نشہ کررہے ہیں، مختلف قسم کی گولیاں کھارہے ہیں،گانجہ پی رہے ہیں اور بہت سے تو شراب بھی پی رہے ہیں،ہمارے ایک نوجوان دوست نے جب یہ بتایا تو ہم پریشان ہوگئے کہ یہ ملت کا قیمتی سرمایہ کس طرح ضائع ہورہا ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے شہر کے مشہور و معرو ف مسلم علاقہ میں مغرب کی نماز کے بعدچائے پینے کے لیے گیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک بڑے ہال میں نوجوان کیرم کھیل رہے ہیں ۔کیرم کھیلنے میں اس قدر مگن ہے کہ میں وہاں پانچ منٹ تک کھڑا رہا کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ مولوی صاحب آپ یہاں کیسے ؟ان کا انہماک دیکھ یر میںدنگ رہ گیا کہ یہ نوجوان جس خشوع وخـضوع ،یکسوئی ودلجمعی کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور جتنا وقت یہاں دے رہے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی مسجدوں میںلگادیں تو ہم سمجھتے ہیںکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کافی بدلی ہوئی نظر آئے گی اور اللہ تبارک تعالی جب ان نوجوان ہاتھوںکو اپنے آگے اٹھتا ہوا دیکھے گا تو یقینا ان کی دعاؤں کو رد نہیں کرے گا۔
نشہ کی کئی قسمیں اور طریقے ہوتے ہیں،ایک نشہ تو وہ ہے جو عام ہے،جس کے فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں،نشہ کرنے والا آدمی فوراََ پہنچانا جاتاہے، دوسرا نشہ معنوی ہوتا ہے جس میںآدمی گناہ بے لذت کا شکار ہوتاہے۔ اس کے مضراثرات اورشناخت دیر سے ہوتی ہے ۔کچھ لوگوں کو کسی چیز کی لت پڑ جاتی ہے،نشہ اورلت دونوں بھی خطرناک ہے۔دونوں کے لیے آدمی بے چین رہتا ہے۔ ان کے کیے بغیر وہ سکون و اطمینان کی سانس نہیںلے سکتا ۔آج کل نوجوانوں میںیہ دونوں قسمیں شدت سے سرایت کررہی ہیں،اس کی ایک بہت بڑی وجہ mobilکا حد سے زیادہ بڑھتا ہوا استعمال ہے،ہزار دوہزار روپیے میںچائنا کے نئے پرانے smart phone مل جاتے ہیں، جس پر نوجوان نسل porn site,ودیگرجنسی ویب سائٹس کا اس پرطرفہ تماشہ یہ کہ موبائل کمپنیوں نے بیس روپیے میں انٹرنیٹ کی سہولت مہیاکردی ہے۔
اسلام میں زنا کی جو حد ہے اس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میںدرج ہے۔سن بلوغت پر بھی علماء اور فقہاء کے مختلف اقوال ہیں،راجح اور زیادہ مشہور قول 15سال کی عمر کو سن بلوغ ماناگیاہے۔ پندرہ سال کی عمر کے لڑکے پر تمام اسلامی حددوکا نفاذ ہوگا ۔اس پر اجروثواب بھی ملے گا،جزر توبیخ بھی ہوگی ،سزا کا مستحق بھی ہوگا۔