ہمت، عزم اورحوصلے کا ناقابلِ یقین سفر

Chung ju

انعام اللہ

ناکامی نے پے درپے پانچ بار چنگ کے چاروں شانے چت کر دیے، مگر اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ استاد بننا چاہتا تھا۔ وہ دیکھتا تھا ہر شخص اس کے استاد کا احترام کرتا ہے۔ اور علم کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔ دوسری جانب ظاہری حالات اس کے لیے ہرگز ساز گار نہ تھے۔ اس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ جہاں کئی دنوں تک چولہا نہ جلتا تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ والدین کے کہنے پر اسکول چھوڑ کر کھیتوں میں کام کرنے لگا۔ صبح سویرے اٹھتا اور کھیتوں کی طرف چل دیتا۔ سارا دن کام کرتا۔ یہ سلسلہ چند ماہ تک چلتا رہا۔
یہ اس زندگی سے نالاں تھا۔ دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے کہ گھر میں خوش حالی بسیرا کر سکے۔ چنگ نے گاؤں ہی میں لکڑیوں کا کاروبار شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ اس کام میں جُتا رہا۔ کھیتی باڑی بھی ساتھ کرتا تھا۔ اسے اخبار پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اخبار بینی بھی اس کا معمول بن گئی۔ اسی شغل کے دوران ایک مضمون کے ذریعے ایک آئیڈیا ہاتھ آ گیا۔ اسی کے اب وہ موجودہ کاروبار کو چھوڑ کر ایک دوست کے ساتھ پندرہ میل دور شہر میں کام کی تلاش کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جلد ہی ان دونوں کو تعمیراتی شعبے میں مزدوری مل گئی۔ مگر وہ زیادہ دیر اسے نبھا نہ پائے۔ ایک دو ماہ ہی کام کیا ہو گا کہ اس کے والد اسے ڈھونڈتے ہوئے آ پہنچے اور واپس لے گئے۔
اس کی افتاد طبع اور والد کی رائے کا تصادم جاری رہا۔ یہ کئی بار بھاگا اور ہر مرتبہ اس کےوالد اسے واپس لے آتے۔ 1933ء میں اس نے چوتھی بار گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تیسری بار پھر سیول میں تھا۔ اب کوئی اسے کام پر رکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ چند دن کی دوڑ دھوپ سے آخر کار ایک سیرپ فیکٹری میں مزدوری مل گئی۔ اس فیکٹری میں مزدوری کے ساتھ ساتھ ایک رائس اسٹور میں ڈیلیوری مین کے طور پر کام کرنے لگا۔ یہ کام اسے راس آ گیا۔ یہاں محنت اور دلجمعی سے کام کرتا رہا۔ چار سال بعد 1937 ء میں اسٹور کا مالک بیمار ہو گیا۔ چنگ نے زندگی بھر کی جمع پونچی سے اسٹور خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ صرف 22 سال کی عمر میں چنگ ایک اسٹور کا مالک بن چکا تھا۔ اس نے اسٹور کا نام تبدیل کر کے Kyungi رکھ دیا۔ یہ بزنس روز بروز کی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا کہ 1939ء میں جاپانی حکومت اور فوج نے چاول کی درآمد پر پابندی لگا دی۔کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ ایک بار پھر ناکامی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
چنگ اپنے گاؤں لوٹ آیا۔ اسے کاروبار ناکام ہونے کا بہت دکھ تھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ ایک سال کے بعد 1940ء میں نئے جوش و خروش کے ساتھ سیول آیا۔ جاپانی حکومت کی طرف سے جنوبی کوریا پر جنگ کی وجہ سے بہت سی شرائط عائد تھیں۔ چنانچہ اس نے گاڑیوں کی مرمت کا کام شروع کر دیا۔ ایک دوست سے زیر استعمال سروس گیراج ادھار خریدا۔ خوب آمدنی ہوئی۔ مگر قدرت ایک پھر امتحان لینا چاہتی تھی۔ جاپانی حکومت نے 1943ء میں اس کاروبار کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ چنگ ایک بار پھر فٹ پاتھ پر تھا۔ پانچویں بار ناکامی نے چنگ کو پچھاڑ دیا تھا لیکن اس نے مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔ 1946ء میں جنوبی کوریا کو جاپانی کنٹرول سے آزادی مل گئی۔ اس نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کے لیے Hyundai اور ہنڈائی انڈسٹریز کی داغ بیل ڈالی۔ اب چنگ پر قدرت مہربان ہو چکی تھی اور اس کی استقامت اور استقلال نے رنگ دکھایا کہ ایک بڑا حکومتی کنٹریکٹ چنگ نے جیت لیا۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ 1947ء میں چنگ نے ہنڈائی انجینئرنگ اور کنسٹرکشن کمپنی کی بنیاد رکھی۔
ہنڈائی موٹر کمپنی کی بنیاد 1968ء میں رکھی۔ 1968ء میں کمپنی کا پہلا ماڈل فورڈ کمپنی کے تعاون سے تیار کیا لیکن جلد ہی فورڈ کمپنی نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مگر چنگ کے عزم، حوصلے اور جذبے نے ہنڈائی کو ناکام نہیں ہونے دیا۔ Hyundai کا سفر جاری رہا۔ پھر دنیا نے وہ دن دیکھا کہ ہر ملک میں ہنڈائی کی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ 2012 ء میں اس کمپنی نے 44 لاکھ گاڑیاں دنیا بھر میں فروخت کیں۔ دنیا کے 193 ممالک میں اس کا بزنس پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 75 ہزار ہے۔ اس کے 6 ہزار ڈیلرز اور شوروم ہیں۔ کوئی تصور کر سکتا تھا کہ بدحال گھرانے کا ایک مزدور کبھی اتنی بڑی کمپنی کا مالک بن سکتا ہے؟ ہمت، عزم اور حوصلے نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *