
کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ خلاف شریعت ہے؟
مولانا محمد حسین خلیل
نیٹ ورک مارکیٹنگ جس کو ملٹی نیشنل لیول مارکیٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے آسانی کی خاطر ’’جعل نما‘‘ تجارت بھی کہاجاسکتا ہے۔ چونکہ اس میں کام کرنے والے مختلف سطح کے لوگ ہوتے ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک سیکڑوں سطحیں بنتی ہیں ، اس لحاظ سے اس کو ’’مختلف السطح‘‘ تجارت سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اس کے تین چار مشہور مراحل ہیں جن سے یہ متعارف ہے۔
اس کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے بعد ہاورڈ بزنس اسکول نے متعارف کروایا تھا۔ اب یہ دنیا کے 150 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سےہندوستان میں بھی یہ طریقہ کار مختلف ناموں سےجاناجاتاہے اور مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اس طریقہ کار سے ملک میں اپنی تجارت کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہ طریقۂ کاروبار بنیادی طور پر کئی عقود (ٹرنزکشن) کا مجموعہ ہے۔ ایک اجارہ کا عقد، جس میں محنت اور خدمت انجام دینی ہوتی ہے اور دوسرا بیع کا عقد جس میں کوئی اثاثہ دوسرے کی طرف منتقل کیا جاتا ہے، لیکن اس نیٹ ورک مارکیٹنگ میںان دونوں چیزوں کو باہم اس طرح ملایا جاتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہوتے ہیں یعنی ایک کے بغیر دوسرا نہیں چل سکتا، اگر آپ کوئی چیز چاہتے ہیں تو آپ کو کوئی چیز خریدنا پڑے گی۔ شرعی حوالے سے بھی اس کی قباحتیں سامنے آ چکی ہیں اور معاشی حوالے سے بھی ماہرین معاشیات نے اس کی مضرتیں تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کسی بھی طرح معیشت کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو سکتی۔ شرعی حوالے سے اس میں درج ذیل پانچ بڑی خرابیاں ہیںجس کی وجہ سے یہ ناجائز اور خلاف شرع ہے:
1 اس میں کچھ ایسے مراحل بھی آتے ہیں کہ بڑے اور صف اول کے ممبران کی کوئی ذاتی محنت شامل نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے کی محنت اور کمیشن میں حصے دار ہوتے ہیں۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ جب آپ کسی مال اور منفعت کے حق دار بنتے ہیں تو اس کے پیچھے یا تو آپ کا مال لگا ہو اہونا چاہیے یا آپ نے اس کا رسک اور ضمان برادشت کیا ہو یا یہ کہ اس کام کے پیچھے آپ کی کوئی محنت یا خدمت ہو۔ تو سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ محنت، ضمان اور عمل کے بغیر اس میں کمیشن کا ایک خاص حد تک حق دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
2 اس میں ’’صفقہ فی صفقہ‘‘ ہے یعنی ایک معاملے کو دوسرے میں اس طرح شامل اور لازم کیا جاتا ہے کہ ایک کے بغیر دوسرا پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ جبکہ ایسا کرنے کو بہت ساری صحیح روایات میں صراحتا منع کیا گیا ہے۔ 3 اس میں سرمائے کی ایک مصنوعی گردش پیدا کی جاتی ہے یعنی اس کے پیچھے جو اثاثہ رکھا جاتا ہے وہ عموماً عام استعمال کی چیز نہیں ہوتی۔ اگر وہ استعمال کی چیز ہوتی بھی ہے تو اس کی اتنی طلب نہیں ہوتی۔ اگر اس کو نارمل حالت میں رکھا جائے تو سرمائے کو مصنوعی گردش دی جاتی ہے جو کہ شرعی لحاظ سے ایک ناجائز عمل ہے۔ اس لیے کہ اس کا نتیجہ مضر ہوتا ہے اورہر وہ چیز جو مضر ہو وہ شرعی لحاظ سے ناجائز ہوتی ہے۔ نیز معاشی حوالے سے بھی اس طرح کی مصنوعی گردش پیدا کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔
4 اس میں قمار کا پہلو بھی پایا جاتا ہے یعنی جوئے اور سٹہ بازی کا عنصر بھی ہے۔ وہ اس طور پر ہے کہ جو چیز اس میں اثاثے کے طور پر خرید و فروخت کے لیے رکھی جاتی ہے، اس کی قیمت عام قیمت سے زیادہ رکھی جاتی ہے اور جو ممبر بنتا ہے تو وہ اس کی وہی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اس حرص و لالچ میں کہ اس کو آگے کمیشن پر رکھا جائے گا اور ممبر شپ اس کو مل جائے گی تو اس کے کمیشن ممبر بننے کے بعد جو اس کی کمائی اور محنت ہے وہ یقینی نہیں ہے کہ اس کے نیچے ممبر بنیں گے یا نہیں بنیں گے۔ اگر بنیں گے تو کتنی مقدار میں، اس کو اس کے نتیجے میں کتنا پیسہ حاصل ہو گا۔ جب کہ پہلے سے اس نے جو لالچ اور حرص میں زیادہ قیمت ادا کی ہے وہ تو اس کی جیب سے چلی گئی ہے۔ اسی طرح مال کو داؤ پر لگانے والی صورت بھی اس میں شامل ہے۔ ایک غیر یقینی صورت حال کے لیے اپنی جیب خالی کروانے کی صورت بھی اس میں ہے۔
5 نیٹ ورک مارکیٹنگ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن و حدیث کے تمام معاشی احکام کا اصل مقصد یہ ہے کہ دولت معاشرے کے افراد کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ایک معتدل اور متوازن انداز میں معاشرے کے تمام طبقات اور افراد میں تقسیم ہو، جب کہ اس طرح کی اسکیم میں دولت سمٹ سمٹ کراوپر والے چند ممبران کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اور نیچے والے ممبران ایک چین اور ایک ذریعے کی حیثیت سے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
ان تمام وجوہ سے نیٹ ورک مارکیٹنگ خلاف شرع ہے۔ چونکہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں یہ خرابیاں اور مفاسد موجود تھے تو ہندوستان تمام بڑے دارالافتائ، اسلامی فقہ اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنو وغیرہ نے اس کاروباری اسکیم کو ناجائز کہا ہے اور اس سے متعلق فتاویٰ جاری کیے ہیں۔
دوسری جانب اس کی معاشی قباحت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ امریکا کی ریاست ’’اوکلو ہاما‘‘ کی ایک عدالت نے 2001ء میں اس طرح کی کمپنی ’’سکائبز‘‘ کی سرگرمیاں روکیں، اس پر قانونی پابندیاں لگائیں اور اس کے اثاثے منجمد کیے،اس کیس کی پوری تفصیل ریاست ہائے متحدہ امریکا کی وفاقی تجارتی کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح چین اور جاپان نے 1998ء میں اس طرح کے تمام کاروباروں پر پابندی لگائی تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے اس کو معاشی لحاظ سے مضر سمجھا اور پاکستان میں بھی جو سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان جو ’’ECP‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اس نے بھی دو مرتبہ 2003ء اور 2004ء میں اس طرح کی اسکیموں کی سخت حوصلہ شکنی کی اور اپنے عوام کو بہت سخت انتباہ جاری کیا کہ وہ اس طرح کی اسکیموں سے الگ رہیں اور اپنا سرمایہ اور محنت ضائع نہ کریں۔
پروفیسر مفتی منیب الرحمن
نیٹ ورک مارکیٹنگ جائز نہیں ہے۔ لوگ اس لیے اس میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں کہ محنت کے بغیر اور کم از کم وقت میں لوگ امیر سے امیر تر بننا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ہر انسان محنت کرے اور اپنی محنت کے استحقاق کے مطابق ترقی کرے تو اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ مذہبی لوگ اس لیے ملوث ہیں کہ اس طرح کے کاروباری لوگ بڑے شاطر ہوتے ہیں اور وہ مذہبی لوگوں کو لالچ دے کر اپنے اس ناجائز نیٹ ورک میں پھنساتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو شکار کرنا اور شکار بنانا آسان ہو جائے۔ اسی وجہ سے جو پرائیویٹ مضاربہ کے اسکینڈل آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں بھی جو چہرہ سامنے ہے، وہ مذہبی لوگوں کا ہے… میرا تو یہ خیال ہے کہ تمام مکاتب فکر کے مذہبی طبقات کو اس حوالے سے ایک جامع بیان دینا چاہیے تاکہ لوگ اس طرح کی ناجائز تجارت میں ملوث نہ ہوں اور صرف کسی کا مذہبی چہرہ دیکھ کر متاثر نہ ہوں، جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کیا ہو یا جتنے بڑے پیمانے پر یہ لوگ کاروبار کا دعوی کرتے ہیں، ان کے سامنے اس کاروبار کے قرائن اور اسباب موجود نہ ہوں، اس وقت تک ایسے لوگوں کی تجارت پر اعتماد نہ کیا جائے۔ مسلمانوں اور خصوصاً تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ نہ خود اس کا حصہ بنے اور نہ ہی کسی اور مسلمان کو اس کا حصہ بننے کی ترغیب دے۔
علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
نیٹ ورک بزنس میں سب سے زیادہ قباحت والی بات ہے یہ کہ نہ تو کوئی سروس فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی پروڈکٹ کو سیل کیا جاتا ہے۔ جب تک یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں تب تک شریعت اور سماج میں جو تجارت کا تصور ہے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ یہ ایسا بزنس ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بزنس کے اندر لوگوں کو شامل کر کے ان کو ایک لحاظ سے سہل پسند بنادیا جاتا ہے۔ ان کی دیگراپنی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو معطل کر کے اس کی تمام صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور معاشرے میں جو جائز کاروباری شکلیں ہیں اگر ان کے اندر لوگ انویسٹمنٹ کریں تو جائز بزنس کو فروغ حاصل ہو گا۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ سے جائز کاروباری سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔
جناب ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
نیٹ ورک مارکیٹنگ اسلام کے معاشی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔اسلامی معاشی نظام کے خلاف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میںکسی بھی پروڈکٹ کو سیل نہیں کیا جاتااور اسلام کا اصول یہ ہے کہ جب تک مبیع یا پروڈکٹ معدوم ہوتو اس وقت تک اس کی بیع جائز نہیں ہے۔اس لیے نیٹ ورک مارکیٹنگ کا حصہ بن کر نہ تو خاندان کی معیشت درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے۔انسان ناجائز طریقہ تجارت تب اختیارکر تا ہے جب وہ اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اصل میں اسلام اپنے پیروکارو ں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ آمدنی اور اخراجات میں توازن اور میانہ روی رکھیں۔ جب انسان اس اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر وہ جائز اور ناجائز دونوں طریقوں سے کمائی کرتا ہے۔عام لوگ اس میں اس لیے مبتلا ہوتے ہیںکہ محنت کے بغیر وہ جلد از جلد اور کم سے کم وقت میںامیر بننا چاہتے ہیں۔