
تاریخ دَر کھولے کھڑی ہے کچھ لاؤ تو۔۔۔!!

ندیم صدیقی
اس نے پہلے MBBS کیا پھر MD اور ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اس نے کوئی دس مضامین میں ماسٹر کیا تھا مثلاً اس نے LLB کے بعد LL.M ، صحافت(B.journ) ،ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن(MBA)، پبلک ایڈمنسٹریشن، سوشو لاجی، اِکنامکس، سنسکرت، تاریخ، انگریزی ادبیات، فلسفہ، سیاسیات، ہندستانی تاریخ، کلچر، ثقافت، آثار ِقدیمہ وغیرہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کی تھیں مگر اسکے بعد بھی وہ نچلا نہیں بیٹھا وہIPS اور IAS جیسے مشکل ترین امتحان میں بھی سرخ رٗو ہوا ۔ اسے فنون سے بھی شغف تھا وہ ایک اچھے پینٹر اور ایک اچھے فوٹو گرافرکے طور پر بھی اپنی شناخت رکھتا تھا۔ مہاراشٹر کے سب سے کم عمر ممبر اسمبلی کے طور پر بھی تاریخ میں اس کا نام درج ہے۔ وہ مہاراشٹر سرکار میں وزیر ہی نہیں راجیہ سبھا کا رکن بھی بنایا گیا۔۔ وہ 14 ستمبر1954 کو ناگپور کے ایک قصبے میں پیدا ہوا تھا اور2 جون 2004 کو ایک سڑک حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ یعنی اس نے صرف49 برس کی عمر پائی مگر اپنے ملک میں وہ ایک مثالی شخص کے طور پر تاریخ میں اپنی جگہ بنا گیا۔ ہمارے دَور کے اس تاریخی شخص کا نام ہے شری کانت جِچکر ہے ۔
اب ہم اپنے لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ کیاآزاد ہندوستان میں کوئی ایک شخص ایسا ہے جس کو اُس وقت یاد کیا جاسکے۔!!
ہمارے حافظے میں ایک شخص کی شبیہ روشن ہوئی ۔۔۔ جو ممبئی کے کھار علاقے میں ایک مدرس کے گھر10 مارچ 1911ء کو جنما تھا اُس کے گھر میں بجلی نہیں تھی وہ اسٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑھتا تھا کہ ایک دن گھر سے قریب ایک شمشان کے پنڈت نے دیکھا تو اُس نے اِس لڑکے کو شمشان میںلگے بجلی کے کھمبے کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھنے کی پیش کش کی اور اُس شخص نے اس پیش کش کو قبول کیا ۔نو عمری کا زمانہ رات میں وہ شمشان میں پڑھتا تھا تو دوسری طرف اُسی شمشان میں چتا جلائی جا تی تھی۔ کسی طور اُس نے تاریخ جیسے مضمون میں ممبئی یونیورسٹی سے اور ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی میں MA کر لیا اور جب شعور کو پہنچا توشاعری کا شوق ہوا اُس وقت علامہ آرزوؔ لکھنوی کاطوطی بول رہا تھا سو اُس جوان نے آرزو ؔکی شاگردی اختیار کی۔ روایت ہے کہ آرزوؔ اُس نوجوان کو ہر دوسرے تیسرے دِن کوئی ایک مصرعہ دیتے اور اس طرح پر کم از کم بیس سے پچیس شعر کہنے کی تاکید کرتے اور شرط یہ بھی ہوتی کہ جب میرے پاس آنا تو ہر شعر میں کم از کم ایک غلطی ضرورتلاش کرلینا اور کوشش یہ بھی کرنا کہ اس غلطی کی اصلاح بھی خود کر سکو اور جب کوشش کے باوجود اصلاح نہ کرسکو تو پھر مجھ سے کہنا اور اگر کسی شعرمیں کوئی غلطی نہ ملے تو سمجھ لینا کہ مَیں اس میں کم از کم دو غلطی تو ضرور نکالوں گا۔ مختصر یہ کہ یہ سلسلہ چلا اور کئی برس تک۔
مشق کی اس اگنی سے وہ نکلا تو کندن بن چکا تھا پھر خود اس کے شاگردوں کا ایک حلقہ بن چکا تھا۔ علامہ آرزو ؔکا ایک جملہ ادبی تاریخ میں درج ہے کہ ۔۔۔ ’’مَیں شاگرد نہیں ، اُستاد بناتا ہوں‘‘۔ ۔۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ پرتوؔ لکھنوی، احسن ؔرضوی داناپوری اور محمود حسن سروشؔ یہ تینوں اشخاص تو اِسی شہر ممبئی کے ہیں جو علامہ آرزوؔ لکھنوی ہی کے تربیت یافتہ تھے اور اپنے زمانے میں ممبئی کے ادبی و شعری حلقے میں یہ تینوں حضرات بلا اختلاف محترم اور مُعزَز تھے۔ ہم نے کھار میں پیدا ہونے والے جس لڑکے کا ذکر کیا ہے وہ کوئی اور نہیں اسی مثلث کا ایک ضلع محمود حسن سروش تھے۔ وہ انگریزی اور تاریخ میں ڈبل ایم تھے ہی مگر فارسی پراس درجہ قدرت تھی کہ ممبئی کے ایران کلچرل ہاؤس میں جب کوئی اِیرانی مہمان آتا تو اُس کی تقریر کا بر و قت اور برجستہ اُردو ترجمہ محمود سروش ہی کرتے تھے ۔ اُنہوں نے کوئی84برس کی عمر پائی ۔ خوب کہتے تھے طرحی مشاعروں اور مقاصدوں کے لئے فی البدیہ شعر موزوں کرتے تھے یعنی اُنھیں زود گو بھی کہا جاسکتا ہے ہر چند کہ اہلِ بیت کی شان میں قصیدہ کہنا کوئی عام سی بات نہیں برسوں کی ریاضت اور مشق مطلوب ہوتی ہے ،اُنہوں نے قصیدے کہے مگر اس کے باوجود اُنہیں بسیار گو نہیں کہیں گے ۔ دراصل زود گوئی تو اپنے آپ میں ایک وصفِ احسن ہے مگر بسیار گوئی ۔۔۔بسیار خوری کی طرح غیر مستحسن ہی نہیں بلکہ معیوب عمل سمجھا گیا ہے ۔ محمود سروش نے دہلی میں بھی علم و ادب کے کام کئے اُنہوں نے اُس زمانے میں نیشنل بک ٹرسٹ جیسے اداروں کیلئے علمی و ادبی خدمات انجام دیں۔ اُردو، فارسی اور انگریزی کا یہ مثالی عالِم جو عروض اور زباندانی میں اپنی مثال آپ تھا اور اُس کے زمانے میں مہاراشٹر ُاردو اکادیمی بھی قائم ہوچکی تھی مگر اسے نہ تو کبھی اکادیمی مذکور کی رُکنیت کی پیش کش ہوئی اور نہ ہی کوئی اکادیمی ایوارڈ دِیا گیا ۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی کسی ایوارڈ وغیرہ کا طالب بھی نہیں پایا اور اس سے بڑی بات یہ تھی کہ علمی یا دانشوری کے زَعم سے دٗور بہت دٗور تھا وہ ۔ اسے اس کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ لوگ اسے دانشور یا شاعر اعظم سمجھیں ایک بار کسی تذکرے میں اُس کا ذکر نہیں تھا شاگرد جز بز ہوئے تو اُس نے فوراً سے پیشتر سب کو ڈانٹ دیا کہ۔۔۔
’’ لوگ سمجھیں گے کہ مَیں ہنگامہ کر وارہا ہوں اگر مجھ سے محبت کرتے ہوتو اس معاملے میں خاموش رہو۔ ورنہ میرے طوطے سمجھے جاؤ گے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ علم ایک نور ہے اور ظلمت، نور سے تعلق رکھنے والے کو کبھی اپنے حصار میں نہیں لے سکتی ۔ علم اپنے آپ میں خود ایک اعزاز ہے ایک ایوارڈ ہے۔ یہ جو ایوارڈز کی خبریں آرہی ہیں یہ خبر ہی ہیں ، یاد رکھو خبر باسی بھی ہوجاتی ہے مگر علم کبھی باسی نہیں ہوتا اور عزت علم ہی سے ملتی ہے‘‘۔۔۔
جچکر سے لے کر سروش تک کی یہ روداد تاریخ میں درج ہو چکی ہے ، کاغذی تاریخ میں نہیں فطرت کی تاریخ میں۔ سروش مرحوم ہی کا ایک مقطع۔۔۔ کیا حسبِ حال ہے :
وِیران کس قدر ہے یہ بازار اے سروش÷ شاید یہاں متاعِ ہنر بیچتے ہیں لوگ