
بلاسودی فائنانس کی مخالفت کیوں؟

کے سی تیاگی
چھبیس مئی، 2015 یعنی مرکزی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ملک کے شہریوں کو مخاطب ایک کھلے خط میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ حکومت غریبوں، حاشیے پر پہنچ گئے اور پیچھے رہ گئے لوگوں کے تئیں وقف ہے۔
بی جے پی کے انتخابی مہمات میں خوب استعمال کیا گیا نعرہ ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ نے بھی اسی خیال کو لوگوں تک پہنچایا تھا۔ ‘پردھان منتری جن دھن یوجنا ‘ کا بھی مقصد سماج کے محروم ترین لوگوں کو معاشی ترقی میں شامل کرنا ہے۔ ‘اسٹیٹ بینک آف انڈیا شرعیہ كمپلائنٹ (شرعیہ کے مطابق)میوچول فنڈ، کو تمام ریگولیٹری ایجینسیوں کی طرف سے یکم دسمبر 2014 سے شروع کیے جانے کے لیے ہری جھنڈی دے دی گئی تھی لیکن 30 نومبر 2014 کو افتتاح کیے جانے کے مقررہ وقت سے کچھ گھنٹوں قبل ہی اچانک ملتوی کر دیا گیا۔ اس فیصلے کی واضح اور اطمینان بخش وضاحت نہیں کی گئی ۔ ایسے حالات میں صرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ ہے لفظ ‘شرعیہ سے حکومت کی دشمنی ہے ۔
حکومت کا یہ قدم شمولیت کے لئے کئے گئے اس کے اپنے وعدے اور شہری بھائی چارے کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کا ایک اچھا خاصا طبقہ سود سے اسی قسم کے فنڈز میں پیسہ لگانے سے گریز کرتا ہے کیونکہ انہیں یہ غیر اخلاقی اور استحصال کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بلاسودی نظام میں بڑی دلچسپی ہوگی۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ میوچول فنڈ سے ہر ایک کو فائدہ پہنچنے والا ہے۔
این آر آئی سمیت مذہبی مسلمان، خاص طور پر جو خلیج کے علاقے میں ہیں، سود کی وجہ سے مالی اور بینکنگ لین دین سے دور رہتے ہیں۔ اس طرح کی سہولت سے ملک کی معیشت اور بینکنگ کو این آر آئی کی بچت سے فائدہ ہوگا ۔ آر بی آئی کے موجودہ گورنر، رگھرام راجن کی صدارت میں قائم اقتصادی اصلاحات کمیٹی نے 2012 میں اپنی رپورٹ میں یہ کہتے ہوئے بلاسودی بینکنگ کی سفارش کی تھی ۔
دہلی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف آبجیكٹیو اسٹڈیز، جس نے اس موضوع پر کئی ریسرچ کرائے ہیں اور بین الاقوامی سطح کے سمپوزیم سمینار منعقد کیے ہیں، حکومت اور بینک حکام کو سمجھایا ہے کہ وہ ‘شرعیہ لفظ پر زور نہ دیں اور ‘اتھیكل سرمایہ کاری ( اخلاقی سرمایہ کاری)، ‘پارٹسپیٹری بینکنگ (شراکت داری پر مبنی بینکنگ)، ‘متبادل بینکاری (اختیاری بینکنگ) جیسے ناموں کا خیر مقدم کریں۔ دراصل بلا سودی بینکنگ برطانیہ، فرانس، سنگاپور، برازیل اور مشرق وسطی میں کام کر رہے ہیں۔ایسے کاموں کے لئے دنیا کے کچھ بڑے بینکوں کے کاونٹر مغربی ممالک میں خاص کاؤنٹر ہیں۔
یہاں تک کہ چین بھی اس جانب متوجہ ہوا ہے۔ دنیا بھر کے تقریبا 75 ممالک نے اس نظام کو اپنایا ہے۔ ایس بی آئی نے اس کے قانونی ، تکنیکی اور ریگولیٹری امور پر پوری محنت کرنے کے بعد ہی اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی لیے فیصلے کا اچانک ملتوی کیا جانا معمہ بنا ہوا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں میں خاصی تعداد غیر مسلموں کی ہے۔ اس طرح کی فنڈز میں میں جوا، دھوکہ بازی اور مصنوعات کی قیمت کے بارے میں لمبے چوڑے وعدے کئے جانے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اس طرح کے فنڈز روایتی فنڈز کے مقابلے مارکیٹ کے اتار چڑھاو سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ بلا سودی لین دین کے امکانات سے سرمایہ کاروں کے خاص طبقے، جس میں زیادہ تر مسلمان ہیں پرہیز کرتے ہیں ۔ مسلمانوں میں یو ٹی آئی یونٹ 64 اور دیگر مصنوعات کی مقبولیت کی اصل وجہ یہی ہے۔ لیکن، جیسا کہ ٹاٹا ایتھكل فنڈ اور ٹارس اكویٹي فنڈ سے ثابت ہوتا ہے، یہ غیر مسلمانوں کو شراکت سے نہیں روکتا ہے۔ اس میں 40 فیصد جین ہیں۔
توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ کسانوں کی خود کشی کی اصل وجہ سودی قرض ہے جسے وہ ادا کر پانے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ چونکہ فصل برباد ہو جاتی ہے اور کاشت کاری کے لئے لیا گیا قرض دن بدن بڑھتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کسانوں کے پاس موت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔ وہ اپنے پیچھے بے سہارا بیوہ اور یتیم بچوں کے لئے وراثت میں قرض چھوڑ جاتے ہیں۔ زرعی سائنس داں ایم سوامي ناتھن، جنہوں نےہندوستان میں ‘سبز انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، نے ملک میں بڑھتی ہوئی کسانوں خود کشی کے حل کے لئے اسلامک بینکنگ کی حمایت کی ہے۔
آخری لمحات میں ایس بی آئی شرعیہ میوچویل فنڈ ملتوی کئے جانے کی وجہ جاننے کے لئے 12 مارچ کو ہم نے مرکزی وزیر خزانہ کو خط لکھا ۔ مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ جينت سنہا نے 19 مئی کو اپنے جوابی خط میں لکھا کہ ‘افتتاح سے پہلے ہوئی میٹنگ کے کئی شرکاء سے حاصل معلومات سے عملی دشواریاں سامنے آئیں جس کی بنا پراسے ملتوی کیا گیا۔”
اگر وزارت خزانہ یہ معلومات دے دے کہ آخر اس میٹنگ کے شرکا کون تھے اور انہوں نے کیا ‘اطلاعات دی تھیں، تو اس سے اس معاملے کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکتی ہے۔ ان اطلاعات سے کس طرح کی دشواریاں ابھر کرسامنے آئیں اور پھر ایس بی آئی نے ان مشکلات کو دور کیوں نہیں کیا اور مقررہ وقت (25 جنوری، 2015) کے اندر اندر اسے دوبارہ شروع کیوں نہیں کیا۔ اس درمیان دنیا بھر میں کمرشل بینکوں کے پاس اسلامی بینکاری کا متوقع سرمایہ تقریبا ایک اعشاریہ 8 ٹریلین امریکی ڈالر ہے اور یہ سرمایہ قطر، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی کی روایتی بینکاری سے زیادہ رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ اس میں ایران شامل نہیں ہے۔
ان حقائق اور اعداد و شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان میں اس نظام کو اجازت دینا فائدے مند ہوگا، کیونکہ مجموعی طور پر بینکنگ کا بلاسودی نظام سرمایہ کاروں اور معیشت، دونوں کے لیے معاون ثابت ہوگا ۔ اس کو مسلسل ملتوی رکھنا زیادتی نامناسب ہے۔ معروف سائنس داں ڈاکٹر سوامي ناتھن کے بیان پر دینے سے یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ دیہی ترقی اور زرعی معیشت کے ماہر صحافی، پي سائی ناتھ کے مطابق ہندوستان میں 1995 سے تقریبا تین لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔
سائی ناتھ کا کہنا ہے کہ کسانوں کی طرف سے کی جا رہی زیادہ تر خود کشی قرض اور زراعتی سرمایہ کاری کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، پانی کا مسئلہ، قیمتوں میں عدم استحکام اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے حملوں اور بیماریوں سے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ فصل کی بربادی کے پیچھے جو بھی وجوہ ہوں لیکن سود کے بڑھنے سے مایوسی بڑھتی ہے یہی مایوسی خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے میں بلا سودی نظام معیشت کا آغاز کافی مددگار ثابت ہوگا۔
مضمون نگار جے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ ہیں