تجارت و معیشت کے دوران اسلام میں نگرانی کا تصور

justice

مولانا شیخ نعمان
چار نکات منصوبہ بندی،تنظیم سازی ،رہنمائی کے بعد آئیے! اب دیکھتے ہیں اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے نگرانی کے حوالے سے کیا ہدایات رکھتا ہے۔اور ہم کس طرح اپنے اداروں میں اسے رائج کر سکتے ہیں؟اسلام میں نگرانی کا جامع تصور موجودہے۔ایک ایسا تصور جو جدید مینجمنٹ کے نگرانی کے نظام سے زیادہ موثر،کم خرچ اور جامع ہے۔
ایک ہمہ گیر تصور
حدیث میں فرمایا گیا:’’تم میں سے ہر ایک نگران ہے، ہر ایک سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امام نگران ہے،اس سے اپنے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔آدمی بھی نگران ہے، اس سے اس کے ماتحت کے متعلق پوچھا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے، اس سے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بیٹا اپنے باپ کے مال میں نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ملازم اپنے مالک کے مال میں نگران ہے، اس کے بارے میںاس سے پوچھا جائے گا۔(غرض)تم سب نگران ہواور اپنے ماتحتوں(جن کی ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے) کے بار ے میں تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘
یہ حدیث اشارہ کرتی ہے کہ نگرانی صرف منیجر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے ماتحتوںکے کاموں کی نگرانی کرے بلکہ یہ دو طرفہ معاملہ ہوگیا۔ماتحت بھی اپنے منیجر کی نگرانی کریں کہ وہ تو ادارے کے مفادات کے خلاف تو نہیں جا رہا؟وہ تو کوئی کام شریعت کے دائرہ سے باہر نہیں کررہا؟ ایک حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔سوال ہوا کہ مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے لیکن ظالم کی کیسے مدد کریں؟ تو اس کا جواب دیا گیا کہ اسے اس ظلم سے باز رکھ کر۔
حضرت عمر ؓمنبر پر تشریف فرما ہیں۔ ایک عام آدمی خلیفۂ وقت کو کہتا ہے آپ نے مال غنیمت سے زیادہ حصہ لیا ہے جس سے آپ کا قمیض تیار ہوگیا ۔حضرت عمر اپنے بیٹے کو کھڑا کردیتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا والد گرامی کو دیا، جس سے ان کی قمیض تیار ہو گئی۔ یہ ہے اسلام کا تصور نگرانی کی ہمہ گیری کہ ہر ایک کو ذمہ دار بنا دیا گیا کہ وہ کسی غلط کام کو ہوتا ہوا نہ دیکھ سکے بلکہ فورا اس کی درستگی کی فکر کرے۔چاہے وہ غلط کام بڑا کر رہا ہے یا چھوٹا۔البتہ طریقہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوگا ۔جہاں اختیار چلتا ہے جیسا کہ منیجر کا اپنے ماتحتوں پر یا باپ کا اپنے گھر میں… وہاں اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے برائی اور غلط کام کو روکا جائے گا۔جہاں اختیار نہیں چلتا،البتہ زبان یا تحریر سے نصیحت کی جاسکتی ہے، وہاںاسے استعمال کیا جائے گا۔جہاں بالکل اختیار نہیں چلتا وہاں یہ ہے کہ کم از کم برائی کو دیکھ کر دل میں یہ خیال ہو کہ یہ غلط ہے اور میرا اختیار ہوتا تو میں اسے بدل دیتا۔
اللہ کا خوف
قرآن مجید کی مختلف آیات میں اللہ تعالی مسلمانوں کے دلوں میںیہ بات پختہ کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں بے فکر نہ رہو۔اللہ تعالی ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے،چنانچہ فرمایا: کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے؟ (العلق،آیت:14)اسی طرح دیگر آیات میں اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اللہ تعالی آنکھوں کی خیانت اور دل کی خیانت کو جانتا ہے۔اس مراقبے کی طرف ایک حدیث میںاشارہ فرمایا گیا کہ’’ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو،اس طرح کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘اسی مضمون کو شعر میں ایک بزرگ نے بیان فرمایا ؎
تو جو کرتا ہے چھپ کے اہل جہاں سے
کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے
یہ عقیدہ جب دل میں پختہ ہو جائے اور ہر وقت اس بات کا دھیان ایک مسلمان کے دل میں ہو تو پھرمنیجر کو اپنی توانائیاں نگرانی پر لگانے کی اس طرح ضرورت نہیں رہتی جیسا کہ آج غافل انسان اور مسلمان کی نگرانی پر لگانی پڑتی ہے۔پھر ایک مسلمان ایسی جگہ بھی کام بہتر انداز میں کرے گا جہاں اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہو۔
فرشتوں کی نگرانی
ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ دو فرشتے ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، جن میں ایک نیکیاں لکھ رہا ہے اور دوسرا برائیاں۔ اور یہ نگران نہ کبھی سوتے ہیں،نہ کبھی تھکتے ہیں،نہ کبھی غافل ہوتے ہیں،نہ انہیں دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (ق، آیت: 18) میں اللہ تعالی اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:ان کی ہر بات پر ایک نگران(فرشتہ) تیار رہتا ہے(جو اسے فورا نوٹ کرلیتا ہے)۔‘‘
یہ نگران ہر وقت ساتھ ہیں اور اعمال لکھ رہے ہیں۔ چاہے منیجر کی نگرانی ہے یا نہیں۔چاہے اس کام کی کہیں رپورٹ دینی ہے یا نہیں۔چاہے کوئی اس کام کا سوال کرے یا نہیں… فرشتے بہرحال لکھ رہے ہیں اور ایک دن کسی اور کے سامنے نہیں رب ذوالجلال کے سامنے ان اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ایک مسلمان کے دل میں اس نگرانی کا احساس اگر دل میں ہروقت آجائے تو مسلمان ہر حال میں اپنے کاموں پر بہترین انداز میں لگے رہیں گے۔اور منیجر کو قدم قدم پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام بنانے کی نوبت نہیں آئے گی، جس پر کثیر سرمایہ ادارے کا لگ جاتا ہے۔
خود احتسابی
انسان کی نگرانی خوداس سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ ہر وقت اپنی نگرانی کا ہی نام خود احتسابی ہے۔اسلام ہمیں جامع خوداحتسابی کی ہدایات دیتا ہے۔سورۃ الزلزال کی آخری آیات جن میں فرمایا گیا کہ ’’ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی، قیامت کے دن ظاہر کردی جائے گی اور اس کا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘سورۃ التکاثر میںارشاد ہے: ’’ایک ایک نعمت کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا۔‘‘یہ اور اس جیسی دیگر آیات ایک مسلمان کو جھنجوڑتی ہیں کہ کس طرح زندگی گزار رہے ہو۔خیال رہے،ایک دن ہر عمل کا جواب دینا پڑے گاتو کیا جواب دوں گا؟یہ دھیان ایک مسلمان کی لمحے لمحے کی زندگی درست سمت میں لے جاتااور ہر وقت اسے اپنے احتساب پر ابھارتاہے۔اگر ایک ملازم کے اندر خود احتسابی کا جذبہ ہو تو یقینا پھر نگرانی کا عمل بہت بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔پھر وہ خود سوچ سکتا ہے کہ واقعتا اس کی کارکردگی ادارے کے معیارات کے مطابق ہے یا نہیں؟وہ ہر وقت اس بات کی کوشش کرے گا کہ یہ وقت ادارے کو میں دے چکا اس میں اپنا ذاتی کام نہیں کرسکتا۔لہذا ادارے کا کام ہی دل لگا کر کرے گا۔
لائحہ عمل
ہم اپنے اداروں میں مروجہ نگرانی کے طریقوں کو اپنا سکتے ہیں۔لیکن ہم خود مسلمان ہیں،زیادہ تر ہمارے ادارے میں کام کرنے والے مسلمان ہیں۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اسلام کے جامع نظام نگرانی کو اپنے ادارے میںرائج کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے ہم درج ذیل اقدامات کرسکتے ہیں۔
اپنی اصلاح کی فکر کا اہتمام
سب سے پہلے تو اپنی اصلا ح کی فکر اوراہتمام کریں۔ جس کے لیے نیک لوگوں کے ساتھ اپنا ملنا جلنا رکھے۔ چاہے وہ خانقاہوں میں جاکر ہو،یا تبلیغی مراکز میں جاکریا مدارس میں حاضر ہوکر۔یا د رکھیے! ہم نے دنیا کو سیکھنے کے لیے محنت کی جب ہمیں کوئی ہنرمندی یا تعلیم آئی ۔دین سیکھنے اور اپنی اصلاح کے لیے بھی وقت نکالیں اور اپنے ظاہر وباطن کی اصلاح کروائیں۔ہم خود رول ماڈل بننے کی کوشش کریں ،پھر دیکھیں کس طرح ہماری بات میں بھی اثر ہوگا،ہمارا کردار بھی اثر انگیز ہوگا۔
ادارے کے ماحول کی تبدیلی
اگلے مرحلہ میں ہم اپنے اداروں کے ماحول میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔جتنا ہمارا دائرہ اختیار ہے،اس میں تو فوری دینی اقدار جیسے اللہ کا خوف، دیانت، امانت، خود احتسابی،وغیرہ کو ترویج دیں۔اس کے لیے محنت کریں۔ جس کے لیے علما و صلحا کے بیانات کی ترتیب،ایسی کتابوں کی تقسیم جن کو پڑھنے سے یہ اقدار ہمارے اندر پیدا ہو جائیں۔ کسی دینی کتاب سے تعلیم کی ترتیب وغیرہ شامل ہے۔پھر مزید ادارے میں مکمل طور پر بھی کوشش کریںکہ ماحول بدلے، لوگوں کی اقدار بدلیں۔یاد رکھیے! تبدیلی کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے ورنہ کبھی بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔
بازاری اقدار کی تبدیلی
ہم میں سے کچھ وہ بھی ہوں گے ،جو بازار میں اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔تو ہم بازار کے مختلف فورمز پر اس بات کی اہمیت کو اجاگر کریں کہ ہم مسلمان ہیں،ہمارے پیچھے چلنے والے بھی مسلمان ہیں۔اسلام ہمیں جو اقدار دیتا ہے،جن بنیادوں پر معاملات کو اٹھاتا ہے،وہ مروجہ اقدار سے کہیں بہتر،کہیں موثر اور قابل عمل ہیں۔دیگر لوگوں کو اپنا ہم خیال بنائیں۔ان شاء اللہ آہستہ آہستہ تبدیلی آئے گی۔اور پھر یاد رکھیے! کام میں لگے رہنا،فکر کرتے رہنا ،ہماری ذمہ داری ہے جس کی ہم سے پوچھ ہوگی،لیکن نتیجہ آیا یا نہ آیا، اس کی ہم سے کوئی پکڑنہیں۔ہم کوشش کرتے ہیں،دوسری جانب یا د رکھیں! اللہ تعالی بہت قدردان ہیں۔یعنی ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال کی بھی بہت قدر فرماتے ہیں۔اللہ تعالی کی قدر دانی کا یقین رکھیں۔ان شاء اللہ ہماری محنتوںکا بے حساب بدلہ اللہ نے تیار کررکھاہے۔
دعاؤں کا اہتمام
آخری مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم دعاؤوں کا اہتمام کریں۔ اپنے لیے اپنے ماتحتوں کے لیے،اپنے ادارے کے لیے،اپنی مارکیٹ کے لیے، اپنے شہر کے لیے،اپنے ملک کے لیے،تمام امت مسلمہ کے لیے ۔دعا کریں ،گڑ گڑا کر دعا کریں۔اللہ وہی ہے جس نے انبیاء کی سنی،صحابہ کرامؓ کی سنی،آج بھی وہ ہماری سننے کے لیے تیار ہے۔رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ان اوقات کو قیمتی بنائیں۔ اللہ سے سب کے لیے ہدایت مانگ لیں۔اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے،وہ ان اندھیروں کے ماحول میں ہدایات کی روشنی پیدا کرنے پر قادر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *