ایمرجنسی کے پردے میں صدارتی نظام حکومت کی تیاریاں !

عالم نقوی
عالم نقوی

عالم نقوی
ہم آج بھی ایمر جنسی پروف نہیں خطرہ پھر سروں پر منڈلا رہا ہے ؟

بی جے پی کے مارگ درشک منڈل کے سینیر رکن لال کرشن اڈوانی کا خیال تو یہی ہے !اخبار انڈین ایکس پریس کو دیے گئے اپنےخصوصی انٹر ویو میں انہوں نے ملک کو متنبہ کیا ہے کہ جمہوریت کو کچلنے کی صلاحیت رکھنے والی طاقتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں اور ایمر جنسی کے سیاہ شب و روز دوبارہ واپس آسکتے ہیں۔ بدھ 17 جون کو اپنی دہلی میں واقع قیام گاہ پر وندیتا مشرا سے گفتگو کرتے ہوئے مودی کو مودی بنانے والے لیڈر نے کہا کہ ۔۔قیادت کی کمزوریوں کی وجہ سے یقین نہیں آتا کہ ملک میں بنیادی حقوق پر شب خون مارے جانے کی چالیس سال پرانی تاریخ دوبارہ نہیں دہرائی جا سکتی ۔۔!
اسی مہینے کی 25 تاریخ کو 40 سال قبل 1975میں آر ایس ایس کی درگا اندرا ہی نے وطن عزیز میں وہ کیا تھا جو پاکستان سمیت دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں برابر ہوتا رہتا ہے ۔اور ملک کے سیاسی پنڈتوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ نریندر مودی میں اندرا گاندھی بننے کے آثارروز بروز قوی سے قوی تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ سب سے پہلے اُنہوں نے اٹل بہاری باجہئی ، لال کرشن اڈوانی اور مُرلی منوہر جوشی کو ٹھکانے لگایا اور پھر سشما سوراج کے پر کتر دیے جو وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہی تھیں ۔ اُنہیںوزیر خارجہ تو بنا دیا لیکن خارجہ پالیسی کے سارے معرکے خود ہی سر کرتےملکوں ملکوں گھومتے پھر رہے ہیںاور ایک بار بھی ملک کی وزیر خارجہ کو اپنے ساتھ لے جانے کی ضرورت نہپیں سمجھی ۔
مُرلی منوہر جوشی جیسے دانشور،اُستاد ، فزکس کے پروفیسر اور باجپئی کابینہ میں hrdمنسٹرکی دوسری بے عزتی اُنہوں نے اس طرح کی کہ فروغ انسانی وسائل کا محکمہ ( کہ وزارت تعلیم جس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ) اپنی کابینہ کی سب سے کمزور کڑی کے حوالے کردیا کہ جو شاید بی اے بھی پاس نہیں اور جن کا واحد تجربہ ساس بہو والے طویل ترین ٹی وی سوپ اوپیرا میں نبھایا جانے والا بہو کا کردار ہے ! یہی سبب ہے کہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں سب سے زیادہ طلبی بھی انہی کی ہوتی ہے اور تعلیم کے بھگواکرن کی پالیسیوں کو مکمل کرنے کے لیے

   لال کرشن اڈوانی ،(فائل فوٹو: معیشت )
لال کرشن اڈوانی ،(فائل فوٹو: معیشت )

سال بھر میں اسمرتی ایرانی کی کم از کم چھے کلاسیں آر ایس ایس کے لیڈر لے چکے ہیں !
اور لال کرشن اڈوانی تو وہ ہیں جنہوں نے کیشو بھائی پٹیل اور شنکر سنگھ واگھیلا کے مقابلے میں مودی کو کھڑا کیا ،انہیں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنوایا اور 2002 کے مسلم مخالف ہولو کاسٹ کے دوران اور اُس کے بعد کے دنوں میں ،اُن کے سب سے بڑے پُشتی بان بنے ڈٹے کھڑے رہے !
وزیر دفاع منوہر پاریکرکو جنگ ستا رہی ہے ۔ وہ کسی نہ کسی ملک سے امریکہ ہی کی طرح اپنی فوجوں کو بھی ہمہ وقت جنگ میں مصروف دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اجودھیا کے سادھو سنتوں نے سنگھ پریوار کے دوسرے لیڈروں کی طرح اَلٹی مَٹم دے رکھا ہے کہ ہم نے صرف رام مندر کی خاطر مودی کے سر پر سَتًا کا مُکٹ رکھا تھا، لہذا اب وہ قانون بنائیں چاہے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں، جیسے بھی ہو ، رام مندر بنانے کا راستہ صاف کریں کیونکہ یہ ہندوؤں کی آستھا معاملہ ہے اور دنیا کی کوئی عدالت اس کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ۔ابھی دو روز قبل ہی اجودھیا میں مارگ درشک منڈل کی میٹنگ میں کئی بار کا دہرایا ہوا یہ آموختہ پھر دُہرایا گیا ہے !
مودی کی پارٹی اور پریوار کے دوسرے ممبروں میں مسلمانوں کو روز ایک نئی گالی دینے اور ناکردہ گناہی کی روز ایک نئی سزا تجویز کرنے کی جیسے ہوڑ لگی ہوئی ہے ۔ کوئی اُنہیں حرام زادہ بتاتا ہے ،کوئی سمندروں کی گہرائیوں میں غرق کرنے کی بات کرتا ہے کوئی کہتا ہے کہ اُنہیں تو بس کسی اندھے اور تاریک کمرے میں بند کر کے رکھا جانا چاہپیے اور قبرستان اور پاکستان بھیجنے والوں کی توخیر سنگھ پریوار میں کبھی کوئی کمی نہیں رہی ۔
اب ان حالات میں لال کرشن اڈوانی جیسے لیڈر اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ایک بار پھر جمہوریت اور اظہار رائے کی ازادی پر قد غن لگنے کے آثار ہیں تو اُسے محض کسی جلے دل کی پکار تو نہیں کہا جا سکتا !
ایمرجنسی کے پردے میں صدارتی نظام حکومت کی تیاریاں !
دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کجری وال نے اڈوانی کے انتباہ کے تعلق سے با لکل درست کہا ہے کہ مودی حکومت جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور بنیادی حقوق پر شب خون مارنے کے تجربے کی شروعات دہلی سے کر رہی ہے سنگھ پریوار نے، کانگریس پریوار اور پولیس کی مدد سے ،اور نجیب جنگ جیسے دونوں پریواروں کے خادموں کے عملی تعاون سےیہ تہیہ کر رکھا ہے کہ دہلی کی منتخب جمہوری حکومت کو کسی بھی قیمت پر کام نہیں کرنے دیا جائے گا ۔ اور اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نہ صرف دلی والے بلکہ پورے ملک کا مہذب معاشرہ بساط ِ سیاست کی اِ ن گندی چالوں کو سمجھ رہا ہے اور اِن سماج دشمن سیاست دانوں کو سبق سکھانے کے لیے مناسب وقت کا منتظر ہے ۔ بہار بھی دلی کا جواب دینے کا فیصلہ کرچکا ہے ۔ ایمر جنسی کے خد شات در اصل اِن ہی حالات کی پیداوار ہیں ۔ سنگھ پریوار کا خیال ہے کہ نریندر مودی کے ذریعے ایمرجنسی لگواکر ،آئین کو معطل کر کے ،میڈیا کو پابند بناکر اور بنیادی حقوق پر قدغن لگاکر ہی اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے ورنہ این خیال است و محال است و جنوں !
اُن کا پروگرام یہ بھی ہے کہ ملک میں کسی بھی طرح امریکی طرز کا صدارتی نظام حکومت لے آیا جائے تاکہ By Hook or By Crook اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جا سکے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے ۔ سنگھ پریوار کا خیال یہ بھی ہے کہ دیش کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے ملک میں صدارتی نظام حکومت ہی زیادہ موزوں ہے ۔ڈاکٹر کرن سنگھ کی تجویز سنجیدگی کے ساتھ آج سنگھ پریوار کے تھنک ٹینک میں زیر غور ہے ۔ سیاسی اداروں پر کارپوریٹ پریوار کی قارونی گرفت
مضبوط رکھنے کے لیے بھی امریکہ اور فرانس جیسا صدارتی نظام ہی زیادہ موزوں اور کارآمد ہے ۔ صہیونی ریشہ دوانیوں کے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ اڈوانی کو مودی کا دشمن سمجھنا بھی شاید درست نہیں ۔ اُنہوںنے پانی میں کنکر پھینک کر محض سیاسی ہلچل کی شدت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے ۔19 ماہ تک جیل میں رہنے والے اڈوانی خوب جانتے ہیں کہ اول تو جو ایک لاکھ دس ہزار لوگ 1975 میں جیل گئے تھے سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں ہوا تھا اور دوسرے یہ کہ جنتا پارٹی کے قیام اور اندرا گاندھی کو شکست دینے کی حکمت عملی بھی جیل ہی کی رَہینِ مِنَت تھی ۔ لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے با وجود جنتا پارٹی حکومت پانچ سال پورے نہیں کر سکی تھی اور اندرا گاندھی دوبارہ پورے کر و فر کے ساتھ اقتدار میں واپس آگئی تھیں ۔ لہذا اس بار سنگھ پریوار ایمر جنسی لگاکر اَس پارلیمانی جمہوری نظام کا تختہ ہی پلٹ دیناچاہتا ہے کہ جس کے سہارے کانگریس پریوار راہل یوراج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر نے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ سنگھ پریوار، مودی ۔ا مبانی۔ اڈانی اینڈ کمپنی۔۔ کے ذریعے وہ تمامسیاسی اور انتظامی سوراخ LOOP HOLES بند کرنے کی بھر پور کوششیں کر رہا ہے جنہوں نے ایمر جنسی کے نقصانات کا فائدہ اُٹھانے کے وقفے کو ڈھائی سال سے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا ۔ پارلیمانی جمہوریت کے نظام کو صدارتی طرز حکومت سے بدلنے کا منصوبہ اِسی حکمت عملی کے طور پر زیر غور ہے ۔
ہماری تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ سنگھ پریوار اِس مرتبہ اپنے اِستحکام ِاِقتدار کے لیے مسلمانوں کو سیڑھی کی طرح استعمال کر نے کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے مسلکی افتراق انتشار کی شدت میں عالمی صہیونی پریوار اور بھارتی سنگھ پریوار دونوں برابر سے شریک ہیں ۔ ہماری صفوں میں چھپی ہوئی کالی بھیڑیں اپنے بیرونی آقاؤںسے کہیں زیادہ خطرناک ہیںاُن کو پہچاننا کسی قدر مشکل تو ضرور ہے لیکن
نا ممکن نہیں ۔ جو بھی صہیونی پریوار اور سنگھ پریوار کی حمایت کا دم بھرے ،دونوں سے رشتہء ولایت کے قیام کو وقت کا تقاضہ بتائے ،اورمسلکی شدت پسندی کا کھلے عام مظاہرہ کرے،مسجد میں امامت کے سوال کو لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اور قابل دست اندازی پولیس معاملہ بنا دےمسلکی اختلاف کو قتل و خونریزی کا لائیسنس قرار دے ، سمجھ لیجیے کہ وہی اُمت ِمسلمہ کے اُمت ِواحدہ اور بنیان مرصوص بننے کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے ! فقہی اختلاف اور فقہی مسالک کا ہو نا دوسری بات ہے لیکن مسلکی منافرت ، مسلکی قتل و غارت گری اور مسلمانوں میں باہم دگر کفر سازی اور کافر سازی کا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ جو بھی یہ کر رہا ہے وہ اسلام کے بنیادی ، عمودی اور دائمی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ۔
آئیے اِ س ماہ مبارک رمضان میں عہد کریں کہ ہم وحدت کلمہ اور کلمہء وحدت کی بنیاد پر اتحاد و اتفاق کے لیے اپنی بہترین توانائیوں کو بروئے کار لائیں گےاور مسلکی منافرت کے دھندے بازوں اور صہیونی پریوار اور سنگھ پریوار کے گماشتوں کو کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *