
مال کے فتنہ سے لڑیں اور اللہ سے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات طلب کریں!
رمضان المبارک کو اللہ نے خاص اپنا مہینہ قرار دیا ہے کیوں کہ اس ماہ میں رب العالمین نے قرآن مجید کی شکل میں اپنا کلام رہتی دنیا تک انسانوںکے لئے راہ نجات بنا کر نازل کیا ۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں خاص اللہ کے لئے روزہ رکھنے والا مسلمان جب نماز کے علاوہ قرآن پڑھتا ہے تواپنے رب کے قریب ہو جاتاہے۔ رمضان کے پہلے دس دن تک رحمتِ حق نیک بندوں کو اپنی طرف بلاتی ہے ۔ دنیا میں ایمان والے نماز کے ساتھ ساتھ خاص اللہ کے لئے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات میں حافظ قرآن نمازیوں کو تراویح پڑھاتے ہیں، ۔ اس نماز اور روزہ کے ساتھ ساتھ قرآن سے جڑنا ان کے دلوں کو نرم کرتا جاتا ہے اور انسان خود کو اللہ کے حضور میں پاک صاف پیش کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے رمضان کے دوسرے دس دنوں کے دوران لوگ اپنی گناہوں پر نادم ہو کرتوبہ استغفار کرتے ہوئے جب اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو ابر رحمت ان پر مغفرت کی بارش کرتی ہے ۔ دعائے مغفرت کے بعد انسان کو یہ خیال آتا ہے کہ کہیں ہم سے آئندہ کوئی گناہ ایسا نہ ہو جائے جو ہم کو جہنم کی آگ میں ڈلوا دے۔ اس فکر سے پریشان ہو کر بہت سے لوگ رمضان کے آخری دس دنوں میں شبِ قدر تلاش کرتے ہوئے اپنے رب سے دعا گو ہوتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا، تو بڑا بخشنے والا درگزر کرنے والا ہے، بس ہمارے تمام گناہ بخش دے اور ہمیں جہنم سے نجات دے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ نے کہا ہے کہ اے ایمان والو! نماز اور صبر سے سہارا حاصل کرو ۔ وہ دنیا کے کامیاب ترین لوگ ہیں جنہوں نے رمضان کے روزہ سے صبر( تقویٰ ) حاصل کر لیا اور اپنی نماز اور دعائوں کے ذریعہ اللہ سے مغفرت اور جہنم سے نجات پا لی ۔
شبِ قدر کی فضیلت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات ہر کام کے سر انجام دینے کے لئے اللہ کے حکم سے فرشتے اور روہ اترتے ہیں،یہ رات سراسر سلامتی کی ہے فجر کے طلوع ہونے تک۔ (سورۃ القدر ) جس طرح نزول قرآن سے دنیا کی تقدیر بدل گئی، اسی طرح قرآن پر چل کر شبِ قدر میں نماز اور دعائوں کے سہارے انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ارحم الرٰاحمین فرماتا ہے ہے کہ اے میرے بندو، جو تم اپنی جانوں پرظلم ڈھاتے رہے ہو، اللہ کی رحمت سے مایُوس نہ ہو جائو، یقینا تم رجوع کرنے والے بنو تو خدا تمہارے تمام گناہ معاف کر دے گا، وہ غفور الرّحیم ہے ۔ ( الزمر ۵۳) سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ماہ مبارک میں مغفرت اور جہنم سے نجات پانے کے لائق ہیں؟ یا ہم دنیا میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ سال در سال کے رمضان کے روزہ سے بھی ہمارے اندر تقویٰ نہیں آتا؟ کیا ہمارے گناہ ایسے ہیں کہ رمضان کے روزے ، نماز ، تراویح اور شبِ قدر کی شب گزاری سے بھی نہیں دھل پاتے؟ سچ کہیں تو کچھ گناہ اس وقت تک نہیں دھلتے جب تک توبہ استغفار کے سااتھ ساتھ اسکی اصلاح نہ کی جائے۔
قرآن میں اللہ نے کئی گناہ گاروں کے متعلق فرما دیا کہ اگر توبہ نہ کریں تو وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس فہرست میںکفار، مشرکین،منافقین، مفسدین، ظالمین اور متکبرین وغیرہ شامل ہیں۔ دیکھنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی اس فہرست میں تو شمار نہیں ہو رہے؟ اگر کہیں ہم میں ایسی کوئی برائی ہے تو اللہ سے مغفرت اور جہنم سے نجات طلب کرنے سے قبل ہمیں خود توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی ہوگی ۔ ایک بات اور سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی حقوق العباد سے متعلق گناہوں کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک بندہ خود دوسرے کو معاف نہ کر دے، یا پھر یہ کہ اسکے لئے معافی یا اصلاح کے امکانات موجود ہی نہ رہ جائیں؛ اورجب تمام کوششوں کے بعد بندہ دوسرے کا حق ادا نہ کر سکے،تو پھر ہار کر اللہ کو اپناوکیل بنانا چاہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج اور عمرہ سے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں کیوں کہ طواف کے دوران حقوق العباد سے متعلق گناہوں کی معافی اور اللہ کو اپنا وکیل بنانے کی جودعا کی جاتی ہے وہ ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔ خبردار ! شہید کے تمام گناہ معاف ہیں سوائے قرض کے۔ در حقیقت جو لوگ حقوق العباد کے متعلق مخلص نہیں ہوتے حج اور عمرہ کے دوران ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی کیوںکہ اللہ دلوں کی گہرائیوں کے بھید کو خوب جاننے والا ہے ۔ اور اسکے دربار میں ہر اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
مسلمانوں کو مال اور دنیا کے معاملات کے متعلق خاص طور سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ ترمذ ی کی ایک حدیث میں رسول اللہ محمد ﷺ نے فرمایا کہ ہر امّت کے لئے ایک فتنہ( آزمائش) ہے اور میری امّت کے لئے مال فتنہ ہے ۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں اپنے بعد یہ نہیں ڈرتا کہ تم مشرک بن جائوگے، لیکن مجھ کو یہ ڈر ہے کہ تم دنیا میں نہ لگ جائو۔ ہمیں اس بات کی فکر کرنی ہوگی کہ کہیں ہم نے ناحق طور پر کسی کا مال تو نہیں لیا؟ یا پھر ہم پر کسی کا کوئی قرض تو باقی نہیں ہے، جس میں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے؟ یا ہم سے کیس کی امانت میں خیانت تو نہیں ہوئی ہے؟ کہیں ہم کسی سے ادھار سامان خرید کر اسکی رقم اد کرنے میں کوتاہی تو نہیں برت رہے ہیں ؟ اگر ایسا کچھ ہے تو خبر دار ہو جائیں کیوں کہ یہ سب ظلم کی مختلف شکلیں ہیں اور ظالم کو فلاح نہیں ملنے والی۔ کہیں شیطان ہم کو اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ ہماری نمازیں، ماہِ رمضان کے روزے،حج و عمرہ کے علاوہ مقرب اور منقول دعائیں ہم کو جہنم سے بچانے میں کام آئیں گی۔
ہماری پوری زندگی اس اللہ کی طرف سے آزمائش ہے جس نے جنّ اور انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ۔ اللہ نے ہماری آزمائش کے لئے جہاںکچھ فتنہ رکھ کر شیطان کو چھوٹ دیا ، وہیں راہ نجات کے لئے ہم تک قرآن کی شکل میں کھلی ہدایات بھیجیں جو رہتی دنیا تک محفوظ رہے گی۔ جس شیطان نے آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتروا دیا ، وہ ہر وقت اسی کوشش میں لگارہتا ہے کہ کیسے زیادہ سے زیادہ انسان کو دنیا سے دوزخ کی جانب روانہ کرا سکے۔ فتنوں سے بچتے ہوئے آخرت میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ میں رہے۔ دنیا میں شیطانی وسوسوںسے بچنے کے لئے اللہ کا فرمان ہے کہ اے ایمان والوتم نماز اور صبر سے سہارا حاصل کرو ۔ انسان کو راہ حق سے بھٹکانے کے لئے شیطان پہلے وسوسوں کے ذریعہ اس کے اندربے صبری اور بے قراری پیدا کر کے اللہ کے ذکر ( اورنماز)سے غافل کردیتا ہے۔ جب انسان اللہ کے ذکر اور نماز سے غافل ہو کربے صبر ہو جاتا ہے تو اللہ کی جانب سے سہارا حاصل ہی نہیں کرپاتا۔ اس دنیا میںکوئی انسان ایسا نہیں جس کے پیچھے ہر وقت شیطان نہیںلگا رہتاہے۔ ہم سب سے روزانہ چھوٹے بڑے گناہ بھی ہوتے ہی رہتے ہیں۔ انسانوں میں کامیاب وہی لوگ ہیں جو گناہ کرنے کے بعد فوراً توبہ استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ جن کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، ان کے لئے اللہ گناہوں کی جگہ نیکیاں بھی لکھ دیتا ہے۔ اللہ ہمیں توبہ کرنے اور پاک صاف رہنے والوں میں شمار کرے۔ آمین!
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت حذیفہ ؓنے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے ایک سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کا فتنہ (آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال ، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکر دیتا ہے۔ اللہ مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب وہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل اللہ کے خوف سے لرزتے ہیں۔ کیا ہمارے دل بھی زکوٰۃ دیتے وقت لرزتے ہیں یا ہم زکوٰۃ کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ اپنا مال سمجھ کر جسے جتنا چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں؟ مفلسی از خود کفر کے قریب کر دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم کا آج یہ حال ہے کہ مالیات کے معاملے میں ہم سے اچھا کردار غیر مسلموں کا ہے۔ آج سو میں سے نبّے مسلمان سودی قرض لینے میں اللہ سے نہیں ڈرتے ۔ اور بینکوں سے قرض لینے کے لئے رشوت تک دینے کو تیار ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلم علاقوں میں بینکوں کے ذریعہ دئے گئے قرض کی واپسی بہت خراب ہوتی ہے اور بینکیں ہار کر مسلمانوں کو قرض دینے سے گریز کرتی ہیں۔ آج کل مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہ سود کو حرام سمجھ کر اس سے بچنا چاہتا ہے اور نہ سودی قرض کی ادائیگی میں ایمانداری کا معاملہ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم قوم بدنام اور ذلیل ہو رہی ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ قرض کے خواہاں مسلمان پہلے غیر سودی سرمایہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے اور حکومت سے مطالبہ کرتے کہ انہیں غیر سودی سرمایہ چاہئے۔ مگر نہ وہ سرکار سے سودی غیر سودی سرمایہ کی کوئی مانگ کرتے ہیں اور نہ ہی بیت المال کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے خلاف مال کے حصول کے لئے شریعت کی پرواہ کئے بغیر ہر حربہ اختیار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا ، یا رسول اللہؐ اس کی کیا وجہ ہے جو آپ ؐ قرضداری سے بہت پناہ مانگا کرتے ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا آدمی جب قرضدار ہوتا ہے اور بات کرتا ہے تو جھوٹ اور وعدہ کرتا ہے تو خلاف۔ اس لئے ہمیں اپنے قر ضہ جات کو جتنی جلدی ہی ہو سکے ادا کر دینا چاہئے۔ قرآن میں جہاں اللہ نے سودی قرض حرام کیا ، وہیں قرض دار کو حکم دیا ہے کہ قرض دینے والے کا اصل مال اسے واپس کیا جائے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ گنجائش کے با وجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور ظالموں پر جنّت حرام ہے۔ اس لئے جتنی جلدی ہو سکے بقایا قرض ادا کر کے اپنی دنیا اور آخرت بچا لیں۔ اس کے بر خلاف اگر کسی کی نیت یہ ہو کہ جسکا قرض نکلتا ہے وہ تھک ہار کر قرض کا مطالبہ چھوڑ دے ، تاکہ قرض ادا کرنے سے بچا جاسکے، توایسے لوگ خوب جان لیں کہ صحیح بخاری کی حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لے کہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ اس کی طرف سے ادا کر دے گا اور جو اس کو تباہ کرنا چاہے گا تو اللہ تعا لیٰ اس کو تباہ کر دے گا ۔ اگر ہم میں سے کوئی قرض دار مر جائے تو جب تک میّت کا قرض ادا نہ کر دیا جائے، روح کی بخشائش نہیں ہو تی۔
اس دنیا میں اگر ہم اس بات کی فکر نہیں کر یں گے کہ مال حلال سے کمایا یا حرام سے ،تو آخرت میں جب حرام مال کمانے کے بدلے انسان کی نیکیاں دوسروں کو دی جائیگی اور اگر نیکیاں کم ہوںگی تو دوسروں کے گناہ ہم پر لاد دی جائیگی، تو ہم کیسے خود کو بچا پائیں گے؟ اُس وقت صدقہ، زکوٰۃ اور وقف کیا ہوا مال ہی نیکی کے پلہ کو بھاری کر سکتا ہے جبکہ حرام مال کی وجہ سے انسان تباہ و برباد ہو جائے گا۔
اے آخرت پر یقین رکھنے والو! اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر آپ نے کوئی سودی معاملہ کررکھا ہے یا حرام مال جمع کیا ہے تو اسکے لیے اللہ کے سامنے توبہ کریں، جتنی جلدی ہو سکے سود سے توبہ کریںاور اپناقرض ادا کریں ۔ مال کی محبت میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی جو مرنے کے بعد شروع ہونے والی ہے اسے بر باد نہ کریں۔ اندیشہ ہے کہ شیطان آپ کے نفس یا دوستوں کے ذریعے آپ کو یہ مشورہ دے کہ اگر تونے پیسہ نہیں دیئے تو تیرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایسے موقع پر کثرت سے لاحول پڑھنے کی ضرورت ہے کیوکہ جس شیطان نے آپ کو حرام مال کی ترغیب دلائی یا سودی جال میں پھنسایا تھا وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ آپ حرام سے بچیں یا سودی قرض سے آزاد ہوکر دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں۔ میرے بھائی شیطان کو جواب دیں کہ میری آخرت اس رقم سے کہی زیادہ قیمتی ہے، جسے میں ہر حال میں بچائوںگا ۔
اللہ کرے ہم اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس ماہِ رمضان میں اللہ سے مغفرت اور جہنم سے نجات پانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس شبِ قدر سے قبل ہم اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف ہوکر اللہ سے ایسی دعا کریں کہ رب العالمین ہمارے حق میں کچھ ایسا فیصلہ کرے کہ ہم دنیا اورآخرت دونوں جہاں کی کامیابی بٹور سکیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو مال کے فتنہ سے بچائیں۔ حرام مال سے توبہ کریں اور حلال سے اس طرح کر صدقہ کریںکہ ہمارے لئے مال کے فتنہ کا کفارہ ہو سکے۔ اس کے بعد پڑوسی کے ساتھ معاملات کا جو فتنہ ہے اسکے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اختیار کریں۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے متعلقین کو برائیوں سے روکیں اور بھلائی کا حکم کریں۔ ہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو چھوڑ دیا تو اللہ نے ہم پر دشمنوں کو حاکم بنا کر بیٹھا دیا جو ہم پر ظلم کر رہے ہیں؛ اور جب ہم دعائیں کرتے ہیں تو قبول نہیں ہوتی۔ غور کریں تو شاید آج ہم اس حالت میں بھی نہیں رہے کہ اپنی بیوی بچوں تک کو بھلائی کا حکم کر سکیں اور برائیوں سے روک سکیں۔ جب ہم نے بھلائی کی ترغیب دینے کو تبلیغ کا حق سمجھ لیا ہے تو ہم کس طرح ملت کو گناہ سے نکال کر خیر کی طرف لا سکتے ہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم شیطانی وسوسوں سے بچتے ہوئے فتنوں کا مقابلہ کر سکیں، خود کو گناہوں سے پاک صاف کر سکیں اور اس رمضان میں اپنے لئے مغفرت اور جہنم سے نجات حاصل کر سکیں۔ آمین۔ اللہ جانے ہم میں سے کتنوں کو اگلا رمضان نصیب ہو کہ نہ ہو۔
سّید زاہد احمد علیگ(ممبئی)
موبائل (واٹس اپ) نمبر:09869814113