عوام غیرقانونی مضاربہ کمپنیوں سے ہوشیار رہیں

SBP-SECP

ہندوستان کی طرح پاکستان بھی معاشی گھوٹالوں کا مسکن رہا ہے ۔معاشی بد عنوانی کے تذکرے وہاں بھی زبان زدعام ہیں،حال ہی میں مضاربہ اسکینڈل نے سر اٹھایا ہے۔ بے شمار افراد کنگال ہو گئے ہیں جبکہ بہت سے بظاہر معصوم دکھنے والےچہرے بے نقاب ہو ئے ہیں مگر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہواہے کہ اسلامی ہدایات کے مطابق سرمایہ کاری سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ لوگ سمجھنے لگےہیں کہ اب اسلامی ہدایات کے مطابق مضاربہ میں بھی پیسہ تو ڈوبے گا ۔ ملکی سطح پر SECP کی یہ ذمہ داری ہے کہ مضاربہ کمپنیوں کو لائسنس جاری کرے، ان کی نگرانی کرے۔ اگر کوئی مضاربہ کمپنی شرعی یا اخلاقی طور پر درست کام نہیں کر رہی تو اس کے خلاف اقدامات کرے۔چونکہ ہندوستان میں بھی یہی صورتحال پیش آچکی ہے لہذا ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس کے شکریہ کے ساتھ افادہ عام کی خاطر ہم یہاں عبد المنعم فائز کا SECPکے جوائنٹ سیکرٹری عمران حسین سے لیا گیاانٹرویو پیش کرتے ہیں تاکہ لوگ غلط کاروں سے ہوشیار رہیں۔موصوف نے اپنے اس انٹرویو میں جہاں SECPکا دائرہ کار کیا ہے؟ مضاربہ اسکینڈل کی حقیقت کیا ہےجیسے سوالوں کا جواب دیا ہے وہیں محتاط رہنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔(ادارہ معیشت)

سوال:آپ کے تعارف سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں؟
عمران حسین:میرا نام عمران حسین ہے۔ SECP کا جوائنٹ سیکرٹری ہوں۔ پچھلے آٹھ سال سے میں اسی شعبے سے وابستہ ہوں۔ اس سے پہلے میں نے پنجاب یونیورسٹی(پاکستان) سے ماسٹرز کیا۔ اسی دوران میں نے 1994 ء میں ایک بینک کو جوائن کیا تھا۔ میرے شروع کے دس، گیارہ سال اسی بینکنگ سیکٹر سے متعلقہ ہیں۔میں نے بینکنگ ڈپلومہ کیا ہوا ہے اور میری پی ایچ ڈی بھی اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ہے۔ چار سال سے ’’مضاربہ‘‘ سیکٹر کو دیکھ رہا ہوں۔ اس سے پہلے نیشنل بینک اور انویسٹمنٹ کمپنیز کو دیکھ رہا تھا۔
سوال:SECP ملکی معیشت میں کیا کردار رکھتی ہے؟ یہ کن معاملات کو دیکھتی ہے؟
عمران حسین: SECP( سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) در اصل ایک کارپوریٹ ریگولیٹری باڈی ہے۔ SECP سے پہلے سے کارپوریٹ لاء اتھارٹی ہوتی تھی۔ یہ کارپوریٹ لاء اتھارٹی پھر SECP میں تبدیل ہو گئی۔ اس کا بنیادی کام کارپوریٹ سیکٹر کو دیکھنا اور کیپٹل مارکیٹ کو دیکھنا تھا۔ اسی کے ساتھ کمپنیوں کی رجسٹریشن، ریگولیشن، قوانین کا نفاذ اور نگرانی کرنا وغیرہ اس کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس کے بعد اسٹاک ایکسچینج کے معاملات بھی اسے کو سونپ دیے گئے۔ اسی طرح اب انشورنش سیکٹر بھی SECP کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نان بینکنگ فنانشل سیکٹر اور مضاربہ SECP کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔ نان بینکنگ فنانشل سیکٹر میں انویسٹمنٹ بینک، مینجمنٹ کمپنیاں، اور تکافل کمپنیاں وغیرہ آ جاتی ہیں۔ یوں SECP تقریباً 62 ہزار کمپنیوں کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہمارا بنیادی کام ان سب کی نگرانی اور ریگولیشن ہے۔ نیز رجسٹریشن اور لائسنسنگ وغیرہ بھی ہے۔
SECP کا بنیادی مقصد ملک میں ایسی مارکیٹ کا قیام ہے جو کارکردگی کے لحاظ سے بھر پور بھی ہو اور ماڈرن بھی۔ نیز تاکہ ان کو انٹرنیشنل معیارات کے مطابق چلایا جا سکے۔ ہم پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ کے لیے ایسا معیار ترتیب دے سکیں جو کارکردگی میں قابل بھروسہ، شفاف اور محتاط ہو۔ ہم دیگر حوالوں سے نگرانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا انویسٹر اپنے معاملات سے متعلق تمام تر معلومات رکھتا ہو۔ متعلقہ انویسٹمنٹ کے حوالے سے جہاں جہاں رسک ہے، وہ اس سے باخبر ہو۔
سوال:جو کمپنی آپ کے لاء اور ریگولیشن کے مطابق کام نہیں کر رہی ہوتی تو آپ کیا کرتے ہیں؟
عمران حسین:یہ سب چیزیں ہمارے قانون میں مکمل لکھی ہوئی ہیں۔ خلاف ورزی کی سزا Voilation کے مطابق ہی طے کی جاتی ہے۔ اگر قانون کی خلاف ورزی سِول سطح کی ہو تو ہم پینلٹی لگاتے ہیں یا کمپنی کو شوکاز کرتے ہیں۔ اگر کرائم کے درجے کا کوئی کیس ہے تو ہم اسے متعلقہ اتھارٹی، کورٹ وغیرہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ باقی دنیا کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی ویسے ہی قوانین بنا رکھے ہیں۔
سوال:آپ کے زیر نگرانی ’’مضاربہ‘‘ کا جو سیٹ اپ ہے، اس کا کیا کردار اور دائرہ کار ہے؟
عمران حسین:ان کے لیے بھی ویسے ہی قوانین ہیں جو دیگر کمپنیوں کے لیے ہیں۔ ان کے حوالے سے رجسٹریشن، ریگولیشن، نگرانی اور خلاف ورزی کی صورت میں لاگو ہونے والے قوانین وغیرہ کو SECP مرحلہ بہ مرحلہ دیکھتی ہے۔ ان سب معاملات کو ’’رجسٹرار مضاربہ‘‘ ڈیل کرتے ہیں۔
سوال:کیا شرعی نکتہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں؟ مضاربہ کے رولز آپ کے اپنے بنائے ہوئے ہیں یاپاکستان اسٹیٹ بینک کے؟
عمران حسین: مضاربہ کی تو بنیاد ہی شریعہ کمپلائنس پر ہے۔ اس کے بغیر پاکستان میں کوئی بھی مضاربہ کمپنی کام نہیں کر سکتی۔ ہمارے آرڈیننس 10 میں لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی مضارب غیر شرعی سرگرمی نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ فروری 2012 ء میں شریعہ آرڈیننس میکنزم پر مفصل طور پر نظر ثانی کرنے کے بعد اس کے بنیادی نکات طے کر لیے گئے ہیں۔ اس کے مطابق مضاربہ کمپنی کا غیر شرعی کام سر انجام دینا ایک کرائم ہو گا۔ مضاربہ بزنسز کے لیے ہمارا ایک ریلیجیس بورڈ ہے۔ اسے فیڈرل گورنمنٹ ریلیجیس بورڈ دیکھتا ہے۔ کوئی بھی مضاربہ کمپنی جب اپنا ’’کاروباری منصوبہ‘‘ ہمیں پیش کرتی ہے تو پہلے ہمارا ریلیجیس بورڈ اس کی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد ہم اس کی اجازت دیتے ہیں۔ تمام قسم کے مضاربہ اسلامی طریقوں کے اندر رہ کر کام کر سکتے ہیں، مثلاً: مشارکہ، مرابحہ، شرکت متناقصہ (Diminshing Musharkah)،اجارہ، سلم اور استصناع وغیرہ کے ایگریمنٹ کے تحت رہ کر ہی کام کر سکتے ہیں، ان سے باہر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کے لیے تمام رولز ہمارے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا اس سے تعلق نہیں۔
سوال:کیا ان سب کی کاؤنٹر چیکنگ ہوتی ہے؟
عمران حسین: ہمارے شریعہ کمپلائنس میکنزم میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مضاربہ کا ایک شریعہ ایڈوائزر ہو گا۔ یہ شریعہ ایڈوائزر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کمپنی کے تمام معاملات شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ریگولیشن میں ہے کہ ہر مضاربہ کمپنی اپنا ایک شریعہ آڈیٹر رکھے گی۔ جو اس بات کی مکمل تصدیق پیش کرے گا کہ جو کچھ پہلے ہوا یا اب ہو رہا ہے وہ شریعہ سے ہٹ کر تو نہیں؟ اس طرح شریعہ ایڈوائزر اور شریعہ آڈیٹر کی مدد سے یہ کام بڑی حد تک ضابطے کے تحت جاری رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال کے اختتام پر شریعہ ایڈوائزرمضاربہ کے شریعہ کمپلائنس ہونے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔ یہ رپورٹ کمپنی کی ’’سالانہ رپورٹ‘‘ کا حصہ بنتی ہے۔
سوال:یہ بتائیے کہ گزشتہ چند سالوں میں مضاربہ کے نام پر ہونے والے کاروبار میں عوام الناس کو دھچکا لگا۔ جس سے یہ تأثر ابھرا کہ شریعہ کے نام پر کیے جانے والے کاروبار میں پیسہ عموماً ڈوب جاتا ہے۔ کیا واقعتاً ایسا ہے؟
عمران حسین:کم از کم مضاربہ کے حوالے سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام الناس کا یہ تصور غلط ہے۔ ہمارے پاس اس وقت تقریباً 26 مضاربہ کوآپریٹوز ہیں۔ جس میں سے تقریباً 18 مضاربہ ہر سال ’’ڈیویڈنڈ‘‘ دیتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مضاربہ کمپنیاں کامیاب نہیں ہیں یا وہ لوگوں کا سرمایہ لے کر کھا گئی ہیں۔ 2005 ء سے آپ کو کوئی بھی ایسی کمپنی نہیں ملے گی جو رجسٹرڈ ہو اور اس کے حوالے سے عوام کو کوئی شکایت ہوئی ہو۔ باقی جو غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ طور پر کام کر رہے ہیں اور ان سے متعلق عوام الناس کو شکایات ہیں، اس کا تو کوئی علاج اور جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ چوری چھپے کام کرنے والوں سے متعلق ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جن 18 ڈیویڈنڈ دینے والی کمپنیوں کا میں نے ذکر کیا، وہ اپنی آمدنی کا 90 فیصد اپنے سرٹیفکیٹ ہولڈز میں تقسیم کرتی ہیں۔ گزشتہ سال مضاربہ کمپنیز کا ڈیویڈنڈ ریشو 100 فیصد تھا۔ رجسٹرڈ مضاربہ کا حجم 30 ارب سے زیادہ کا ہے۔ ان کے سالانہ پرافٹ 2 ارب سے اوپر پہنچ چکے ہیں۔ نفع کا تناسب اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے، تاہم ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کے ساتھ فراڈ نہ ہو۔
سوال:مضاربہ کی وہ کمپنیاں جو گلی محلوں میں اور کمیونیٹیز میں کھل جاتی ہیں، کیا وہ SECP کے دائرہ کار میں نہیں آ تیں؟
عمران حسین:جو کمپنی بطور مضاربہ کمپنی ہمارے پاس رجسٹرڈ ہو گی، اس پر ہمارے قوانین کا اطلاق ہو گا۔ ہمارے ملک کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ لوگوں سے ڈپازٹ لے کر کاروبار کریں۔ لہذا اس قسم کے تمام لوگ جو ہمارے ہاں سے رجسٹریشن حاصل کیے بغیر مضاربہ کا کام کر رہے ہیں، وہ چوری چھپے کر رہے ہیں اور غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں۔ پھر جیسے ہی ہمیں اس قسم کی کمپنیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے، ہم ان کا معاملہ لاء اینڈ سیکیورٹی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ حال میں جو اسکینڈل سامنے آیا، اس کے بارے میں SECP کو کوئی کمپلین نہیں کی گئی تھی، اس کے باوجود ہم نے کارروائی کا آغاز کیا۔ SECP نے پبلک اناؤنسمنٹ کی، اخبارات کے ذریعے عوام الناس کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد یہ کیس NAB کی طرف اٹھا دیا۔ اس وقت ’’نیب‘‘ اس کیس کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کسی حد تک ریکوری کر بھی چکا ہے۔ کچھ بندے بھی پکڑ لیے ہیں۔ ظاہر ہے چور کو تو کوئی اس وقت نہیں روک سکتا جب تک پکڑا نہ جائے۔ ایسا کیس کسی بھی طرح SECP کے نوٹس میں آ جائے، اخبارات کے ذریعے، ڈسکشن کے نتیجے میں یا درخواست دائر کرنے کے ذریعے۔ایس ای سی پی اس کے لیے سدباب کے لیے کوشش کرتی ہے۔
سوال:حالیہ مضاربہ اسکینڈل کے حوالے سے SECP نے بر وقت لوگوں کو آگاہ کیا تھا یا نہیں؟
عمران حسین:چونکہ ہمارے پاس کوئی کمپلین یا کلیم نہیں آیا تھا، لہذا ہم اس کی زیادہ تفصیلات معلوم نہیں، جتنی معلومات ہمیں تھیں، انہی کی بنیاد پر ہم نے یہ کیس نیب کو ریفر کر دیا تھا، اب وہی اس کے معاملات کو دیکھ رہا ہے۔
سوال:عام طور پر یہ بات کی جاتی ہے کہ لیگل طریقے سے مضاربہ کرنے والوں کے ہاں سے انویسٹر کو نفع بہت کم ملتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں غیر قانونی والے بھاری نفع دیتے اور کئی کئی سال تک کام چلاتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے کوئی چیک رکھا جاتا ہے کہ مضاربہ کمپنیوں کے آپریشنل اخراجات اتنے زیادہ نہ ہوں کہ اس کا بڑا اثر نفع کی مقدار پر پڑے؟!
عمران حسین:ہم ان چیزوں کی باقاعدہ نگرانی کرتے ہیں۔ مضاربہ کمپنی کے ذاتی اخراجات ہم نفع میں سے منہا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ مضارب اور رب المال کے اجتماع سے جو مضاربہ وجود میں آتا ہے، ہم شریعت کے حکم کے مطابق مضارب (کمپنی) کے ذاتی اخراجات مثلاً: چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ وغیرہ مضاربہ فنڈ سے ادا نہیں کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ مضاربہ کمپنی جو ’’مضاربہ‘‘ کو آفس مہیا کرتی ہے یا وہ اخراجات جو مضاربہ کے مقصد کے لیے کیے جاتے ہیں وہ مضاربہ فنڈ سے منہا کیے جا سکتے ہیں۔ باقی عوام کا یہ کہنا کہ نفع کم ہوتا ہے۔ تو اس حوالے سے یہ بات ہے کہ نفع ایک SUBJETIVE چیز ہے۔ کسی شخص کے لیے 10 فیصد منافع ہی بہت ہو گا، جبکہ دوسرے کے لیے 100 فیصد منافع بھی کم ہو گا۔ ہم اتنی بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مضاربہ جو بھی کمائے، اس کا 90 فیصد لازماً سرٹیفکیٹ ہولڈرز میں تقسیم کرے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ نفع زیادہ سرٹیفکیٹ ہولڈر تک پہنچے۔ بہت ساری مضاربہ کمپنیاں ایسی ہیں جو 20 فیصد تک بھی منافع دیتی ہیں۔ ہمارے ایک مضاربہ نے 10 فیصد تک بھی منافع دیا ہے۔ ’’حبیب مضاربہ‘‘ والے پچھلے 20 سال سے ہر سال 15سے 20 فیصد منافع دیتے ہیں۔ کبھی اس سے زیادہ بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹریٹ مضاربہ، لائٹ رینٹل مضاربہ وغیرہ بہترین منافع دے رہے ہیں۔ اسٹینڈ چارٹر مضاربہ اور امروز مضاربہ وغیرہ اچھے پیکجز دے رہے ہیں۔
سوال:مضاربہ کے انویسٹر کو کن کن پروجیکٹس میں تحفظ حاصل ہوتا ہے؟ اس حوالے سے انویسٹر کو SECP کی طرف کوئی ہدایات ہیں؟ اسے کسی بھی مضاربہ کمپنی سے منسلک ہونے سے پہلے کن باتوں کو یقینی بنا لینا چاہیے؟
عمران حسین:ہمارا ایک ’’انویسٹر ایجوکیشن پروگرام‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ انویسٹر گائیڈ ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ مختلف طرح کے فنڈز، مثلاً: میوچل فنڈز وغیرہ کے لیے انویسٹر گائیڈ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اسی طرح مضاربہ میں انویسٹ کرنے کے لیے بھی باقاعدہ انویسٹر گائیڈ وہاں دستیاب ہے۔ ہم نے اسے چھاپ کر کئی مرتبہ تقسیم کیا ہے۔ جہاں تک بزنس کی بات ہے تو بزنس میں ’’رسک‘‘ اور ’’ریوارڈ‘‘ دونوں ہوتے ہیں۔ ریگولیٹر کا یعنی ہمارا کام بس اتنا ہے کہ انویسٹر کو رسک سے متعلق آگاہ کر دیں۔ جب آپ کام کریں تو رسک سے متعلق آپ مکمل آگاہ ہوں۔ دنیا کا کوئی بھی کاروبار ایسا نہیں جو آپ کو ہر سال منافع دے۔ لہذا انویسٹر کو نفع اور نقصان دونوں کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اب یہ انویسٹر کے اپنے تجزیے پر موقوف ہے کہ اس نے انویسٹ کرنے سے پہلے متعلقہ کمپنی وغیرہ کا پچھلا ریکارڈ دیکھا ہے یا نہیں؟ کمپنی کا مکمل مطالعہ اور تجزیہ کرے کہ وہ کتنے سال سے کام کر رہی ہے؟ وہ کیا کام کر رہی ہے؟ وہ ڈیویڈنڈ دے رہی ہے یا نہیں دے رہی؟ بطور مجموعی اس کی پرفامنس اور کارکردگی کیا ہے؟ وہ کس سیکٹر میں کام کر رہی ہے؟ نیز اس سیکٹر کا آگے پاکستان میں مستقبل کیا ہے؟

اگر آپ کسی ایسے پروجیکٹ میں انویسٹ کرتے ہیں، جس کے مالکان کا آپ کو پتا ہے نہیں یا آپ اس کی تاریخ سے واقف نہیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے آپ بہت زیادہ رسک لے رہے ہیں۔ اتنی معلومات پہلے کر لینی چاہیے کہ رسک کم سے کم ہو سکے۔ اس کے بعد بھی نفع اور نقصان دونوں کے لیے ذہناً تیار رہنا چاہیے۔ انڈسٹری باوجود ابھی شہرت رکھنے کے کسی غیر متوقع نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے۔ دیکھ بھال کر کرنے سے نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *