
ہندوستان اب معاشی طور پر خود کفیل ہوتا جارہا ہے

پیپلس ویلفیئر ٹرسٹ کےروح رواں ڈاکٹر محمدعلی پاٹنکر ممبئی کی مشہور سماجی شخصیت ہیں،آپ کا ادارہ جی سی سی سے تصدیق شدہ ہےجس کی شاخیں ملک کی بیشتر ریاستوں میںپھیلی ہوئی ہیں۔میڈیکل پیشہ کے ساتھ ہی آپ مختلف رفاہی اداروں سے وابستہ ہیں،مرکزی بیت المال کا قیام آپ کی اولین کوششوں میں شامل ہے جبکہ مین پاور بزنس پر آپ کی گہری نظر ہے۔معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں انہوں نے کاروبار کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کرایا ہے۔پیش ہیں اہم اقتباسات
معیشت: اوورسیز کے کاروبار میں روزانہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےآپ اس کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر پاٹنکر: اوورسیز یا مین پاور کے کاروبارمیں سعودی عربیہ ،کویت کے بعدقطر اہم لیڈر ہے۔سب سے زیادہ انہیں ممالک کوہندوستان سے مین پاور سپلائی کیا جاتا ہے۔اس کے بعد ہی دوسرے ممالک کا نمبر آتا ہے،لیکن اس وقت المیہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ خود ہی نئےنئے مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔مصر و فلسطین کے مسائل عالم اسلام پر اثر اندازہو رہے ہیں جبکہ آئی ایس آئی ایس نے شام و عراق میں محاذ جنگ گرم کر رکھا ہے۔علاقے کی معیشت پر ان حالات کے برے اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ اہل عرب خود ہی سوچ سمجھ کر خرچ کر رہے ہیں ۔دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اہل عرب کو بیس فیصد ’’خدّامہ ‘‘چاہئےجو لوگ جتنا ’’خدّامہ‘‘سپلائی کرتے تھے انہیں اسی قدر دوسرے کام بھی ملتے تھے جبکہ عرب جانے کے بعد خادمائوں کی شکایات موصول ہونے لگیںتو قونصل خانوں نے مختلف احکامات جاری کردئے،اب معاملہ یہ ہے کہ خادمائوں کو بھیجنا ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔جس کا اثر یہ ہے کہ کام بھی اسی حساب سے کم ملنے لگا ہے کیونکہ جن ممالک سے یہ بآسانی دستیاب ہو رہی ہیں ان ممالک کی طرف توجہ زیادہ دی جارہی ہے۔جبکہ تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کے لوگ سب سے زیادہ کویت جایا کرتے تھےلیکن جب کویت نے میڈیکل فیس ۲۴ہزار کردی تو ان لوگوں نے بحالت مجبوری وہاں کا سفر کیا جن کا ویزہ ختم ہورہاتھا لیکن جو لوگ غریب تھے یا جن کے پاس وسائل کم تھے انہوں نے نہ جانے میں ہی عافیت سمجھی لہذا وہاںکے حکومتی اہلکاروں کے غلط فیصلہ کی وجہ سے کویت میں مین پاور سپلائی کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ان تمام باتوں کے علی الرغم خود ہندوستان میں معاشی حالت سدھر رہی ہے۔میرے گائوں میں جہاں کہ مزدوردن میں دس بیس روپیہ لے کر کام کیا کرتے تھے وہاں سو دو سو روپیہ دینے کے بعد بھی کوئی مزدور نہیں مل رہا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ گھریلو خادمائوں کے ساتھ گھروں میں کام کرنے والے مردوں کو تلاش کرو تووہ بھی بآسانی نہیں ملتے۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اوورسیز کے کاروبار کا مستقبل جہاں بہت روشن نہیں ہے تو وہیں بہت مایوس کن بھی نہیں ہے،ممکن ہے کہ حالات میں بہتری بھی دیکھنے کو ملے۔
معیشت: کویت نے جب ’’خدمات سروسیز‘‘کے ذریعہ میڈیکل کرانا شروع کیا اور چیک اپ کے نام پر ۲۴ہزار روپئے لینا شروع کیا تو مسلم مرر اور معیشت نے اس کے خلاف رپورٹس شائع کیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سروسیز بند کردی ہیں اور پرانے طریقے پر ہی میڈیکل ہو رہا ہے۔آپ اس پورے معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر پاٹنکر: معیشت ڈاٹ اِن اور مسلم مررنے جو رول ادا کیا ہے وہ قابل ذکر ہے۔میں معیشت ڈاٹ اِن کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتا ہوںکہ معیشت ڈاٹ اِن کی آواز کو کویت قونصلیٹ اور کویت ایمبیسی نے سنا ،ہم جی سی سی GCC))اور ’’GAMCA))گامکا‘‘کے شکر گزار ہیںکہ انہوں نے ہمیں دوبارہ موقع فراہم کیا ہےاور مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔معیشت ڈاٹ اِن نے ہمیں رمضان المبارک میں ایک تحفہ دیا ہے وہ زیادہ سے زیادہ چیک اپ کروانےاور لوگوں کو ملازمت کے لئے بھیجنےکاہے،البتہ جو لوگ زیادہ فیس کی وجہ سے سفر سے گریز کر رہے تھے ان میں بھی خوشی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔
معیشت: عام تاثر یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت مسلمانوں کے اقتصادی معاملات کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہےجس میں اوورسیز کا کاروبار بھی شامل ہے۔کیا یہ درست ہے؟
ڈاکٹر پاٹنکر: جہاں تک موجودہ مرکزی حکومت اور موجودہ حالات کا معاملہ ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ’’مڈل مین‘‘حکومت کا نام بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ۱۲۰کروڑ کے وزیر اعظم ہیں لہذا میں یہ امید کرتا ہوں کہ وہ ’’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘‘ پر قائم ہوں گے۔البتہ میں ضرور کہوں گا کہ مودی جی کو چاہئے کہ جب وہ باہر ممالک کا دورہ ختم کر کے آئیں تو ہندوستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کریںتاکہ شر پسندوں پر قابو پاسکیں۔جبکہ امت مسلمہ کو یہ چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہیںاور ملک میں فتنہ سے بچیں،تاکہ ملک کا امن و امان کسی طرح خراب نہ ہوسکے۔آپسی مشورہ کے ذریعہ ہی ہم مرکزی و ریاستی حکومتوں سے کام لیںکیونکہ اسی ڈپلومیسی نے ہمیں فتح مکّہ میں کامیاب کیا ہے۔مسلمانوں کو کسی حالت میں بھی تشدد پر آمادہ نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم نے ساٹھ سال کانگریس کو دیا ہے تو ساٹھ ماہ بی جے پی کو بھی دے رہے ہیں اور اس امید کے ساتھبی جے پی کا ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں گے۔
معیشت: میک اِن انڈیا اور میک اِن مہاراشٹر مہم سے کیا اوورسیز کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے،کیونکہ لوگ گھروں میں ہی روزگار حاصل کرلے رہے ہیں؟
ڈاکٹر پاٹنکر: میک اِن انڈیا اور میک اِن مہاراشٹر مہم کے بعد بھی لوگوں کے بیرون ملک ملازمت کے رجحان میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔البتہ یہ واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کی کمپنیاں ہندوستان،پاکستان،نیپال وغیرہ کے لوگوں کو زیادہ ویزہ ایشو کرتی ہیں اور جب یہ لوگ ملازمت کر کے زر مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں تو یہ کسی بھی صنعت کار سے زیادہ ملکی معیشت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔غیر ممالک کی کرنسی ملک میں آتی ہے تو اس کا راست فائدہ ملک کو پہنچتا ہے۔لہذا حکومت کو تو یہ چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے مواقع فراہم کرے کہ ہمارے لوگ دوسرے ممالک میں جاکر کام کریں اور ملکی معیشت کو فائدہ پہنچائیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر مزدور طبقہ ہی باہر جارہا ہے لہذا ملکی بے روزگاری کا بھی ہم خاتمہ کر رہے ہیں جبکہ اس طرح بلیک منی پر بھی روک لگ رہی ہے کیونکہ جو بھی پیسہ ہے وہ بڑے صاف و شفاف طریقے سے ملک میں آرہا ہےاور اگر نہیں آرہا ہے تو اسے لانے کے لئے آسان راستے سجھانے چاہئیں۔
معیشت: ریکروٹمنٹ یا مین پاور کا کاروبار عرف عام میں بڑا بدنام ہے۔لوگوں کی شکایتیں موصول ہوتی ہیں کہ ان کے ساتھ ایجنٹوں نے اچھا برتائو نہیں روا رکھا ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر پاٹنکر: مین پاور کے کاروبار کو ایجنٹوں نے خراب کر رکھا ہے۔ہمارے یہاں جو مڈل مین کا کام کرتے ہیں ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے لیکن اس کاروبار کو بغیر مڈل مین کے چلایا بھی نہیں جاسکتا لہذا مڈل مین لوگوں کی مجبوری بھی ہیں۔لہذا جو لوگ لائسنس ہولڈر ہیں وہ اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی گڑبڑی نہ ہو لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ واقعات پیش آجاتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ویزہ بھیجنے والے عرب حضرات بھی ایجنٹوں سےفیس’ڈیمانڈ ‘‘کرتے ہیں ،جبکہ ہندوستانی ایجنٹ کام کرنے کے لئے باہر جانے والوں سے فیس وصولتے ہیں تو بعض اوقات جب وہ لوگ وہاں جاتے ہیں اور انہیں مطابق حال کام نہیں ملتا تو پھر کام کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا پورا خمیازہ پوری برادری کو بھگتنا پڑتا ہے۔اگر ویزہ بھیجنے والاعرب یا کمپنی اور ویزہ لگانے والے ہندوستانی دلالی ختم کردیں تو معاملات میں بہتری ہوسکتی ہے ۔ویسےمیں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو اچھے ایجنٹوں کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا کیونکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جو غیر مسلم حضرات اس کاروبار میں شامل ہیں ان کے معاون ایجنٹ بہت بہتر ہیں ہمیں ان کی طرف سے کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوتی۔
معیشت: آپ کے مطابق ہندوستان کے معاشی حالات سدھر رہے ہیں لیکن مسلمان آج بھی معاشی طور پر پریشان حال ہی دکھائی دے رہا ہے آخر اس کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟
ڈاکٹر پاٹنکر: اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ملکی معیشت میں بہتری آرہی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ معاشی طور پر مسلمان کمزور ہوتا جارہا ہے۔دراصل معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اجتماعی بیت المال قائم نہیں کیا ہے ۔زکوۃ کی خطیر رقم یونہی برباد ہو جارہی ہے اس کا خاطر خواہ فائدہ امت کو نہیں مل پا رہا ہے۔اگر اس رقم کا صحیح استعمال ہوجائے تو لوگوں کی کسمپرسی کا خاتمہ ہوجائے۔مجھے سائوتھ افریقہ کے وکیل محمد ابوبکر نے جنہیں نیلسن منڈیلا نے ۲۱ مسلم ممالک کا سفیر بنایا تھاایک بات بتائی توبڑاہی خوشنما معلوم ہوا۔انہوں نے کہا کہ ایک بار میں پاکستان میں تھا تو ایک ڈاکٹر نے ایک واقعہ بیان کیا کہ’’ایک مرتبہ میرے پاس ایک خاتون آئی جس نے اپنے دو بچوں کی تعلیم کے لئے کچھ رقم کی فرمائش کی ،میں نے وہ رقم اسے دے دی چند برس بعد وہی خاتون واپس آئی اور اس نے میری رقم واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب میرے بچے کام کرنے لگے ہیں لہذا آپ اپنی رقم واپس لے لیں ‘‘ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اس سے کہا کہ آپ کی طرح کیا دوسری خواتین بھی ہیں جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتی ہیں ؟مذکورہ خاتون نے کہا کہ ’’ہاں،بہت ساری عورتیں ضرورت مند ہیںجنہیں اگر کوئی سہارا دے دے تو پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں،ڈاکٹر صاحب کے مطابق’’ہم نے ان عورتوں کو سہارا دینا شروع کیااور پھر کاررواں بنتا چلا گیا۔‘‘محمد ابوبکر نے اسی پیٹرن کو سائوتھ افریقہ میں اختیار کیا جہاں اب ایک لاکھ پینتالیس ہزار فیلی کے لوگ اس اسکیم کے تحت ہنر مند ہوگئے ہیں اور اپنی روزی روٹی کا انتظام کر رہے ہیں۔اگر اسی پیٹرن کو ہندوستان میں بھی شروع کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے گا۔