
خونی ویاپم گھوٹالہ !

یہ ایک ہی فرقے کے افراد کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچا کر حکومت اور حکومت چلانے والوں کو مٹھی میں رکھنے کا منصوبہ تھا!
٭ شکیل رشید
تذکرہ ’ویاپم ‘ اور مودی حکومت کا ہے ۔
مودی حکومت بلاشبہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ اس لئے نہیں کہ حکومت نے ’اچھے دن آرہے ہیں‘ کے اپنے وعدے کو پورا کیاہے ۔ وعدہ ہنوز وعدہ ہی ہے ۔ نہ اس لئے کہ اس حکومت میں تمام اقلیتیں بشمول مسلما ن امن و امان سے رہتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ دراڑیں تو مزید گہری ہوئی ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری انتہا کو پہنچ گئی ہے اور سارا ملک سرکاری سطح پر ناکامی کی ایک تصویر بنا ہوا ہے ۔مگر مودی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے اور اسلئے ہے کہ اس حکومت کے قیام کے بعد بھلے ہی خوشحالی نہ آئی ہو لیکن وہ راز جو بر سہا برس سے پوشیدہ تھے کھل کر سامنے آنے لگے ہیں ۔ راشٹر یہ سوئم سیوک سنگھ ( آریس ایس ) کا وہ خوفناک چہرہ بھی جو یوں تو بہت زیادہ ڈھکا ہوانہیں تھا مگر بہت کھلا بھی نہیں تھا ، کھل کر سامنے آنے لگا ہے ۔ تمام مکھوٹے اترتے چلے جارہے ہیں ۔یہ سچائی اب کہیں زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ آر ایس ایس ، اقلیتوں پر صرف مظالم ہی ڈھانے پریقین نہیں رکھتا بلکہ انہیں پسماندگی کی انتہاتک پہنچانے کیلئے ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے تیار ہے جس کا ایک مہذب سماج تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ پہلے یہ ’کارنامے ‘ ڈھکے چھپے طورپر انجام دیئے جاتے تھے لیکن اب چونکہ ان کی اپنی حکومت ہے … مودی حکومت … اس لئے اب سب کچھ دن دہاڑے ، چھاتی ٹھو نک کرکیا جاتا ہے ۔ چاہے مسلمان اور دیگر اقلیتوں کی ’ گھر واپسی ‘ کا معاملہ ہو ۔ چاہے’ یوگا ‘ کے نام پر مسلم طالب علموں کو ہند وتہذیب میں رنگنے کی شرارت ہو ، چاہے روزگار اور سرکاری ملازمتوں اورسرکاری تعلیمی اداروں کے دروازوں کا اقلیتوں بشمول مسلمانوں پر بند کرنا ہو یا سارے ملک میںببانگ دہل یہ جتلانا ہو کہ ایودھیا میں بابر ی مسجد کی جگہ رام مندر ہی بنے گا ۔ جہاں تک فرقہ وارانہ فسادات کا تعلق ہے تو ’ یرقانی ٹولہ‘ ہی تھا جو فسادات کرانے میںپیش پیش رہتاتھا بلکہ سازشیں کرتا اورمنصوبے بناتا تھا ، یرقانی ذہنیت کے سنگھ پریوارکے گرگے فسادات کرتے تھے مگر پھنسائے مسلمان جاتے تھے ، یہ وہ حقیقت ہے جو اب راز نہیں رہی ہے ۔ متھرا کے کوسی کلاں سے لے کر پرتا پ گڑھ میں ایک اعلیٰ مسلم پولس افسر کے قتل اور ہریانہ کے اٹالی گاؤں کے مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے انہیں نقل مکانی پر مجبور کرنے تک یرقانی ٹولے کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت انتظامیہ اورعدلیہ دونوں ہی کے سامنے ہیں… بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تمام ہندوستانیوںہی کے سامنے ثبوت ہیں تو غلط نہیں ہوگا ‘ مگریہ’ ثبوت ‘نظر انداز کردیئے بلکہ’ کچرا پیٹی ‘ میں ڈال دیئے گئے ہیں … سرکار جوان کی اپنی ہے ! سب سے واضح مثال تو گجرات کی ہے جہاں وہ ظالم افسر اور وہ برسر اقتدار ٹولہ جس نے کھل کر مسلمانوں کا قتل عام کیاتھا اور جس کے خلاف ثبوتوں کے ڈھیر تھے ‘اب ’دودھ کا دھلا ‘ بتایاجا رہاہے ۔ فسادی اب آہستہ آہستہ عدالتوں سے چھوٹ رہے ہیں ، انہیں ’کلین چٹ ‘ ملنے لگی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان شرپسند اورفرقہ پرست عناصر کو عدالتوں اورپولس سے ’نجات ‘کیونکر حاصل ہورہی ہے ؟ کیونکر ’یرقانی ٹولہ ‘ ببانگ دہل شر انگیزی کے باوجود ’کلین چٹ ‘ پارہاہے ؟ کیوں اورکیسے وہ افراد قانون کی گرفت سے محفوظ ہیں جو کھلے عام’مسلمانوں پاکستان چلے جاؤ‘ کے نعرے بلند کرتے یا ایسے گاوؤں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی قلیل ہے ان کے گھروں پر اور ان کی مسجدوں پرحملے کرتے ہیں ؟بنیادی جواب تو خیر یہی ہے کہ ’ ان کی اپنی حکومت ہے ‘۔ بلاشبہ یہ حکومت ایسے فارمولوں ‘ یا’ طریقوں ‘ پر عمل پیراہے کہ ’یرقانی ٹولے اور ‘ سنگھ پریوار کے گرگوں کو شرپسندی کی ہر طرح سے چھوٹ مل جائے اور آرایس ایس کے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں حکومت کو کسی بھی قسم کی دقت نہ پیش آئے ۔ ’ویاپم ‘ بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے یا تھا ۔ ’ویاپم ‘ یعنی ’ویو سائک پر یکشا منڈل ‘ یا انگریزی میں ’ پروفیشنل ایکزامنیشن بورڈ ‘( پی ای بی ) ایک گھپلہ ہے ، ایک گھوٹالہ ہے، ایک اسکام ہے ، ایک ایسا اسکام جس نے اب تک کے تمام گھپلوں اورگھوٹالوں کو اپنے حجم کے اعتبار سے ماند کردیا ہے ۔کہاجاتاہے کہ یہ دوہزار کروڑروپئے کا گھوٹالہ ہے ! یوں تو گھپلا تعلیم سے متعلق ہے مگر اس گھپلے کی حقیقی نوعیت کچھ اور ہے ۔ اداروں میں ڈونیشن یا عطیات کوئی نئی چیز نہیںہیں ، شاید ہی ملک کا کوئی تعلیمی ادارہ اس’لعنت ‘ سے پاک ہو۔ کھلے عام ڈونیشن لے کر داخلے دیئے جاتے ہیں اور وہ نوجوان بھی جو ’ اہل ‘ نہیں ہوتے داخلے پاکر اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے بھی ہیں ۔’ویاپم ‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے مگر اس گھوٹالے میں اقتدار کی ہو س اور سیاسی طاقت کے طورپر ہمیشہ بر قرار رہنے کی خواہش بھی شامل ہے ۔ اگر کسی عام سے تعلیمی ادارے میںعطیات لے کرداخلے دلانے والے کسی گروہ کا پردہ فاش ہوتا تو معاملہ شاید بہت زیادہ تشویشناک نہ ہوتا مگر اس گھوٹالے کے عیاں ہوتے ہی ’قتل عام ‘ کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہوگیاہے ، ایک ایسا سلسلہ جس سے یہ صاف عیاں ہوتا ہے کہ ’ویاپم ‘ ایک عام سا گھوٹالہ نہیںہے ۔ مدھیہ پردیش کے اس گھوٹالہ میں اب تک46افراد ہلاک کئے جاچکے ہیں !بعض ذرائع ہلاکتوں کی تعداد 50سے زائدبتاتے ہیں ۔ قتل کی وجہ آخر کیا ہے ؟ اس سوال کا کوئی بہت واضح جواب نہیں ہے لیکن ایک جواب بالکل سامنے کا ہے ، مارے جانے والوں کے پاس ایسے راز تھے جو ان ’ افراد ‘ کے چہروں کو بے نقاب کرسکتے تھے جو کسی ’ایک فرقے کے افراد کو اعلیٰ عہدوں پر کسی نہ کسی طرح پہنچانے کیلئے سرگرم تھے ۔ آر ایس ایس کا یہ کھلا ایجنڈہ ‘ ہے کہ سرکار کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے ہی لوگ تعینات ہوجائیں اورسرکاراور اسے چلانے والے اس کی ہی مٹھی میں رہیں ۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے تو یہ سچ ہے کہ یہاںجمہوریت ہے اورالیکشن میں چن کر آنے والے ہی حکومت کرتے ہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ حکومت اصلاً سرکاری افسر اور نوکر شاہی چلاتی ہے ۔ یہ عدالتوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ثبوتوں کو ان کے اشارے پر بدلا بھی جاسکتا ہے۔ جب این ڈی اے کے نام سے پہلی حکومت میںبی جے پی نے شرکت کی تھی تو بنیادی مقصد یہی تھا کہ اپنے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پرپہنچائیں ۔ ان کے نشانے پر نشرو اشاعت ،سیکوریٹی ،آئی بی اور ’را‘ جیسے ادارے قابل ذکر تھے ۔ واقف کار ذرائع کے مطابق جب ایک زمانے میں اٹل بہاری واجپئی وزیر خارجہ اور ایل کے اڈوانی وزیر نشرو اشاعت تھے تب اس بات کی شدید کوشش کی گئی تھی کہ ان اداروں میں اگر اقلیت کے لوگ ہیں تو انہیں ہٹاکر ان کی جگہوں پر کسی نہ کسی طرح سنگھ پریوار کے لوگوں کو لایا جائے ۔ غالباً ایسے ہی منصوبہ پر’ ویاپم‘ کے ذریعے عمل کیا جارہاتھا ۔ اس کا مقصد صرف ڈونیشن لے کر تعلیمی اداروں کی بنیادیں مضبو ط بنانا نہیں بلکہ سنگھی ذہنیت رکھنے والوں کو اہم مقام دلانا تھا ۔ آر ایس ایس کے ہمنواؤں کو سند دلوا کر اعلیٰ مقامات تک پہنچاناتھا ۔’ ویاپم ‘ گھوٹالہ موضوع بحث ہے ۔ کئی سیاست دانوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ، سرکاری افسروں پر بھی نگاہیں ہیں مگر حال ہی کے ایک واقعے نے سب کی نظروں کوپوری طرح سے آرایس ایس کی طرف موڑ دیا ہے ۔ آرایس ایس کے سابق سر سنگھ چالک کے ایس سدرشن اپنی موت کے بعد اس وقت موضوع گفتگو بن گئے جب ان کے ایک ’ سیوا دار‘ یعنی’ خدمت گار ‘مہیر کمار نے یہ دعویٰ کیا کہ سدرشن نے اور آر ایس ایس کے ایک لیڈر سریش سونی نے ’ ویاپم ‘ میں سفارش کرکے ان کا ’ فوڈ انسپکٹر ‘ کے طور پر تقررکرایاتھا۔ مہیر کمار کے مطابق ’ ویاپم ‘ سے وابستہ افسروں کاٹولہ آر ایس ایس کے لیڈروں کے رابطہ میں تھا۔ کروڑہا روپئے کے ’ ویاپم ‘گھوٹالے کی چھان بین کررہے اسپیشل ٹاسک فورس ( ایس ٹی ایف ) کو مہیر کمار نے کئی دلچسپ باتیں بتائیں ۔ مثلایہ کہ انہوں نے سوالیہ پرچے میں بہت سے سوالات چھوڑدیئے تھے یعنی جواب نہیں دیئے تھے مگر آر ایس ایس کے مذکورہ لیڈروں کی سفارش سے وہ اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوئے … ایس ٹی ایف نے مہیر کمار کا جوبیان درج کیا ہے اس میں یہ دعویٰ بھی کیاگیاہے کہ فوڈ انسپکٹری کی درخواست دینے کے بعد انہوں نے اس کی ایک فوٹو کاپی سدرشن کو یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ وہ انہیں نوکری دلوانے میںمدد کریں ۔ کہاجاتا ہے کہ سدرشن نے سونی سے رابطہ قائم کیا اور سونی نے اس وقت کے ایم پی کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر لکشمی کانت شرما سے بات کی جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا… ایس ٹی ایف کے مطابق مہیر کمار سے کہا گیاکہ سوالیہ پرچے میں جن سوالوں کے جواب انہیں آتے ہوں ان کے جواب دیں اورجن کے نہ آتے ہوں ان کی جگہ خالی جگہ چھوڑ دیں ۔جب نتیجہ آیا تو کمار ساتویں نمبر سے کامیاب تھے ! کمار آج ضمانت پر رہاہیں ۔مہیر کمار کا ایک واقعہ ہی نہیںہے ۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کے لیڈروں نے بے شمار لوگوں کو اعلیٰ عہدے دلوانے میں ’و یاپم ‘ کا استعمال کیا ہے اوربی جے پی کی شیو راج سنگھ چوہان کی حکومت کا اس میں سانٹھ گانٹھ رہاہے۔ ’ویاپم ‘ گھوٹالہ میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کا نام اس وقت سامنے آیا تھا جب ایس ٹی ایف کے ذریعے ایک آئی ٹی مشیر پرشانت پانڈے کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ پانڈے نے ’ویاپم ‘ کے سسٹم تجزیہ کار نتن مہندرا کے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک کا معائنہ کرنے کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ اس میں وزیر اعلیٰ چوہان کا نام 18جگہ آیاہے ۔ پانڈے کے مطابق نتن کے پاس ان تمام افراد کے ریکارڈ تھے جنہوں نے ملازمتوں کیلئے ’ نااہل ‘ افراد کی سفارشیں کی تھیں ، اس میں چوہان کا نام بھی تھا مگر پولس نے ہارڈ ڈسک سے چھیڑ چھاڑ کرکے ان کے نام حذف کردیئے … حالانکہ ہائی کورٹ نے ، جو ’ ویاپم ‘ معاملے کی چھان بین کی نگرانی کررہی ہے ، پانڈے کے دعوے کو خارج کردیا مگر وزیر اعلیٰ چوہان کی ’ صاف ستھری ساکھ ‘ متاثر ہوئی اورآج صورتحال یہ ہے کہ وہ ’ ویاپم ‘کے ’ چکر ویو‘میں پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے پی اے پریم چند ‘ویاپم ‘ کے ملزم ہیں اور فی الحال ضمانت پر باہر ہیں ۔ ان کے ایک وزیر لکشمی کانت شرما جیل میںہیں ۔ لکشمی کانت شرما کے اوڈی ایس، اوپی شکلا جیل میںہیں ، ’ویاپم ‘ کے دو ریکٹیئر جگدیش ساگر اور سنجیو شلپکار جیل میں ہیں ، نتن مہندرا ’ ویاپم ‘ کے امتحانات کے کنٹرولر پنکج ترویدی ، لکشمی کانت شرما کے پی اے، سدھیر شرما ، سابق ڈی آئی جی، آر کے شیو ہرے اور اندورکے ایک میڈیکل ادارے کے چیئرمین ونود بھنڈاری جیل میں ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے گورنر رام نریش یادو کے سابق او ایس ڈی ،دھنراج یادو جیل میںہیں اور خود گورنر سے سپریم کورٹ نے یہ دریافت کرلیا ہے کہ کیوںنہ آپ کے خلاف نوٹس جاری کی جائے ؟ گورنر کانام بھی ’ویاپم ‘ میں شامل ہے ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ گورنر کے صاحبزادے سیلیش جو ایک ملزم تھے مارچ میں مردہ پائے گئے تھے ۔ وزیر اعلیٰ چوہان کی اہلیہ سادھنا چوہان کا نام بھی اس گھوٹالے میں آیا ہے ۔ میاں بیوی پر سفارشیں کرنے کا الزام ہے۔ ’ویاپم ‘ گھوٹالہ اپنی نوعیت میں ایک ’خونی گھوٹالہ ‘ ہے ۔ اب تک اس گھوٹالے میں 46سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جن میں کئی میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں کے ڈین اور ایسے صحافی بھی شامل ہیں جو چھان بین کررہے تھے ۔ امو ات پر اسرار ہیں ۔ سمجھا یہی جارہاہے کہ میڈیکل امتحانات سے لے کر فارسٹ اوردوسرے سرکاری محکموں میں بھرتی کے امتحانات تک جو بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور ان بے ضابطگیوںکے سلسلے جو ریاست کے گورنر کے دفتر سے لے کر وزیر اعلیٰ کے دفتر اورتمام بڑے نوکر شاہوں کے دفاترتک پہنچے ہیں ان پر پردہ ڈالنے کیلئے ’ بے رحمی ‘ کے ساتھ لوگ منظر سے ہٹائے جارہے ہیں۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے بشمول ایم پی کے وزیر داخلہ بابو لال گوڑ اور ایم پی کی سابق وزیر اعلیٰ اوما بھارتی نے ’ویاپم‘ معاملہ پرچوہان سرکار پر انگلی بھی اٹھا ئی ہے ۔ جیسا کہ اوپر ہم تحریر کرچکے ہیں مودی سرکار مبارکباد کی مستحق ہے ۔ ایک تو اسلئے کہ اس سرکار کے قیام کے بعد یرقانی ٹولہ بے لگام ہو کر اپنے چہرے پر سے نقاب خود ہی الٹ رہاہے اوردوسرے اس لئے کہ وہ لوگ جو وزیر اعظم مودی کے مخالف گروہ میں تھے جیسے کہ وسندھرا راجے سندھیا ، سشما سوراج اور شیو راج سنگھ چوہان وغیرہ ان کے ’ رازوں ‘ کو’اب ‘ جبکہ بات عدالت تک جا پہنچی ہے ، یہ سرکار چھپانے کیلئے قطعی تیار نہیںہے ۔ آگے کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گالیکن سپریم کورٹ نے سارے معاملے کی سی بی انکوائری کی ہدایت دے کر اتنا توو اضح کردیاہے کہ نہ چوہان سرکار اورنہ ہی یرقانی ٹولہ اس معاملے کو آسانی سے دبا سکتاہے ۔ یہ تقریباً دوہزار کروڑ روپئے کا گھوٹالہ ہے اور اب تک دوہزار افراد اس کیلئے گرفتار کئے جاچکے ہیں … لیکن حقیقی کامیابی اسی وقت ملے گی جب یہ پتہ چلے گا کہ اس منصوبے کے پس پشت اصل دماغ کون تھے اور وہ کون سے افراد ہیں جو ’ ویاپم ‘ کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے اعلیٰ سرکاری عہدوں پرپہنچے اور آج بھی متمکن ہیں… یہ سوال بڑا اہم ہے کہ سی بی آئی کیا ’ ویاپم ‘ کے معمے ‘ کو حل کرسکے گی ؟ ویسے یہ ’معمہ ‘ حل ہو یا نہ ہو ’ویاپم ‘ گھوٹالہ میں ہندو تو وادیوں کا ہاتھ ہے ، یہ بالکل صاف اور عیاں ہوگیا ہے ۔
٭٭٭