
کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے

جاوید چوہدری
(مذکورہ مضمون پاکستان کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے لیکن ہندوستانیوں کی نفسیات بھی کم و بیش وہی ہیں جس سے پاکستان جوجھ رہا ہے ۔افادہ عام کے لئے اسے یہاں شائع کیا جارہا ہے۔ادارہ)
مریض نے لمبی سانس لی، کمرے میں موجود لوگوں کی طرف غور سے دیکھا، مسکرایا، ہاتھ ہلایا، ہچکی لی اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں، اگلے دن دنیا بھر کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی ’’ سنگا پور کے بانی وزیر اعظم لی کو آن یو 23 مارچ کو 91 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے ۔‘‘
لی کو آن یو اور سنگا پور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں ، ہم جب تک لی کو آن یو کا نام نہ لیں اس وقت تک سنگا پور مکمل نہیں ہوتا اور ہم جب تک سنگا پور کو تسلیم نہ کریں اس وقت تک لی کو آن یو مکمل نہیں ہوتے ، یہ دونوں جڑواں بھائی ہیں ، سنگا پور 640 مربع کلو میٹر کا ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا، یہ انیسویں صدی تک ہولناک جنگل تھا، جنگل میں خونخوار درندوں ، شیروں اور مگر مچھوں کا راج تھا، 1965 ء تک جزیرے میں خطے کی سب سے بڑی دلدل بھی تھی، یہ بحری قزاقوں کا اپنا مسکن بھی تھا ، دنیا کا کوئی شخص اس جزیرے کی طرف رخ نہیں کرتا تھا۔ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ جزیرہ خرید لیا، پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے اسے بحری اڈہ بنا لیا، یہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے قبضے میں چلا گیا۔ سنگا پور 1963 ء میں ملائشیا کو واپس مل گیا لیکن 1965 ء میں ملائشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر سر سے اتار دیا، سنگا پور کو آزادی دے دی گئی ، لی کو آن یو اس وقت سنگا پور کے وزیر اعظم تھے ، وہ پہلی بار 1959 ء میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے ، وہ آزاد سنگا پور کے پہلے وزیر اعظم بنے ، لی کو آن یونے اس بدبودار جزیرے کو دنیا کا شاندار ملک بنانے کا فیصلہ کیا، پورے ملک سے ایماندار لوگوں کو چن کر جج بنایا گیا، ان ججوں کو مکمل خود مختاری دی گئی، یہ جج صدر اور وزیر اعظم سے لے کر چپڑاسی تک تمام سرکاری اہلکاروں کو کسی بھی وقت عدالت میں طلب کر سکتے تھے اور ان کی کھلے عام گوشمالی ہوتی تھی، لی کو آن یو نے انصاف کے بعد سنگا پور کے خوشحال طبقے سے انتہائی پڑھے لکھے ، مہذب اور ایماندار لوگ چنے اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، کابینہ کے لیے احتساب کا ایک کڑا نظام تشکیل دیا گیا، اس نظام سے کوئی مبرا نہیں تھا، اس کے بعد پوری دنیا میں بکھرے سنگا پور کے پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوانوں سے رابطہ کیا گیا، نوجوانوں کو بھاری معاوضے پر سرکاری ملازمتوں کی پیش کش ہوئی، آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی سنگا پور دنیا کا واحد ملک تھا جس میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں کارپوریٹ سیکٹر کے برابر رکھی گئیں ، سنگا پور میں اگر ایک ایم بی اے نوجوان کو پرائیویٹ بینک دو لاکھ روپے تنخواہ دیتا تھا تو حکومت بھی اس کو الیفیکیشن کے نوجوان کو دو لاکھ روپے تنخواہ دیتی تھی۔ لی کو آن یو نے سنگاپور کے قانون کو دنیا کا سخت ترین قانون بنا دیا تھا مثلاً سنگا پور میں کسی دیوار یا عوامی جگہ پر گالی لکھنے کی سزا موت تھی اور سنگا پور میں اگر کوئی وزیر یا مشیر کرپشن میں ملوث پایا جاتا تھا تو لی کو آن یو اسے خود کشی یا احتساب میں سے ایک آپشن کے انتخاب کا موقع دیتے تھے ، وزراء عموماً اس لمحے خودکشی کو ترجیح دیتے تھے، لی کو آن یو کی اصلاحات کے نتیجے میں صرف تیس برسوں میں سنگا پور دنیا کا نواں امیر ترین ملک بن گیا، لی کو آن یو تیس برس بعد 1990ء میں مستعفی ہو گئے اور انہوں نے اپنے لیے نگران کا کردار منتخب کر لیا۔
میاں نواز شریف 1999ء میں سنگا پور کے دورے پر گئے ، تو نواز شریف نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ’’ٹپس‘‘ لینا چاہتے تھے ، سنگا پور کے وزیر اعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کر دی، نواز شریف نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہو گئے ، یہ ملاقات سنگا پور کے وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئی، گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طر ح واقف ہیں ، نواز شریف نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا، کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا، لی کو آن یو نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلا دیا، ان کا رد عمل، سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا، حاضرین پریشان ہو گئے ، لی کو آن یو ذرا دیر خاموش رہے اور پھر بولے ’’ اس کی تین وجوہات ہیں ‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے ، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے ، آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں ، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہو گی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے ، آپ سڑک، عمارت، سیورج سسٹم، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جب کہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں ‘‘ وہ رکے اور ذرا دیر کے بعد بولے ’’آپ خود فیصلہ کیجیے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں، وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟ دوسری وجہ، آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں ، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں ، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا، میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے ، میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمانوں کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا، میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ، تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاؤ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا، آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرا دیں ، میں اس کی صلح کرا دیتا تھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑ ا دلچسپ ہوتا تھا، وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا، میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑ یں گے ‘‘ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ’’ میرا تجربہ ہے جو قومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اور تیسری اور آخری وجہ فوجی آمریت ہے ، آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاستدان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی آمریت میں رہ کر ترقی کی ہو‘‘
یہ لی کو آن یو کا وژن تھا، وہ ہر معاملے میں اتنے ہی کلیئر تھے ، آپ کو شاید جان کر حیرت ہو لی کو آن یو نے سنگا پور میں چیونگم چبانے پر پابندی لگا دی تھی، یہ پابندی’’لٹرنگ لائ‘‘ کا حصہ تھی ، اس قانون کے تحت سنگا پور میں چیونگم چبانا، کھلی جگہ تھوکنا اور واش روم کے استعمال کے بعد فلش نہ کرنا قانوناً جرم تھا، یہ آج بھی جرم ہے ، تھوکنا اور فلش نہ کرنا کئی ممالک میں جرم ہے لیکن جہاں تک چیونگم کا معاملہ ہے اس لحاظ سے سنگا پور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ببل گم پر پابندی ہے ، ملک میں چیونگم بیچنے والے کو 2940 ڈالر جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ملتی ہے جبکہ چیونگم چبانے والے شخص کو پہلی بار پانچ سو ڈالر، دوسری بار ہزار ڈالر اور تیسری بار دو ہزار ڈالرز جرمانہ کیا جاتا ہے ، یہ پابندی اور یہ سزا جس قدر حیران کن ہے اس پابندی کی بیگ گراؤنڈ بھی اتنی ہی دلچسپ ہے ، سنگا پور کی حکومت نے 1983 ء میں عوام کو سرکاری فلیٹس بنا کر دینا شروع کیے ، سنگا پور اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے 91 فیصد لوگ ذاتی فلیٹس کے مالک ہیں ، یہ تمام فلیٹس حکومت نے بنا کر دیئے ، سنگاپور میں سرکاری ٹرانسپوٹ کا سسٹم بھی 1983 ء میں شروع ہوا، عوام کے لیے فلیٹس اور ٹرانسپورٹ کا سسٹم بنا تو لوگ سرکاری بسوں اور فلیٹس میں چیونگم پھینک جاتے تھے ، اس سے بسوں کی سیٹیں ، ہینڈل، لاکس اور فرش خراب ہو جاتے تھے جب کہ فلیٹس کے دروازے اور کمپلیکس کی لفٹس بھی چیونگم کی وجہ سے پھنس جاتی تھیں ، سنگا پور نے 1987ء میں پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو ریلوے بھی شروع کی، میٹرو میں بھی چیونگم نے گندگی اور مسائل پیدا کرنا شروع کر دیے ، لوگ ٹرین کے لاک میں چیونگم پھنسا دیتے تھے جس کی وجہ سے دروازے لاک ہو جاتے تھے اور یوں ٹرینوں کا شیڈول خراب ہوتا تھا چنانچہ حکومت نے چیونگم پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا، چیونگم پر پابندی کی تجویز 1991 ء میں سنگا پور کی پارلیمنٹ میں پیش ہوئی، پارلیمنٹ میں اس پر پورا سال بحث ہوئی، پارلیمنٹ نے 1992ء میں اسے قانون کی شکل دے دی جس کے بعد سنگا پور میں چیونگم استعمال کرنا اور بیچنا دونوں جرم ہو گئے، اس قانون کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے ، سنگا پور دو سال میں دنیا کا صاف ترین ملک کہلانے لگا، آپ کو یہ جان کے یقینا حیرت ہو گی سنگا پور میں 1992ء سے کوئی شخص، خواہ اس کا تعلق سنگا پور سے ہو یا غیر ملکی مہمان ہواسے اس قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں ۔ پولیس چیونگم چبانے والے ہر شخص کو پکڑ لیتی ہے ، آپ اس معاملے میں سنگا پور حکومت کی حساسیت ملاحظہ کیجیے، سنگا پور میں اکتوبر 2009ء میں انٹر پول کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کا فیصلہ ہوا تو سنگا پور حکومت نے 186 ممالک کی حکومتوں کو خط لکھ دیا تھا ’’ سنگا پور میں چیونگم پر پابندی ہے لہٰذا کوئی مندوب چیونگم لے کر سنگا پور میں داخل نہ ہو‘‘ سنگا پور حکومت کا یہ خط محض دھمکی یا وارننگ نہیں تھی بلکہ حکومت نے ایئر پورٹ پر 186 مہمانوں کے سامان کی تلاشی بھی لی، سنگا پور میں 1992ء سے 2015ء تک بے شمار لوگ چیونگم استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے ، ان میں امریکا اور یورپ کے وزراء تک شامل تھے ، سنگا پور کی حکومت نے نہ صرف ان لوگوں کو جرمانہ کیا بلکہ ان سے جرمانہ وصول بھی کیا۔ سنگا پور کی حکومت اس قانون کے معاملے میں کس حد تک سخت ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے ، 1992ء میں جب یہ قانون بن رہا تھا تو یورپ اور امریکا نے اسے انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا، بی بی سی نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’چیونگم پر پابندی تخلیق کاروں کے ساتھ زیادتی ہے ، تخلیق کار عموماً تخلیقی کاموں کے دوران چیونگم چباتے ہیں اور اس پابندی سے سنگا پور کے تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوں گی، ان لوگوں کو سوچنے میں دقت ہو گی‘‘۔ بی بی سی کا یہ تبصرہ جب وزیر اعظم لی کو آن یو تک پہنچا تو انہوں نے اس کا بڑا خوبصورت جواب دیا، وزیر اعظم لی کو آن یو نے کہا ’’ جو شخص چیونگم کے بغیر سوچ نہیں سکتا اسے چاہیے وہ کیلا ٹرائی کرے کیونکہ کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے ‘‘۔
یہ تھے لی کو آن یو! کاش اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک ایسا لیڈر عطا کر دے ، ایک ایسا لیڈر جو قانون کو قانون بھی سمجھتا ہو اور اسے سپریم بھی قرار دیتا ہو۔