
کلام کی ‘میزائل مین بننے کی کہانی خود ان کی زبانی

نئی دہلی۔ سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے جسد خاکی کو آج صبح شیلانگ سے دہلی لایا گیا۔ڈاکٹر کلام کا کل دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا۔وہ آئی آئی ایم شیلانگ میںطلبہ سے خطاب کر رہے تھے ۔ تقریر کے دوران ہی وہ ڈائس پر گر گئے پھر انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں انتہائی نگہداشت کے کمرے میں مسلسل دو گھنٹہ رکھا گیا جس کے بعد ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی خبر دے دی۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کے ساتھ میگھالیہ کے گورنر وی شنموگموی، وزیر داخلہ روشن وارجری اسمبلی اسپیکر ابو طاہر منڈل اور تحفظ عامہ اور ہوم گارڈ کے ڈائرکٹر جنرل آر کے شرما ہیں۔ ترنگے میں لپٹے ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کو ہندستانی فضائیہ کے خصوصی ہیلی کاپٹر سے گواہاٹی کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر لایا گیا جہاں سے ہندستانی فضائیہ کے خصوصی طیارے سی۔1۔ 30 سے اسے دہلی لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کو دہلی میں آخری دیدار کے لئے لایا گیاہے۔ بعدمیں ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی شہر تملناڈو کے رامیشورم لے جایا جائے گا۔ سابق صدرجمہوریہ کے انتقال پر ملک میں سات دن کا قومی سوگ کااعلان کیا گیا ہے۔
آئے ہم جانتے ہیں کلام کی کہانی خود ان کی زبانی!
میری کہانی میرے ساتھ ختم ہو جائے گی کیونکہ تمہیں بھی معلوم ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں، نہ بیوی ہے، نہ بچے، نہ کوئی جائیداد کہ جس کے تئیں میرا لگاؤ ہو، کچھ بھی میرا نہیں، میری زندگی کا فلسفہ ایک ہی ہے۔ یہ پورا ملک میرا ہے۔ بس کوشش کرتے رہو۔ جہاں تک میرے علم کی بات ہے،سب ایک ہیں۔ بس نام الگ ہے۔
رامیشورم میں ایک مچھوارے کے گھر پیدا ہوا، لیکن پھر بھی چاہت آسمان میں اڑنے والے پرندوں کی طرح تھی۔ میرا پہلا مکتب خاندان ہی تھا جہاں میرے والد نے مجھے یہ سکھایا کہ بھائی چارہ کیا ہے۔ میری ماں نے بتایا کہ سچائی کے لئے سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میری زندگی میں شمش الدین اورجلال الدین کا تعاون انتہائی اہم تھا۔ میرے والدین سے بھی زیادہ، کیونکہ میرے لئے میرے بہنوئی اور میرے بھائی کے پاس اتنی سمجھ تھی کہ پڑھے لکھے انسان کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔
میرے والد اور ایک مقامی پنڈت میں کافی اچھی دوستی تھی۔ یہی تھا ہندستان اور اس کی محبت جس میں بھائی چارہ اور ہم آہنگی تھی۔ آج کی طرح نہیں جو ذات پات اور مذہب پر منقسم ہے۔ میں ابو الفاخر زین العابدین عبدالکلام، جس کے والد ایک غریب خاندان سے تھے۔ جن کے پاس ایک کشتی تھی۔ میری ماں عاصمہ، وہ بھی ایک غریب خاندان کی تھیں، ہاں یہ ضرور تھا کہ خاندان کا ہاتھ بٹانے کے لیے انہوں نے بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے بھی اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اخبار بیچنا شروع کیا تاکہ میں بھی خاندان کا کچھ تعاون کر سکوں۔
میں اپنے اسکول کے دنوں میں ایک عام طالب علم تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ اساتذہ کہتے تھے کہ میرا مستقبل روشن ہے۔ خاص طور سے علم الحساب میں۔ میں نے رامناتھ پورم سوارتز میٹریکولیشن اسکول سے ہائی اسکول کیا اور مزید تعلیم کے لئے سینٹ جوزف کالج ترچراپالی میں داخلہ لیا۔ یہ كولگے مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا، جہاں سے میں نے 1954 میں فزکس میں گریجویشن کیا۔ حالانکہ جب گریجویشن مکمل ہونے والا تھا تب میں اپنے منتخب کردہ موضوع کو لے کر اتنا زیادہ پرجوش نہیں تھا۔
مجھے لگنے لگا کہ میں اپنے ان چار سالوں کو لے کر آگے چل کر خود کو کوسوں گا۔ اس کے بعد میں مدراس چلا گیا، جہاں میں نے ایئر اسپیس انجینئرنگ کی تعلیم شروع کی۔ پڑھائی کے دوران بھی میں ایک سینئر کلاس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا، لیکن میرے اندر جوش نہیں تھا۔ ڈین اس پر کافی غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ اس پروجیکٹ کو اگلے تین دن میں مکمل کرو ورنہ میں تمہاری اسکالر شپ ختم کر دوں گا اور میں نے اس کام کو تین دن میں مکمل کر دیا۔
میرا خواب تھا فائٹر پائلٹ بننا اور میں نے اپنے اس خواب کو بہت قریب سے ٹوٹتے دیکھا تھا۔ میں كوالیفائرس کی فہرست میں 9 ویں مقام پر رہا اور صرف 8 لوگوں کی ہی جگہ تھی، لیکن اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے ایک عام آدمی کا سائنسداں بننے کا سفر۔ کافی رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود ایک سائنسداں کے طور پر میرا ڈی آر ڈی او اور اسرو میں سفر تسلی بخش تھا، کیونکہ یہیں سے تو پیدا ہوا تھا ملک کا ‘میزائل مین ۔
ہاں، یہ نام مجھے پوكھرن دھماکے کے بعد ملا۔ یاد ہے مجھے تب سے ہی لوگوں نے میرے بارے میں جانا۔ اس کے بعد اگنی اورپرتھوی میزائل کے کامیاب تجربہ نے مجھے واقعی میں ‘میزائل مین بنا دیا۔ تب لوگ کہتے تھے کہ میں ملک سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس وقت اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
ہاں، یہ موقع مجھے تب ملا جب 2002 میں میں صدر بنا۔ اب یہ ٹھیک تھا میں ملک سے کچھ کہہ سکتا تھا۔ اب جب میں اپنے مكمل مقام پر ہوں تو میرا پیغام یہ ہے:
اگر کسی بھی ملک کو کرپشن سے آزاد ہونا ہے اور خوبصورت دماغ والے ملک کے طور پر ابھارنا ہے تو میرا خیال ہے کہ معاشرے کے صرف تین لوگ یہ تبدیلی کر سکتے ہیں اور وہ ہیں ، والد، والدہ اوراستاذ۔