Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کلام کی ‘میزائل مین بننے کی کہانی خود ان کی زبانی

by | Jul 28, 2015

ممبئی میں اے پی جے عبد الکلام کا پوسٹر لگاکر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے :تصویر امتیاز شیخ

ممبئی میں اے پی جے عبد الکلام کا پوسٹر لگاکر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے :تصویر امتیاز شیخ

نئی دہلی۔ سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے جسد خاکی کو آج صبح شیلانگ سے دہلی لایا گیا۔ڈاکٹر کلام کا کل دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا۔وہ آئی آئی ایم شیلانگ میںطلبہ سے خطاب کر رہے تھے ۔ تقریر کے دوران ہی وہ ڈائس پر گر گئے پھر انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں انتہائی نگہداشت کے کمرے میں مسلسل دو گھنٹہ رکھا گیا جس کے بعد ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی خبر دے دی۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کے ساتھ میگھالیہ کے گورنر وی شنموگموی، وزیر داخلہ روشن وارجری اسمبلی اسپیکر ابو طاہر منڈل اور تحفظ عامہ اور ہوم گارڈ کے ڈائرکٹر جنرل آر کے شرما ہیں۔ ترنگے میں لپٹے ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کو ہندستانی فضائیہ کے خصوصی ہیلی کاپٹر سے گواہاٹی کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر لایا گیا جہاں سے ہندستانی فضائیہ کے خصوصی طیارے سی۔1۔ 30 سے اسے دہلی لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر کلام کے جسد خاکی کو دہلی میں آخری دیدار کے لئے لایا گیاہے۔ بعدمیں ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی شہر تملناڈو کے رامیشورم لے جایا جائے گا۔ سابق صدرجمہوریہ کے انتقال پر ملک میں سات دن کا قومی سوگ کااعلان کیا گیا ہے۔
آئے ہم جانتے ہیں کلام کی کہانی خود ان کی زبانی!
میری کہانی میرے ساتھ ختم ہو جائے گی کیونکہ تمہیں بھی معلوم ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں، نہ بیوی ہے، نہ بچے، نہ کوئی جائیداد کہ جس کے تئیں میرا لگاؤ ​​ہو، کچھ بھی میرا نہیں، میری زندگی کا فلسفہ ایک ہی ہے۔ یہ پورا ملک میرا ہے۔ بس کوشش کرتے رہو۔ جہاں تک میرے علم کی بات ہے،سب ایک ہیں۔ بس نام الگ ہے۔
رامیشورم میں ایک مچھوارے کے گھر پیدا ہوا، لیکن پھر بھی چاہت آسمان میں اڑنے والے پرندوں کی طرح تھی۔ میرا پہلا مکتب خاندان ہی تھا جہاں میرے والد نے مجھے یہ سکھایا کہ بھائی چارہ کیا ہے۔ میری ماں نے بتایا کہ سچائی کے لئے سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میری زندگی میں شمش الدین اورجلال الدین کا تعاون انتہائی اہم تھا۔ میرے والدین سے بھی زیادہ، کیونکہ میرے لئے میرے بہنوئی اور میرے بھائی کے پاس اتنی سمجھ تھی کہ پڑھے لکھے انسان کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔
میرے والد اور ایک مقامی پنڈت میں کافی اچھی دوستی تھی۔ یہی تھا ہندستان اور اس کی محبت جس میں بھائی چارہ اور ہم آہنگی تھی۔ آج کی طرح نہیں جو ذات پات اور مذہب پر منقسم ہے۔ میں ابو الفاخر زین العابدین عبدالکلام، جس کے والد ایک غریب خاندان سے تھے۔ جن کے پاس ایک کشتی تھی۔ میری ماں عاصمہ، وہ بھی ایک غریب خاندان کی تھیں، ہاں یہ ضرور تھا کہ خاندان کا ہاتھ بٹانے کے لیے انہوں نے بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے بھی اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اخبار بیچنا شروع کیا تاکہ میں بھی خاندان کا کچھ تعاون کر سکوں۔
میں اپنے اسکول کے دنوں میں ایک عام طالب علم تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ اساتذہ کہتے تھے کہ میرا مستقبل روشن ہے۔ خاص طور سے علم الحساب میں۔ میں نے رامناتھ پورم سوارتز میٹریکولیشن اسکول سے ہائی اسکول کیا اور مزید تعلیم کے لئے سینٹ جوزف کالج ترچراپالی میں داخلہ لیا۔ یہ كولگے مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا، جہاں سے میں نے 1954 میں فزکس میں گریجویشن کیا۔ حالانکہ جب گریجویشن مکمل ہونے والا تھا تب میں اپنے منتخب کردہ موضوع کو لے کر اتنا زیادہ پرجوش نہیں تھا۔
مجھے لگنے لگا کہ میں اپنے ان چار سالوں کو لے کر آگے چل کر خود کو کوسوں گا۔ اس کے بعد میں مدراس چلا گیا، جہاں میں نے ایئر اسپیس انجینئرنگ کی تعلیم شروع کی۔ پڑھائی کے دوران بھی میں ایک سینئر کلاس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا، لیکن میرے اندر جوش نہیں تھا۔ ڈین اس پر کافی غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ اس پروجیکٹ کو اگلے تین دن میں مکمل کرو ورنہ میں تمہاری اسکالر شپ ختم کر دوں گا اور میں نے اس کام کو تین دن میں مکمل کر دیا۔
میرا خواب تھا فائٹر پائلٹ بننا اور میں نے اپنے اس خواب کو بہت قریب سے ٹوٹتے دیکھا تھا۔ میں كوالیفائرس کی فہرست میں 9 ویں مقام پر رہا اور صرف 8 لوگوں کی ہی جگہ تھی، لیکن اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے ایک عام آدمی کا سائنسداں بننے کا سفر۔ کافی رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود ایک سائنسداں کے طور پر میرا ڈی آر ڈی او اور اسرو میں سفر تسلی بخش تھا، کیونکہ یہیں سے تو پیدا ہوا تھا ملک کا ‘میزائل مین ۔
ہاں، یہ نام مجھے پوكھرن دھماکے کے بعد ملا۔ یاد ہے مجھے تب سے ہی لوگوں نے میرے بارے میں جانا۔ اس کے بعد اگنی اورپرتھوی میزائل کے کامیاب تجربہ نے مجھے واقعی میں ‘میزائل مین بنا دیا۔ تب لوگ کہتے تھے کہ میں ملک سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس وقت اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
ہاں، یہ موقع مجھے تب ملا جب 2002 میں میں صدر بنا۔ اب یہ ٹھیک تھا میں ملک سے کچھ کہہ سکتا تھا۔ اب جب میں اپنے مكمل مقام پر ہوں تو میرا پیغام یہ ہے:
اگر کسی بھی ملک کو کرپشن سے آزاد ہونا ہے اور خوبصورت دماغ والے ملک کے طور پر ابھارنا ہے تو میرا خیال ہے کہ معاشرے کے صرف تین لوگ یہ تبدیلی کر سکتے ہیں اور وہ ہیں ، والد، والدہ اوراستاذ۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...