’’ عبد اللہ حسین سے رامشؔ انصاری تک !‘‘

عبد اللہ حسین مرحوم
عبد اللہ حسین مرحوم

ندیم صدیقی،ممبئی
آج ہمارے ایک کرم فرما حافظ محسن یاد آگئے۔ ان کی عمر تو ہم سے بھی کم تھی مگر موت نے اُنھیں پہلے آن لیا۔ ممبئی ، دھولیہ سے لے کر دہلی تک حافظ محسن کے جاننے والے نہیں ماننے والے موجود تھے۔ سادہ مزاج اور دین و ملت کے خیر خواہ تھے۔ رات دیر گئے کسی وقت سینے میں درد محسوس کیا تو بیگم کو آواز دِی جو دوسرے کمرے میں بچوں کے ساتھ سو رہی تھیں۔ وہ دَوڑ ی دَوڑی آئیں ، بیگم کے آنے کے بعد درد جاتا رہا۔ حافظ محسن نے کہا جاؤ تم بچوں کے ساتھ سو جاؤ ۔ وہ چلی گئیں۔ پھر حافظ محسن کوبھی نیند آگئی ۔ دِل کے دورے نے پہلے دستک دی تھی جسے نظر انداز کیا گیا اور دوسرا دورہ جو شدید رہا ہوگا اس نے کسی وقت حملہ کیا اور حافظ محسن نیند ہی کی حالت میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ صبح جب بچوں کو اسکول روانہ کرنے کیلئے بیگم محسن اُٹھیں تو دیکھا کہ اُن کے میاں گہری نیند میں ہیں۔ انہوں نے حالت پوچھنے کیلئے انھیںہِلایا جُلایا تو پتہ چلا کہ حافظ محسن تو کئی گھنٹے پہلے رُ خصت ہو چکے ہیں کیوں کہ ان کا ایک ہاتھ جو سونے میں اوپر اُٹھ گیا تھا وہ اسی حالت میں اکڑ گیا تھا جسے باوجود کوشش سیدھا نہیں کیا جاسکا۔ اللہ اُن کی مغفرت کرے، خوب آدمی تھے۔ ان کی آخری حالت یعنی ہاتھ کا اکڑنا ۔۔۔۔ آج پھر ہمیں یاد آگیا اور اسی حالت نے یہ بھی کہلوا لیا :۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بھی اکڑا ہوں یہ زمیں بولی:÷ قبر میں بھی تجھے اکڑنا ہے!
ہائے ہماری فراموشی ٔ طبع ، حافظ محسنؔ اور اُن کے ہاتھ کے اکڑنے کو بھی ہم بھول گئے تھے۔ مگر چند دِن پہلے ہمارے ایک بزرگ ِعزیز کی موت کی خبر نے نہ صر ف بھولی باتیں یاد دِلائیں بلکہ یہ بھی جتلا دِیا کہ شہرت و عزت جسکے سبب ہم اکڑے رہتے ہیں مگر یہ شہرت و عزت بھی ایک وقت آتا ہے کہ بُھلا دِی جاتی ہے۔ در اصل ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عزت یہ شہرت ہمارے فن ہمارے کردار کے سبب ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ بھی دُنیا میں گزرے ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو ایسے آج بھی مل جائیں گے ، جو اپنے فن یا اپنے کردار کے دائرے میںبہت کچھ ہیں مگر شہرت ان سے منہ پھیرے ہوئے ہے اسی طرح ایک نہیں کئی ایسے بھی ہیں جن کی شہرت شیطان سے بھی زیادہ ہے مگر جب وقت آتا ہے تو اُن کی کارگزاری، اُن کی شہرت کا عشر عشیر بھی ثابت نہیں ہو پاتی۔
5 جولائی کو اُردو کے ممتاز فکشن نگار عبد اللہ حسین کی رِحلت کی خبر ہم سب نے پڑھی مرحوم پر مضامین بھی لکھے گئے۔ مگرجاوید چودھری کے ایک مضمون سے جو کچھ پتہ چلا توعبد اللہ حسین کے حوالے سے ایک بار اور افسوس ہوا۔ روایت ہے کہ عبداللہ حسین کی تدفین کے وقت ان کا کوئی وارث وہاں موجود نہیں تھا۔ پچاس ساٹھ افراد پُرسے کیلئے ان کے ورثا کو ڈھونڈتے رہ گئے۔ مرحوم کا اکلوتا بیٹا لندن میں تھا جو اُن کی رِحلت کی خبر سننے کے بعد بھی لاہور نہیں پہنچ سکا۔ آخرش لوگ چھٹنے لگے اور جب عبداللہ حسین کے جسد ِخاکی کو قبر میں اُتارا جار ہا تھا تو صرف چھ افراد تھے جن میں اُن کے عزیز ترین دو دوست تھے ایک تومشہور ادیب مستنصر حسین تارڑ اور دوسرا شخص تھا اُن کا ناشر جو گزشتہ دو دہائیوں سے مرحوم کی کتابیں چھاپ رہا ہے۔ ہم اس پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کیا کر سکتے ہیں البتہ مضمون نگار کی تحریر کا آخری ٹکڑا یہاں نقل کردیتے ہیں: ’’۔۔۔ آپ لوگ عبد اللہ حسین کی آخری رسوم کی خبر پڑھ لیں اور اس کے بعد یوروپ اور امریکہ کے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کی آخری رسوم دیکھیں،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دُنیا کے ذہنی عروج کی وجوہ معلوم ہوجائیں گی۔ خدا کا غضب جس ملک(معاشرے) میں عبد اللہ حسین جیسے شخص کی تدفین (ان کے) گھریلو ملازمین نے کی ہو، اس ملک (پاکستان) میں ادب ، دانش اور فکر کتنی دیر زندہ رہے گی، اس ملک (معاشرے) میں کتابوں کے شو روم کی جگہ جوتوں۔۔۔وغیرہ کی دُکانیں نہیں کھلیں گی تو کیا ہوگا ۔؟۔۔۔‘‘اب آیئے ہم اپنی اوراپنے(ہندوستانی) معاشرے کی عرض کریں۔ کوئی پچاس برس اُدھر کی دُنیا اور اس دور کا ادبی ماحول ممبئی کا مدن پورہ جو ترقی پسند تحریک کا گڑھ تھا اُن ترقی پسندوں میں علی سردار جعفری کے ایک چہیتے رامش انصاری (پرتاپ گڑھی)بھی تھے۔ ہم نے اُن کا نام سن رکھا تھا ،کوئی تیس برس بعد وہ ممبئی آئے اور غریب خانے پر قیام کیا، والد محترم جمیل مرصع پوری سے ان کے دیرینہ مراسم تھے اسی نسبت سے انھوں نے راقم کے ساتھ شفقت اور محبت کا روِیہ رکھا۔ بتانے لگے کہ ’’ میاں ندیم! یہ جو (مومن پورے۔ ممبئی میں)عوامی ادارہ ہے نا ، بنکروں کی اس بستی میں جب اس کا اِفتتاحی جلسہ ہوا تھا تو تمام کامریڈ ادیبوں کو ہار پہنائے گئے تھے۔۔۔ سنو گے ،ندیم! وہ ہار کس چیز کے تھے۔؟۔۔۔ ہم نے تجسس بھری نظروں سے دیکھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ’’ وہ سارے ہار سٗوت کے بنے ہوئے تھے اور جب ظؔ انصاری نے سوت کا ہار پہنے ہوئے تقریر کی تو اس تقریر کا موضوع ’ سٗوت ‘ تھا اُنہوں نے سٗوت کے عوام سے رشتے کو یوں بیان کیا کہ لوگ عش عش کرتے رہ گئے ۔‘‘۔۔کوئی ہفتہ بھر ہونے کو ہے کہ پرتاپ گڑھ سے طلحہٰ تابش صاحب نے اطلاع دی کہ رامش صاحب اب نہیں رہے۔ ۔۔ہم نے اپنے ایک دوست مادھو شیام تیواری(پرتاپگڑھ) سے فون پر اُ نکی رحلت کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا :۔۔۔ ۔۔۔’’ارے ندیم جی اُن کے دیہانت کو تو سال بھر ہو گیا ہوگا!!‘‘۔
بزرگوار رامش انصاری کے مزاج میں ایک طرح کا تشنج تھا اُنہوں نے ہماری کسی بات کا غلط تاثر لے لیا،تو پھر دُنیا سے اُٹھ گئے مگر اِدھر نہیں دیکھا۔ ہم بھی کچھ کم نہیں ہماری اکڑ ،نے بھی کام کیا اور اب، جب ان کی سناؤنی ملی تو رو رہے ہیں ۔ مگر جانتے ہیں کہ ہمیں تورونے والے بھی نصیب نہیں ہوںگے۔ شکر ربّی کہ رامش مرحوم اپنے شعر کی صورت باذوق لوگوں کے اذہان میں زندہ و تابندہ رہیں گے:۔
۔۔ ہر انتظار عبادت ، ہر انتظار گناہ÷ ترے جواب سے پہلے ، ترے جواب کے بعد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *