پاکستان میں حرام اجزا پر مشتمل 23مصنوعات

Haraaam Masnooaat

گزشتہ دنوں مغربی ممالک سے درآمد کی جانے والی ایسی 23 خوردنی اشیا کی پاکستان کے شہرکراچی میں فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی جن میں حرام اجزا شامل ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ کراچی میں ان اشیا کی خرید و فروخت پر پابندی کا فیصلہ پاکستان کےوفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے 5 مئی کو تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو ارسال کردہ خط کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ جس میں مذکورہ مصنوعات کی مکمل تفصیلات کے ساتھ ان مصنوعات میں شامل حرام اجزا کی نشاندہی کی گئی تھی۔
اس حوالے سے کمشنر کراچی نے تمام ریٹیل اسٹورز کو فوری طور پر ان مصنوعات کا ذخیرہ ہٹانے کی ہدایت کر دی تھی، جبکہ محکمہ کسٹم نے تمام ایرپورٹس اور بندرگاہوں پر تعینات کسٹم افسران کو ان مصنوعات کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کا حکم جاری کر دیاتھا۔ دوسری جانب کراچی کے تمام بڑے ڈپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز نے کمشنر کی ہدایت پر ان مصنوعات کا اسٹاک رضاکارانہ طور پر ہٹانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ان اشیا کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
یہ مصنوعات امریکا، برطانیہ، ہالینڈ، اسپین اور ڈنمارک کے علاوہ اسلامی ملک انڈونیشیا سے درآمد کی جا رہی تھیں، ان مصنوعات میں خنزیر کے اجزا سے بنائی گئی جیلٹن، جھٹکے سے ذبح کی جانے والی مرغی، رنگ دار کیڑے Cochineal سے کشید کردہ عنصر E-120 اور سفید و سرخ وائن شامل ہیں جو کہ اسلام کی رو سے حرام اور پاکستانی قوانین کے تحت ممنوع ہیں، جن مصنوعات کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ان کے برانڈز کے نام درج ذیل ہیں: (محترم ڈیزائنر! ان برانڈز کے تمام ناموں کو باکس میں دیں، تاکہ جگہ کم خرچ ہو)
چکن ٹو نائٹ( (Chicken tonight
کنور چکن سوپ
سلما سوپ ( (Silma Soup
فروٹ کاکٹیل
ہینز ڈنر چکن(Heinz Dinner Chicken)
پاسٹا چکن بروکلی
کپ اے سوپ
اسکیٹل فروٹ جار ((Skittle Fruit Jar
گمی پیزا
پاپ ٹریٹس
پاسٹا کریمی چکن
چوپا ببل( (Chupa Bubble
پکنک چکن((Picnic Chicken
اسٹرابیری لیف
ٹیولپ چکن
پاسکوئل یوگی کڈز((Pascual Yogikids
اسکیٹل فروٹ 15p
یوپی فٹبالز((Yupi Footballs
Jell O
رائس چکن بروکلی
اس حوالے سے کمشنر ہاؤس میں شعیب احمد صدیقی کی زیر صدارت اجلاس میں شریک بڑے ڈپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز چین مالکان اور نمائندوں کو ان مصنوعات کی تفصیلات فراہم کر دی گئی ہیں، جن میں ان مصنوعات کی تصاویر اور بارکوڈز شامل ہیں۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ بعض مصنوعات پر حلال کا لوگو بھی موجود ہے، اجلاس میں شریک ڈپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز کے نمائندوں نے کہا کہ انہیں ابھی تک کسی ادارے نے ان مصنوعات کے بارے میں اطلاع نہیں دی تھی اور اب کمشنر کراچی کی جانب سے ہدایت ملتے ہی تمام چھوٹے بڑے دکانداروں اور اسٹورز کی انتظامیہ کا یہ مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ایسی مصنوعات کو فی الفور اپنے ذخیرے سے ہٹا دیں۔
اجلاس میں شریک پاکستانی محکمہ کسٹم کی خاتون افسر نے بتایا کہ محکمہ کسٹم نے بندرگاہ اور ایرپورٹ پر تعینات کسٹم حکام کو ان مصنوعات کے بارے میں احکام جاری کر دیے ہیں، اب یہ مصنوعات ہرگز کلیئر نہیں کی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کا کردار اہمیت کا حامل ہے، جس کے ریلیز سرٹیفکیٹ کی روشنی میں درآمدی مصنوعات کے پاکستانی معیارات پر پورا اترنے کی تصدیق کے بعد ہی مصنوعات کلیئر کی جاتی ہیں۔ وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے 5 مئی کو تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو ارسال کردہ خط یقینا ایک بڑی کاوش اور ان کی بیداری کا واضح ثبوت ہے، جبکہ کمشنر کراچی کی جانب سے بروقت اٹھایا گیا قدم جس طرح قابل تحسین ہے۔ باقی صوبوں کو بھی اس حوالے سے جلد اور مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے صارفین کی بھی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ماقبل میں دی گئی فہرست میں شامل ایسی تمام مصنوعات کو نہ خریدیں۔ اس آگہی کو اپنے فیملی ممبران، رشتہ داروں اور دوست و احباب تک پہنچائیں اور کوشش کریں کہ خاص طور پر امپورٹڈ مصنوعات، خواہ وہ شیمپو، صابن، لوشن، مکھن، پنیر یہاں تک کہ بیوٹی آئٹم کو بھی خریدتے وقت اس مصنوع کی پشت پر لکھے ہوئے اجزائے ترکیبی (Ingredients) کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں کہ اس مصنوع میں کسی حرام جزو کی آمیزش تو نہیں کی گئی؟ اور ساتھ ہی تاریخ تنسیخ (Expiry Date) بھی دیکھ لیا کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *