کامیاب تجارت کی کنجی،منصوبہ بندی، کوشش، صبراور امید

سعود الفضل مراکش کے ایک بلند ہمت اور جفاکش تاجرہیں۔ آپ مراکش کے بہت بڑے اور مشہورصحرائی شہر ’’عیون‘‘ کے رہائشی ہیں۔ آپ نے ٹھیکیداری اور عوامی خدمات فراہم کرنے والی مشہور کمپنی ’’سعود الفضل للمقاولات والخدمات العامہ‘‘کی داغ بیل اس وقت ڈالی جب آپ کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم تھے۔ کاروبار کے آغاز پر مختلف پریشانیوں اور چیلنجوں نے آپ کا استقبال کیا، لیکن اللہ کے فضل اور عزم وہمت کی مضبوطی سے آپ کو مثالی کامیابی ملی۔ کاروبار کی روز افزوں ترقی کے ساتھ آپ اپنے شہر کے باسیوں اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ہر موقع و محل کی مناسبت سے ان کی مدد اور خدمت میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
آپ اپنی ان رفاہی سرگرمیوں کی وجہ سے علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ امید ہے تجارتی دنیا میں لائق تقلید تجربات رکھنے والے سعود الفضل کی گفتگو ہمارے لیے بصیرت کا باعث ہو گی۔
سوال :اپنے کاروبار کے آغاز کے بارے میں کچھ بتائیے
جواب :چھوٹی موٹی تجارت کا سلسلہ تو پہلے سے ہی چلا آ رہا تھا، لیکن جب میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا اس وقت میں نے باقاعدہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کی ایک جماعت تیار کر لی اور ’’سعود الفضل للمقاولات والخدمات العامہ‘‘ کے نام سے میں نے باقاعدہ اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائی۔
سوال :آپ نے ادارے کے قیام کے لیے کیا منصوبہ بندی کی اور اس سلسلے میں آپ کو کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا؟
جواب :جب میں نے دیکھا کہ شہر میں ٹھیکیداری اور عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی بہت کمی ہے، جبکہ ان کی ضرورت زیادہ ہے۔ اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں’’سعود الفضلکمپنی برائے ٹھیکیداری و عوامی خدمات‘‘ قائم کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ شروع میں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا رہا اور بہت سارے مسائل پیدا ہوئے، لیکن اللہ کے فضل سے ان تمام رکاوٹوں کے دور کرنے میں کامیاب رہا۔ میں نے زندگی کے ہر موڑ پر خود اعتمادی سے کام لیا۔ بالخصوص اپنی تجارت کی دیکھ بھال اور تدبیر و انتظام میں دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنے آپ پر ہی اعتماد کیا۔
سوال :بزنس جاری رکھنے کے لیے آپ نے تعلیم ترک کر دی تھی، اب آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کا وہ فیصلہ کیسا تھا؟
جواب :میرا دلی رجحان کسی یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا تھا مگر کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا، جس کا مجھے قلق اور افسوس ہے۔
سوال :باصلاحیت، مگر بے روزگار نوجوانوں کو نصیحت کرنا چاہیں گے؟
جواب :نوجوانوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ مناسب ملازمت کی حصول کے لیے پوری تگ ودو کریں اوراس کے ساتھ ہی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ دل میں تجارت اور کاروبار کا بھی جذبہ رکھیں، اس لیے کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ بھی ہے اور باعزت اور بابرکت روزگار بھی۔ نیز آزادانہ سرگرمیوں کی وجہ سے انسان کی حقیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان پیش آمدہ مشکلات پر قابو پانے کے لیے ثابت قدمی دکھائے۔
سوال :اگر آپ تاجر نہ ہوتے تو آپ کیا بننے کی خواہش کرتے؟
جواب :اگر میں تاجر نہ ہوتا تو میں ضرور معلم بننے کی تمنا کرتا، اس لیے کہ معلّم ہی نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ تعلیم و تربیت انتہائی معزز اور انبیائے کرام علیہم السلام جیسی مقدس ہستیوں کا پیشہ ہے۔ پھر معلم سے ترقی کرتے ہوئے کسی بڑے تعلیمی ادارے کے منتظم بننے کی خواہش کرتا۔
سوال :تاجروں کی انجمنوں کی افادیت کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
جواب :میرا خیال ہے تاجر انجمنیں اپنے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی اہم کردار کر سکتی ہیں۔ اس قسم کی انجمنوں کے قیام سے تاجر برادری اپنے ملک کے نوجوانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشش کرے گی۔
سوال :مستقبل کے حوالے سے آپ کے کیا خواب ہیں؟
جواب :کاروباری میدان میں ترقی، کمال اور انفرادیت میرے مستقبل کے خواب ہیں۔
سوال :لوگوں کی محبت و تعلق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب :لوگوں کی محبت بہت بڑی نعمت ہے۔ محبت ایک ایسی دولت ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ انسان کے مرنے کے ساتھ ہی باقی چیزیں ختم ہو جاتی ہے، لیکن محبت ایک پائیدار چیز ہے جو انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ یقیناً میرے لیے لوگوں کی محبت باعثِ راحت و اطمینان ہے۔
سوال :کیا تجارت محض ہماری ضرورت ہے کہ ہم اس کو جیسے چاہیں پورا کریں یا ایک شرعی فریضے کے درجے میں اور اس کے کچھ آداب بھی ہیں؟
جواب :اللہ پاک نے قرآن کریم میں تجارت اور خرید و فروخت کو جائز اور حلال قرار دیا ہے اور آمدنی کی حرام دروازوں اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ (البقرہ:275) ہر مسلمان تاجر اللہ پاک کے احکامات اور حدود کو سامنے رکھتے ہوئے تجارت کرنے کا پابند ہے اور ایسے خوش نصیب تاجر جو تجارت اور کاروبار کرتے وقت بھی اللہ کی یاد سے غافل اور بے خبر نہیں ہوتے اور مال کمانے میں ایسے منہمک نہیں ہوتے کہ اپنے دینی فرائض بھی چھوٹنے لگیں، ان کی باقاعدہ تعریف قرآن کریم میں سورۃ النور، آیت:37 میں فرمائی گئی ہے۔
احادیث مبارکہ میں سچے اور امانت دار تاجر کا حشر روز قیامت انبیا اور صدیقین کے ساتھ ہونے کی عظیم خوشخبری بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دھوکے بازی اور جھوٹ کو منافقین کا طریقہ قرار دیتے ہوئے یہ وعید بھی سنائی گئی ہے کہ ’’من غشَّ فلیس منا…جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ترمذی )
لہذا قرآن پاک و احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان تاجر کا فرض بنتا ہے کہ اپنے کاروبار کوشریعت کی حدود میں رہ کر کرنے کا اہمتام کرے اور ایسے ہر کام سے اجتناب کرے جو اس کے لیے قیامت کے روز پریشانی یا سزا کا باعث بنے۔ اللہ پاک ہم سب کو بچائے۔
سوال :سود پر مبنی تجارت اور موجودہ حالات کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
جواب :سودی کاروبار ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے تجارت کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ سودکی وجہ سے ہمیشہ افراد اور ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہمیں کاروبارِ زندگی میں مغرب سے منہ موڑ کر فکرِ مدینہ کو اپنانا ہوگا۔ اگر مسلم ممالک سے سود کو دیس نکالا دے دیا جائے تو اللہ کی رحمتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ ان میں موجود طبقاقی کشمکش ،کرپشن اور لوٹ مار میں کمی آئے گی۔
سوال :تقریباً ہر موقع محل کی مناسبت سے آپ اس شہر کے باسیوں کی فلاح و بہبود میں پیش پیش ہوتے ہیں تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہے؟
جواب :میں اسی شہر کے لوگوں کی عزت و تکریم اور ان کا تعاون کرنے میں عزت محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا فرض ہے جسے میں نبھا رہا ہوں۔
سوال :کبھی آپ نے تجارت کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟
جواب :تجارت جو میرے لیے باعث افتخار ہے۔ اسے چھوڑنا میرے لیے ناممکن ہے۔ تجارت ہی کے طفیل میں آج اس مقام پر ہوں۔
سوال :آپ نے اپنے کاروبار کو ترقی دے کر اس معیار پر کیسے پہنچایا؟
جواب:منصوبہ بندی، محنت و کوشش، صبر و حکمت اور مستقبل کے حوالے سے پُر امید ہونے کے نتیجے میں، میں نے ترقی اور کامیابی کا یہ سفر سمیٹا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *