کیوں نہیں ہیں وزیر اعظم ایوان کی کارروائی کے لئے سنجیدہ ؟

پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس کسی کام کاج کے بغیر ختم ہوا چاہتا ہے۔ ارون جیٹلی نے یو پی اے کے دور اقتدار میں کہاتھا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی چلانا برسراقتدار پارٹی کی ذمہ داری ہے مگر اب وہ یہ ذمہ داری اپوزیشن پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ زبردست اکثریت کے ساتھ انتہائی جارحانہ طریقے سے اقتدار سنبھالنےوالی بی جے پی اب دفاعی پوزیشن میں آچکی ہے، جو الزامات وہ کل تک کانگریس کی حکومتوں پرلگاتی تھی، اب انہیں الزامات سے خود بھی گھر گئی ہے۔ منموہن سنگھ کی خاموشی کے سبب انہیں ’مون ‘موہن سنگھ کہنے والے نریندر مودی بھی ’مون‘ ہوچکے ہیں۔ ویاپم گھوٹالہ ، سشما سوراج اور وسندھرا راجے سندھیا کے ذریعہ ہندوستان کو مطلوب ملزم للت مودی کی حمایت پر نیز مہاراشٹر میں بی جے پی کے ۲؍ وزراء پر لگنے والے الزامات پرمکمل خاموشی اختیار کرکے وہ ایک طرح سے پارلیمنٹ کے تعطل کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے میں ۲۵؍ اراکین پارلیمنٹ کی معطلی نے یہ بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ کیا مرکز میں ’گجرات ماڈل‘ نافذ کیاجارہا ہےجہاں مودی کے دور میں اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کی معطلی معمول کی بات تھی۔

 وزیر اعظم نریندر مودی
وزیر اعظم نریندر مودی

عاصم جلال
۲۰؍ مئی ۲۰۱۴ء کو پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ داخل ہوتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے جس جذباتی انداز میں سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکاتھا اور پھر منتخب اراکین سے خطاب کرتے ہوئے جس طرح آبدیدہ ہوگئے تھے اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ جمہوریت کا مندر کہلانے والی پارلیمنٹ کا ایسا قدر دان وزیراعظم وطن عزیز کو شاید اب تک نہیں  ملا تھا مگر ایسا لگتا ہے وہ سب کچھ میڈیا کیلئے تھا کیوں کہ اس کے بعد سے اب تک عملی طور پر پارلیمنٹ کی قدر دانی کہیں نظر نہیں آتی۔ پارلیمنٹ کی قدر تو یہ ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی کارروائی بلا روک ٹوک جاری رہے، ملک کو پیش آنے والے مسائل پر بحث و مباحثے ہوں  اور ان کے حل نکالے جائیں نیز ضروری قوانین پیش اور پاس کئے جائیں مگرایسا نہیں ہورہا ہے۔ کبھی حکومت اہم مسائل پر پارلیمنٹ میں مباحثے سے پہلے ہی اپنے فیصلے سنادیتی ہے تو کبھی کسی قانون کو نافذ کرنے کیلئے پارلیمنٹ  سے اسے منظور کرانے کے بجائے آرڈیننس کا چور دروازہ استعمال کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین نے اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو اور ملک کو کسی قانون کی انتہائی عجلت میں ضرورت ہوتو حکومت آرڈیننس کے ذریعہ ۶؍ ماہ کیلئے قانون نافذ کرے اور پھر اسے پارلیمنٹ سے منظور کرالے مگر تحویل اراضی بل پر پارلیمنٹ کے اس اختیار کویکسر نظر انداز کیاگیا اور آرڈیننس میں ۴؍ مرتبہ توسیع کرکے اسے نافذ کیاگیا۔ یہ شاید پارلیمنٹ کی سب سے بڑی توہین ہے۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ کل اپوزیشن میں  رہتے ہوئے بی جے پی جن الزامات میں یو پی اے سرکار کو گھیرتی تھی،اسی طرح کے الزامات کا سامنا آج اسے خود کرنا پڑرہا ہے۔ اس کی وزیر خارجہ سشما سوراج پر الزام ہے کہ انہوں نے آئی پی ایل گھوٹالے کے ملزم للت مودی جو ہندوستانی قانون کے مطابق بھگوڑےہیں،کی لندن میں سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کی۔ بی جے پی کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا پر للت مودی کے حق میں برطانوی حکومت کو حلف نامہ دینے کا الزام ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر للت مودی کو اچھے کردار کا حامل قراردیتے ہوئے برطانیہ میں انہیں  پناہ دینے کی وکالت کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کو اس پناہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ وہ اپنے ملک ہندوستان میں گرفتار کئے جاسکتے ہیں۔ بی جے پی کی ہی اقتدار والی ریاست مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالے میں یکے بعد دیگرے متعدد اموات نے پورے ملک کو چوکنا اور فکر مند کردیا ہے مگرمرکزی حکومت ریاست کے وزیر اعلیٰ کی جوابدہی طے کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں ۲؍ وزراء پر بدعنوانی کے الزامات عائد ہوچکے ہیں مگر وزیراعظم نریندر مودی ہیں کہ اپنی چپی توڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کبھی منموہن سنگھ کو ’مون ‘ موہن سنگھ کہنے والے نریندر مودی بھی اب ’مون‘ ہوچکے ہیں۔
جس پارلیمنٹ  میں پہلی بار داخل ہوتے ہوئے انہوں نے ماتھا ٹیکا تھا اس کی کارروائی اپوزیشن کے بغیر چل رہی ہے مگر شاید انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل جب کارروائی کو ٹھیک طرح سے چلانے کیلئے آل پارٹی میٹنگ ہوئی تو اس سے بھی وزیراعظم غائب تھے۔ کارروائی شروع ہونے کے بعد کانگریس کے احتجاج پر بھی وہ خاموش ہی رہے۔ پھر اپوزیشن کے ۲۵؍ اراکین پارلیمنٹ کو معطل کردیا جاتا ہے مگر ان کی خاموشی برقرار ہے۔ اب تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ وزیراعظم کی سطح پر پارلیمنٹ کی کارروائی کو معمول کے مطابق چلانے کیلئے کوئی کوشش ہوئی ہو۔
عالم یہ ہے کہ اپوزیشن چیخ رہا ہے، میڈیا چلّا رہا ہے، پارلیمنٹ کا پورا اجلاس تعطل کا شکار ہونے پر مباحثے ہورہے ہیں، عوام مضطرب ہیں مگر وزیراعظم کی خاموشی برقرار ہے۔ انہیں جب اپنے ’من کی بات‘ کرنی ہوتی ہے تو وہ ریڈیو کا رخ کرتے ہیں مگر عوام اور اپوزیشن کے اراکینِ پارلیمان جو عوام کے ہی نمائندے ہیں، کے من کی بات سننے کیلئے وہ آمادہ نظر نہیں آتے۔ کچھ لوگ اسے ان کی حکومت کی رعونت اور گھمنڈ کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو کچھ اس نتیجے پر بھی پہنچ رہے ہیں کہ بی جے پی خود نہیں چاہتی کہ پارلیمنٹ کی کارروائی چلے۔کانگریس کے ۲۵؍ اراکین پارلیمان کی معطلی کو ایک طبقہ ’گجرات ماڈل ‘ کو مرکز میں  نافذ کرنے کی سعی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔کانگریس کا دعویٰ ہے کہ نریندر مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ  تھے تب وہ وہاں شاذ ونادر ہی کسی مباحثے میں حصہ لیتے تھے۔ حدتو یہ ہے کہ انہوں نےگورنر کے خطبے کے بعد تحریک شکریہ پر بھی کبھی ایوان سے خطاب نہیں کیا۔ وہ اکثر اُن وزارتوں  کے تعلق سے پوچھے گئے سوالات کا بھی اسمبلی میں  جواب نہیں  دیتے تھے جن کے قلمدان ان کے پاس ہوتے تھے۔ وہاں اسمبلی کی کارروائی سال میں  ۲۳؍ دن سے زائد نہیں  ہوتی تھی اور وہ بھی اس مجبوری کے تحت کہ آئین کے مطابق ہر ۶؍ مہینے میں اسمبلی کا اجلاس ناگزیر تھا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن کے اراکین کو معطل کرنا اوران کی غیر موجودگی میں اہم قوانین کو منظور کرالینا وہاں عام بات تھی۔
جولوگ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ حکومت خود نہیں چاہتی کہ ایوان کی کارروائی چلے، ان کی دلیل یہ ہے کہ پارلیمنٹ اجلاس شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جب ایوان کی کارروائی نہ چلنے دینے کے معاملے میں کانگریس پر تنقیدیں ہونے لگیں اور سماجوادی اور دیگر پارٹیوں نے ایوان میں  مباحثے کی اہمیت کا حوالہ دیاتو کانگریس بھی تعطل ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگی تھی مگر عین اسی وقت کانگریس کے وزرائے اعلیٰ پر بدعنوانیوں  کے الزامات عائد کرتے ہوئے معاملے کو گرما دیاگیا اور سونیا گاندھی کی پارٹی کو سخت موقف اختیار کرنا پڑا۔
جو طبقہ حکومت کے رویے کو اس کے گھمنڈاور غرور کے طور پر دیکھ رہا ہے اس کے مطابق حکومت اب سشما سوراج، ویاپم اور دیگر معاملات پر بحث کی بات کررہی ہے حالانکہ وزیر داخلہ پہلے ہی بڑی رعونت سے یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ یوپی اے نہیں این ڈی اے حکومت ہے، اس میں استعفے نہیں ہوتے۔ ایوان کی کارروائی شروع ہونے کے بعد پارلیمانی وزیر وینکیا نائیڈو بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’مرکزی وزراء یاریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی حرکت سرزد نہیں ہوئی ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ پارلیمانی امور کے وزیر کسی تفتیش کے بغیر کیسے سب کو کلین چٹ دے سکتے ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ جن وزراء پر داغ لگ گئے ہیں انہیں  ہٹا کر غیر جانبدارانہ جانچ کو راہ دی جاتی اور پھر اگر وہ بے قصور ثابت ہوجاتے تو پوری شان کے ساتھ انہیں  ان کے عہدوں پر بحال کردیا جاتا مگر انکوائری سے ہی بچنے کی کوششیں کچھ اور بیان کررہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی خاموشی توڑیں، اپوزیشن کے لیڈروں سے گفتگو کریں،انہیں اطمینان دلائیں اور پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے جو چند دن بچے ہیں ان میں کچھ کام کاج کو یقینی بنالیں مگر شاید ایسا نہ ہو۔ ممکن ہے کہ کانگریس کو احتجاج کی وجوہات فراہم کرنے کے پیچھے یہ حکمت عملی ہوکہ عوام کے ذہنوں سے ویاپم جیسے انتہائی خونیں گھوٹالے کو محو کیا جاسکے اوراس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی جائے کہ کانگریس پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چلنے دے رہی۔ بہرحال یہ حکومت کی رعونت ہو یا کوئی سوچی سمجھی حکمت عملی ، اس کا خمیازہ اسے ضرور بھگتنا پڑے گا کیوں کہ عوام اب اس سحر سے باہر آنے لگے ہیں جس کے زیر اثر انہوں نے بی جے پی کو واضح  اکثریت دے دی تھی۔n

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *