جنگِ آزادی میں مسلمانوں کی شہادت اور میوارام کی گواہی

جشن آزادی پر ممبئی کے سی ایس ٹی اسٹیشن کی بلڈنگ کا منظر جسے ترنگے سے مزین کیا گیا ہے(تصویر معیشت)
جشن آزادی پر ممبئی کے سی ایس ٹی اسٹیشن کی بلڈنگ کا منظر جسے ترنگے سے مزین کیا گیا ہے(تصویر معیشت)

ندیم صدیقی
اخبار کے دفتر میں دروازے کے پاس ہم بیٹھتے تھے۔ ایک دن ، ایک معمر تر بزرگ شخص سَر پر ٹوپی ،قمیص اور اس پر جاکیٹ(صدری) پہنے لاٹھی ٹیکتے بالکل آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر آئے اورہماری طرف بڑھنے لگے ، جب وہ قریب آگئے تو ہم اپنی نشست سے اُٹھّے اور ان کو اپنی کر سی پر بیٹھنے کی گزارش کی ،وہ شکریہ کہہ کر بیٹھ گئے۔ ہانپ رہے تھے لفظ شکریہ بھی ان کے منہ سے کچھ دیر میں دِھیمے لہجے سے نکلا۔ ہم نے ان کی آمد کا سبب پوچھا تو انہوں نے اپنے تھیلے سے ایک کتاب نکالی اور ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کتاب پرآپ کے اخبار میں تبصرہ چاہتا ہوں۔ ہم نے کہا: بزرگوار! اس حالت میں یہ زحمت کیوں کی ، ڈاک سے بھجوا دیتے…
بزرگوار کا جواب:” میاں! تبصرے کی طلب ہمیں تھی لہٰذا ہماری تہذیب کا تقاضا ہے کہ ہمیں خود چل کر آنا چاہئے۔” ہم نے پوچھا : کہاں قیام ہے؟ جواب: میرا بیٹا ایر انڈیا میں کام کرتا ہے اسی کے گھر پر کالینا(سانتا کروز) میں ہوں۔ ہم نے اُن کو چائے کی پیش کش کی تو نہایت خندہ پیشانی سے انکار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ’’صاحبزادے !چائے پیتا ہی نہیں ۔‘‘ کچھ باتیں ان سے اور بھی ہوئیں جن کا ذکر آگے آئے گا …اور پھر محترم اُٹھّے اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے سیڑھیاں اُتر گئے ۔۔۔ ہم نے کتاب کی ورق گردانی کی ۔ کتاب کا نام تھا: ’’ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمان مجاہد ین‘‘
جوبزرگ چند منٹ پہلے دفترکی سیڑھی اترے تھے وہی اس کتاب کے مصنف تھے ان کا نام نامی اسم گرامی میوا رام گپت سٹوریا تھا۔۔۔ اس واقعے کو کوئی دو دہے تو گزر گئے ہونگے مگر نہ تو میوا رام گپت جی کا نام ہمارے ذہن سے محو ہوا اور نہ اُن کی کتاب۔ ہم نے اُن سے تھوڑی دیر کی اس ملاقات میں جو سوال کیا تھا وہ اور ان کا جواب بھی ابتک ذہن میں ہے کہ شریمان جی!اس موضوع پر کام کرنے کا خیال آپ کے ذہن میں کیوں کر آیا؟ میوا رام جی کا جواب : ’’ ہم نے اور ہمارے بزرگوں نے دیش کی آزادی کیلئے اپنا خون بہایا ہے اور یہ خون ہندوؤں اور مسلمانوں کا نہیں تھا یہ وطن سے محبت کرنے والوں کا خون تھا۔ اب جو کچھ گزشتہ چند برسوں سے ہم اپنے آزاد ملک میں دیکھ رہے ہیں ۔ ان حالات میں خیال گزرتا ہے کہ کل(مستقبل میں) ہمارے بچے اپنے بزرگوں کی ان قربانیوں سے کہیںبے خبر نہ رہیں،لہٰذا ہم سے جو ہوسکا محبت میں‘‘
یہ کہہ کر وہ خموش ہوگئے تھے مگر ان کے چہرے پر اطمینان کا ایک گہرا تاثر اس بات کا مظہر تھا کہ جیسے انہوں نے اپنا کوئی فرض ادا کر دیاہے۔ یہ کتاب حقیقتاً ایک تاریخ ہے اعداد و شمار کے ساتھ کہ ملک میں کہاں کہاں آزادی کے حصول کیلئے مسلمان شہید کیا گیا۔ آج کے فرقہ وارانہ ماحول میں اس کی اہمیت زیادہ ہے بلکہ یہ تاریخ ،وقت کی ضرورت بن گئی ہے۔ اگر یہ کتاب کسی مسلمان کی تصنیف ہوتی تو شاید اس پر ہمارے فرقہ پرست کوئی بھی الزام دھر کے کنارے کر سکتے تھے مگر اسکے مصنف ہیں میوارام گپت سٹو ریا۔ ان کی ایک کتاب ’’شہید ِوطن اشفاق اللہ خان‘‘ بھی ممبئی ہی سے آٹھویں دہائی میں علوی بک ڈپو( محمد علی روڈ) سے شائع ہو چکی ہے۔ یہ سطریں لکھتے وقت ہمیں اچانک جاں نثار اختر بھی یاد آئے۔ مرحوم جاں نثار نے بھی دو جِلدوں میں ضخیم ایک کتاب ’’ہندوستان ہمارا‘‘ مرتب کی تھی۔ اس میں اُردو شاعروں کی نمائندہ نظمیں ہیںجو صرف حب الوطنی پر مبنی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کتاب کا ہندی ہی نہیں ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو اور شائع ہو جس سے آنے والوں کو معلوم ہو اُردو زبان اور اُسکے اہل قلمِ حب الوطنی کی کیسی کیسی مثالیں پیش کر چکے ہیں۔ اس کام کی تحریک جاں نثار کے سپوت جاوید اختر کیلئے مشکل نہیں اگر وہ چاہیں تو نیم سرکاری اداروں کے ذریعے یہ کام بہ آسانی ہو سکتا ہے…
آج 68واں یومِ آزادی ہے اس موقع پر ہمیں موصول ہونے والی ڈاکٹر شیخ صدیق محی الدین کی ایک کتا ب’’ قومی یکجہتی اور اُردو نظم‘‘ نے ہمیں یہ ساری روداد لکھنے پر اُکسایا۔ امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی کے اِیسوسی ایٹ پروفیسر شیخ صدیق محی الدین کی یہ کتاب ایک مقالے پر مبنی ہے جس میں بقول مصنف: ’’اس مقالے میں اُردو نظم کے حوالے سے قومی یکجہتی کے تصور کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ یہ کتاب پانچ ابواب پرمشتمل ہے۔ جس کے عنوانات یوں ہیں:
1۔ قومی یکجہتی اور اُردو تخلیق و تجزیہ،2۔ اُردو نظم میں قومی یکجہتی آغاز سے مولانا حالی تک،3۔ اقبال اور اُنکے معاصرین کی نظم نگاری اور قومی یکجہتی4۔ ترقی پسند تحریک کے تحت اُردو نظم اور قومی یکجہتی، 5۔ جدید اُردو نظم اور قومی یکجہتی… اس دور میں جبکہ ہمارے اکثرلکھنے والوں میں علم سے زیادہ ، شہرت کی ہوس عام ہے، ایسے میںپروفیسر شیخ کی یہ کتاب علمی نوعیت کی حامل ایک نظیر بن گئی ہے۔ ان کے تئیں ہمارے دل میں احترام و وقار کا پیدا ہونا فطری امر ہے اور یہ بھی یقین ہے کہ وہ تاریخ سے بھی داد پائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *