یہ ۔12 روپئے میں کفن نہیں انشورنس۔کا تتمہ ہے

عالم نقوی
عالم نقوی

عالم نقوی
یہ ۔12 روپئے میں کفن نہیں انشورنس۔کا تتمہ ہے ۔ ہم نے مذکورہ کالم کے اختتام پر مشتاق احمد یوسفی اور سکندر احمد کی طرح امورِ مالیات FINANCIAL MATTERS کے ماہر بینکر ،دانشور اہل قلم اور شاعر رشید افروزکے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ کہیں کوئی غریب و مجبور مزدور بیمے کے دو لاکھ روپئے حاصل کرنے کے لیے خود ہی اپنے جسمانی اعضا کٹوانے کا فیصلہ نہ کر لے ۔اور معاوضے کی خاطر کہیں اپنے ہی اپنوں کی جان کے گاہک نہ بن جائیں ۔ ادھورا کام ۔اسی شرم ناک ،افسوسناک اور عبرت ناک صورت حال کا افسانوی بیان ہے جسے اردو کے مقتدر و معتبراور صدی کے دس بڑے افسانہ نگار وں میں سے ایک سید ظفر ہاشمی نے 12روپئے سالانہ پریمیم والی پر دھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا کے اعلان سے 32سال قبل تحریر کیا تھا ۔ گلبن کے جون 1983 کے شمارے میںاپنی اشاعت اول کے بعد جو لائی اگست 2015کے شمارے میں اس افسانے کی اشاعت دوم اسی لیے عمل میں لائی گئی ہے اور ہم آج اس کو اپنے کالم کا جزو اسی لیے بنا رہے ہیں کہ ہم سب اپنی مقدرت بھر عوام کو سیاست اور زندگی کی کریہہ سچائیوں سے روبرو کرا سکیں ۔
رشید افروز نے بالکل درست لکھا ہے کہ سید ظفر ہاشمی نے اس افسانے میں مل مزدوروں کی زندگی ،اُن کی غربت ، اُن کی نجی ضروریات ، بے حد کم تنخواہ اور ادھورے خوابوں کی دنیا کو بڑی فنکاری کے ساتھ قلم بند کیا ہے ۔ کہانی کے دو مرکزی کردار ہیں کریم اور جُمًا ۔کریم ۔غربت ،تنگ دستی استحصال کے شکار عام آدمی کی علامت ،اور جُمًا اسی سماج میں عیاری مکاری ، منافقت اور ہمہ تن خود غرضی میں مبتلا کردار کی علامت ہے جن سے عام آد می کا سابقہ آئے دن پڑتا رہتا ہے ۔ جُمًا نے مل کے رشوت خور بابو اور ڈاکٹر کے علاوہ انشورنس کمپنی کے مکار ایجنٹ اور راشی ڈاکٹر کی مدد سے مل میں ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ مزدور معاوضے کی لالچ میں آکر خود ہی اپنا ایکسی ڈنٹ کروانے اور اپنے اعضا کٹوانے پر آمادہ ہو جاتے ہیںتاکہ وہ ایسیڈنٹ بیمہ کی رقم حاصل کر سکیں جو صرف حادثے ہی کی صورت میں مل سکتی ہے ۔ ادھورا کام میں جہاں اپنے آپ سے اُلجھتے ،لڑتے ،جھگڑتے کریم کی اندرونی کشمکش نہایت موثر انداز میں بیان کی گئی ہے وہیں شاطر عیار فریبی اور مکار جُما اور اس کے گروہ کی سازشوں کا بیان بھی اپنے کمال پر ہے ۔ ادھورا کام عام آدمی کو اُن کڑوی سچائیوں سے آگاہ کرنے کا کام کرتا ہے جو اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور جن سے بچ نکلنا اُن کے علم کے بغیر ممکن نہیں ۔
ـ۔۔کریم نے ٹٹول کر کرتے کی جیب سے بیڑی اور دوسری جیب سے ماچس نکالی ۔۔۔اسے یاد آیا کہ داہنے ہاتھ کا انگوٹھا تو اس نے کٹوادیا ہے ۔اس نے ماں کی گالی دی ۔پتہ نہیں یہ گالی اس نے کس کو دی تھی ۔(شاید جما کو ) جس نے ورغلا کر اس کا انگوٹھا کٹوا دیا تھا اور مل سے معاوضے کے طور پر سات ہزار روپئے دلوائے تھے ۔ اور خود جما نے بیچ میں کمیشن کے تین ہزار روپئے مار دیے تھے ،جس میں اس کے علاوہ بیمہ کمپنی کا ڈاکٹر ،مل کا بابو اور انگلی کاٹنے والا سرجن بھی شریک تھے جو بغیر ڈکار لیے ہی ہضم کر گئے تھے کہ ان کا تو معمول ہی یہی تھا ۔ مگر کریم کو انگوٹھا کھونے کا دکھ تھا ۔ اس نے نفرت سے جُمًا کو یاد کیا ۔جو اب بھی اسے پورا ہاتھ کٹوانے کے بدلے میں پچاس ہزار روپئے کے معاوضے کے جال میں پھنسانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ۔ ۔۔۔وہ سوچتا رہا کیا جُما کی بات میں وزن نہیں ؟ اور با لآخر اس نے ۔۔جھولتی آستین کے تصور سے سمجھوتہ کر ہی لیا کہ پچاس ہزار روپئے بہر حال ایک بہت بڑی رقم تھی جو اسے کسی اور طرح یکمشت کبھی نہ مل سکتی تھی ۔ ۔۔سارا کام بڑی تیزی اور خاموشی اور ہوشیاری سے ہوا ۔ ڈاکٹر نے جھٹ آپریشن کر ڈالا ۔ مِل کے بابو نے کاغذات تیار کر ڈالے ۔بیمہ کے ڈاکٹر نے یہاں وہاں جہاں کہیں بھی دستخط کی ضرورت تھی ،کردی ۔اور اب اس بات کا انتظار تھا کہ کریم ٹھیک ہو کر اسپتال سے واپس جائے تو معاوضے کی رقم ادا ہو اور انہیں ان کا حصہ ملے ۔ مگر جس دن کریم کو اسپتال سے چھٹی ملی اسی روز مل بابو نے بتایا کہ سرکار کا نیا آرڈر آیا ہے کہ ایک ہاتھ کٹنے پر معاوضہ یکمشت نہیں ملے گا بلکہ دو سو روپئے ماہوار ادا کیے جائیں گے ۔جُما نے ،جو کریم کو پکڑا کر اس کے گھر لے جا رہا تھا گھبرا کر اسے چھوڑ دیا اور وہ دھڑام سے پختہ فرش پر گر کر بے ہوش گیا ۔ مل بابو نے کریم کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے جُما سے اپنی گفتگو جاری رکھی اور کہا کہ ساتھ ہی سرکار نے یہ آرڈر بھی نکالا ہے کہ اگر دونوں ہاتھ کٹ جائیں تو ایک لاکھ روپئے یک مشت ادا کر دیے جائیں گے ! جُما نے بے ہوش کریم کو اٹھا کر دوبارہ اپنے کندھے پر لادا اور اسپتال کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا مل بابو سے بولا ۔۔ ٹھیک ہے ۔ تم پرانے کاغذات پھاڑ ڈالو اور نئے کاغذات تیار کرو ۔ میں جب تک ۔ادھورا کام ۔پورا کرواتا ہوں !
(یہ افسانہ دو ماہی گُل بُن کے تازہ شمارے جولائی اگست 2015میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ رابطے کا نمبر 9450448804اور ای میل آئی ڈی gulbunluck@gmail .com ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *