نفرت کی بنیادوں پر محبت کے محل کی تعمیر ناممکن

Modi Nawaz meet

حفیظ نعمانی

جب کسی دوسرے ملک میں ہندوستان کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیر اعظم کی ملاقات ہوتی ہے تو اُن کے ساتھ فوج کے سربراہ نہیں ہوتے۔ اس وقت وہ دونوں دو دو قدم آگے بڑھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ دونوں کو آپس میں خوشگوار تعلق رکھنا چاہئیں اور اس کے لئے سرکاری سطح پر مذاکرات بھی ہوتے رہنا چاہئیں۔ لیکن جب تاریخ طے ہوجاتی ہے اور پاکستان کے خارجہ سکریٹری سرتاج عزیز بریف کیس میں کاغذات رکھنے لگتے ہیں تو انہیں ہدایت دینے کے لئے کہ انہیں کس مسئلہ پر کیا کہنا ہے اور کس بات کا کیا جواب دینا ہے اور وہاں جاکر حکومت کے ذمہ داروں کے علاوہ کس کس سے ملنا ہے؟ تو اس وقت وزیر اعظم بھی ہوتے ہیں، وزیر خارجہ بھی اور فوج کے سربراہ بھی۔ جبکہ ہندوستان میں ایسی کسی میٹنگ میں وزیر دفاع کو بھی شریک نہیں کیا جاتا۔
ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ کسی تیسرے ملک میں جب پاکستانی وزیر اعظم ہندوستان کے وزیر اعظم سے ملتے ہیں تو وہاں حافظ سعید کی مکروہ آواز بھی نہیں آرہی ہوتی جسے پاکستان کے ان مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے جو جاہل ہیں اور جو اپنی بدکرداریوں اور بداعمالیوں کے باوجود جنت میں جانا چاہتے ہیں اور حافظ سعید انہیں جنت میں جانے کا آسان راستہ دکھاتا ہے کہ ہندوستان کی سرحد میں داخل ہو اور گولیاں برساتے ہوئے اور ہندوئوں کو مارتے ہوئے بڑھتے چلے جائو یہاں تک کہ کسی کی گولی سے تم بھی مرجائو اور وہاں سے سیدھے جنت میں چلے جائوگے۔
وزیر اعظم ہوں، وزیر خارجہ یا داخلہ ہوں یا فوج کے سربراہ سب داڑھی منڈے انگریزوں جیسی صورتیں، ان کا جیسا ہی لباس اور ان کی زبان میں ہی گفتگو ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں حافظ سعید اظہر مسعود انتہا یہ کہ لکھوی کی صورت شکل داڑھی سر کے بال لانبا کرُتہ اونچا پیجامہ اور تقریر میں قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ جو علماء کی یا اماموں کی پہچان ہے تو سوچئے کہ ناسمجھ اور جاہل مسلمان جنت اور دوزخ کے مسئلہ میں نواز شریف کی مانیں گے یا سعید کی؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان ٹی وی کے ایک نمائندہ نے حافظ سعید سے ان کے گھر جاکر انٹرویو لیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ہم نے نہ حکومت کے کہنے سے ہتھیار اٹھائے ہیں اور ہم نہ اُن کے کہنے سے ہتھیار رکھیں گے۔ اس کے بعد کس کی طاقت ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے اور کون ہے جو ہندوستان پاکستان کے مذاکرات کو کامیاب بنا سکے؟
بات صرف پاکستان کی ہی نہیں ہے ہندوستان میں بھی اشوک سنگھل، ڈاکٹر پروین توگڑیا، ساکشی مہاراج اور اودھو ٹھاکرے وہ ہیں جن کے پیچھے ہندو آنکھ بند کرکے چلتے ہیں اور یہ بھی ایسے ہی ناسمجھ اور جاہلوں کا طبقہ ہے جیسے پاکستان میں مسلمانوں کا۔ اور ہندوستان میں یہ آج نہیں نہرو کے زمانہ سے ہیں جب اُن کی پوری طاقت لگانے کے باوجود پرشوتم داس ٹنڈن کانگریس کے صدر بن گئے تھے اس کی وجہ یہی تو ہے کہ ملک تقسیم جاہل مسلمانوں اور جاہل ہندوئوں کی وجہ سے کرنا پڑی اور بنیاد میں صرف نفرت کے پتھر رکھے گئے۔
ہند پاک مذاکرات میں کشمیر کی حریت کانفرنس کو اہمیت دینا اور پاکستان کی یہ ضد کہ وہ بھی ایک فریق ہیں، صرف اس وجہ سے ہے کہ حافظ سعید کی عوامی مقبولیت سے وہ خوفزدہ ہیں۔ نواز شریف دنیا کو تو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں لیکن انہیں اس کا خوف ہے کہ وزرائے خارجہ یا وزیر اعظم کی سطح پر جب بات آئے گی تو کوئی بہت بڑا حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے انہوں نے مسئلہ کی دم پکڑلی ہے کہ یہ بھی مذاکرات میں ساتھ رہیں گے۔ ہم حریت کانفرنس کو کیا سمجھتے ہیں یا حکومت ہند کیا سمجھتی ہے؟ یہ بات قابل غور نہیں ہے۔ سب کو یہ دیکھنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا ہے اور کشمیری عوام کے نزدیک اُن کی حیثیت بس اتنی ہے جتنی ہندوستان اور پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی۔ حریت کانفرنس ہر الیکشن میں بائیکاٹ کا نعرہ دیتی ہے اور کشمیری عوام 75 فیصدی ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہ ووٹ فوج کی گولی یا پولیس کے ڈنڈے کی وجہ سے نہیں بلکہ انتہائی سخت سردی کے موسم میں اپنے جذبہ کے تحت دیئے گئے تھے۔ سب سے زیادہ مفتی کو اُن کے بعد عمرعبداللہ کو اس کے بعد کانگریس کو۔
حریت جب بازار بند کا نعرہ دیتی ہے تو بازار اس لئے بند ہوجاتے ہیں کہ چڑچڑے اور گھٹیا درجہ کے لوفر اُن کے ساتھ ہیں جن سے لوٹ مار اور آتش زنی کا خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر وہ الیکشن کے بائیکاٹ کا نعرہ دیتے ہیں تو پھر اس طرح لائن میں لگ کر ووٹ دیتے ہیں۔ جن حریت کے لیڈروں کی مقبولیت کا یہ حال ہو اُن کو مذاکرات کا حصہ بنانا پاکستان کی سیاست نہیں مجبوری ہے۔ ہندوستان یا کشمیر کی حکومت کیلئے یہ چند لیڈر اور ان کی غنڈہ فوج معمولی سا مسئلہ بھی نہیں ہیں لیکن نواز شریف اور ان کی حکومت کے لئے ان کی دہشت گرد تنظیمیں جن کو فوج کی پوری حمایت حاصل ہے ایسی نہیں ہیں کہ وہ ان کا حکم ٹال سکیں۔ جس وقت 26 مئی کو نواز شریف نے مودی کی تاجپوشی میں شرکت منظور کی تھی اس وقت سے ان کی واپسی تک حافظ سعید انتہائی غیرشریفانہ انداز میں نواز شریف کو ہزاروں کے مجمع میں دھمکی دیتے رہے اور حکومت دم سادھے سنتی رہی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اس کا علم نہیں کہ کون ہے جو حکم دیتا ہے کہ دونوں دوست بن جائو؟ اور کون ہے جس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس دن آگ اور پانی اتنے بے اثر ہوجائیں گے کہ پانی آگ کو ٹھنڈا نہ کرسکے اور آگ پانی کو گرم نہ کرسکے اس دن ہندوستان اور پاکستان بھی جگری دوست ہوجائیں گے۔ اسلام کا ایک رکن جہاد ہے اور کوئی بڑا یا چھوٹا مولوی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ تسلیم کرتا ہو کہ وہ مسلمان جو اللہ کے دین کو پھیلانے یا دین کو مٹانے کے لئے آنے والوں سے لڑتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے یعنی مرتے ہی جنت میں داخل ہوجائے گا۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ دین کی اشاعت یا دین کی حفاظت کی تفصیل میں اختلاف ہو اور پاکستان کی طرف سے آنے والے لڑکے وہی ہیں جنہیں خود تو کچھ معلوم نہیں انہیں وہ عالموں کا مکھوٹا لگائے ہوئے اور ان کے جیسے ہی کپڑے پہنے ہوئے جو بتا دیتے ہیں کہ ہندوستان میں گھس کر ہندوئوں کو مارتے ہوئے مرجانا بھی جہاد میں شہید ہونا جیسا ہے۔ وہ حالات کے مارے خودکشی کرنے کے بجائے ہندوستان میں آکر شہید ہوجانا پسند کرتے ہیں اور وہ جہنم کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
حافظ سعید، اظہر مسعود اور لکھوی یہ پاکستانی مسلمانوں کے جتنے بڑے دشمن ہیں ان سے زیادہ بڑے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ نوید نام کا ایک دماغی مریض جیسا لڑکا ہندوستان کی پولیس کے ہاتھ میں ہے اگر صرف اس کا برا حشر ہوتا تو ہماری بلا سے۔ لیکن جس نے اسے ایک رات سونے کی جگہ دے دی، جس نے بھوکے کو کھانا کھلا دیا، جس کسی نے اسے پانی پلا دیا آج وہ سب دہشت گرد ہیں اور اب برسوں وہ عذاب جھیلیں گے۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا اکشردھام مندر میں گھسنا وہ داخل ہونے والے تو مرگئے لیکن بے گناہ افضل کو پھانسی دے دی گئی اور 6 معزز مسلمانوں کو مودی صاحب نے جیل میں برسوں تڑپایا۔
پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت وہ نہیں ہے جو ہندوستان کے وزیر اعظم کی ہے لیکن اس معاملہ میں دونوں مجبور ہیں کہ دونوں ملکوں میں حکومت میں بھی ہیں اور حکومت سے باہر بھی ایسے بہت ہیں جو ان کی دوستی کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی روزی روٹی بھی دشمنی میں ہی ہے۔ لال بہادر شاستری اور جنرل ایوب سے لے کر بھٹو اور اندرا گاندھی تک یا اٹل جی اور نواز شریف سے لے کر پرویز مشرف سے ہوتے ہوئے پھر نواز شریف تک ہر بار ایسا ہوا ہے کہ جب بات بننے کے قریب آتی تو کوئی دھماکہ ہوگیا۔ اور یہی آئندہ بھی ہوتا رہے گا جب تک کہ جرمن کی مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان کی دیوار جیسی حدوں کو کروڑوں عوام اپنے ہاتھ سے نہ گرادیں۔ کیونکہ یہ تقسیم بھی لیڈروں نے نہیں مسلمان اور ہندو عوام نے کی تھی۔ یہ یوروپی ملکوں کی تفریح ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر دونوں ملکوں میں جنگ کی نوبت آجاتی ہے تو نقصان ہندوستان کا زیادہ ہوگا۔ یہ صرف شرارت ہے لیکن اس شرارت کے انتہائی خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں یہ کوئی نہیں سوچتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *