غریبی و بے روزگاری:یورپ میں تارکین وطن کا سیلاب

ایرونوٹیکل انجینئر سید اسامہ میر اپنی والدہ ڈاکٹر شاہانہ میر کے ساتھ اپنے اسناد دکھاتے ہوئے(تصویر:معیشت)
ایرونوٹیکل انجینئر سید اسامہ میر اپنی والدہ ڈاکٹر شاہانہ میر کے ساتھ اپنے اسناد دکھاتے ہوئے(تصویر:معیشت)

دانیال رضا
حکمرانوں کی لوٹ مار اور نظام کی بربادی نے غریب عوام کو دربدر ک ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے جس کا اظہار یورپ میں چار اطراف سے آنے والے تارکین وطن کا منہ زور سیلاب ہے جیسے روکنے کی ہر کوشیش ناکام اور امید نامراد ہے۔
یورپین یونین کی سرحدی ایجنسی فرنٹکس کے مطابق گذشتہ صرف ایک ماہ کے دوران یورپ میں ایک لاکھ سات ہزار پانچ سو تارکین وطن یورپ میں داخل ہوئے ہیں اور روان سال کے دوران یہ تعداد ساڑھے سات لاکھ تک پہنچ جائے گئی جن میں زیادہ تعداد بلقانی اور شامی مہا جرین کی ہے۔ فرنٹکس کے ہی مطابق گذشتہ سال کی نسبت اس سال یورپ میں آنے والے مہاجرین کی تعداد ایک سو پچاس فیصد زیادہ ہے اس سال اب تک دو لاکھ چالیس ہزار لوگ بحرہ روم کو عبور کرکے یونان اور اٹلی کے ساحلوں پر پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے صرف ایک ماہ میں اکیس ہزار تارکین وطن یونان میں داخل ہوئے۔ فرنٹکس نے کہا ہے کہ کسی ایک یورپی ملک کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ ان تمام مہاجرین کو سمبھال سکے اس لیے ضروری ہے کہ ان کو تمام یورپین ممالک میں تقسیم کیا جائے۔ برطانیہ نے مہاجرین کو لینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ جبکہ ہنگری اور رومانیہ غریب ترین یورپی یونین کے ممالک ہونے کی وجہ سے مستثنی ہیں۔
چند ماہ قبل یورپی یونین نے بحرہ روم میں یورپی بحریہ کو مشترکہ فیصلے کے بعد متعین کیا تھا تاکہ مہاجرین کے یورپ میں داخلے کو روکا جا سکے جو اب تک زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا۔ سربیا کی سرحدوں پر بھی ہزاروں پولیس آفیسرز تعین کر دیئے گئے ہیں تاکہ تارکین وطن کا سیلاب روکا جاسکے۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں جرمنی کے لیے مہاجرین کو سمبھنا مشکل ہو گا جہاں سب سے زیادہ غیر ملکی آ رہے ہیں۔
جرمنی کی وزات داخلہ کے مطابق صرف ہمبرگ میں پچھلے ماہ ستاون ہزار افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں جبکہ بیڈن ورٹم برگ میں سات ہزار چھ سو پنسٹھ مہاجرین نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
جرمنی میں انیس سو بانویں میں بوسنیا کے بحران کی وجہ سے یہاں سیاسی پناہ تلاش کرنے والوں کی تعداد بلند ترین تھی جو ساڑھے چار لاکھ سے کم تھی لیکن اب یہ تعداد اس سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ اس سال کے شروع میں جرمن حکومت نے کہا تھا کہ رواں سال کے دوران مہاجرین کی تعداد چار لاکھ تک ہو سکتی ہے لیکن اب ان اعداوشمار کو درست کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سال مہاجرین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے بھی بڑھ کر ساڑھے چھ لاکھ تک ہو جائے گئی۔
جرمن احکام کے مطابق گذشتہ برس تارکین وطن کی تعداد تین اعشاریہ سات فیصد اضافے کے ساتھ گیارہ ملین تک پہنچ گئی ہے اور وفاقی دفتر شماریات کے مطابق جرمنی میں تارکین وطن کی یہ تعداد کل جرمن آبادی کا بیس فیصد ہے۔
گذشتہ سال جرمنی میں آنے والے تارکین وطن میں ایک اعشایہ پانچ ملین کا اضافہ ہوا جو دوہزار گیارہ کی نسبت دس فیصد زیادہ ہے۔دفتر شماریات کے مطابق تین اگست کو بتایا گیا کہ صرف یورپین یونین کے دیگر ممالک سے روز گار کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد چھ لاکھ بیس ہزار ہے۔
جبکہ دوسری طرف برطانیہ اور فرانس نے بھی مہاجرین کے سیلاب کے گرداب میں بری طرح پھنس چکے ہیں فرانس کا علاقہ کیلے جو برطانیہ کی سمندری سرحد پر واقع ہے کا بحران شدت اختیار کر تا جا رہا ہے کیلے جو فرانس کا ایک سرحدی ویران علاقہ ہے یہاں ایک ماہ میں ایک لاکھ سے زائد مہاجرین پہنچ چکے ہیں جیسے نیو جنگل(انسانوں کا) قرار دیا جا رہا ہے یہاں سے مہاجرین رات کو سمندر کے نیچے سے بنی غار،،یورپ ٹرنل،، کے ذریعے جو صرف ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے ہے برطانیہ میں داخل ہو رہے ہیں اس کے باوجود کہ اب تک کئی افراد اس سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں لیکن پیٹ کے جہنم نے زندگی کی اہمیت کا بہت کم کر دیا ہے۔برطانوی حکومت نے مہاجرین کے اس راستے کو روکنے کے لیے بے شمار پولیس متعین کی ہے اور سرحدی کنٹرول کو سخت ترین کر دیا ہے جس پر برطانیہ اب تک ایک کڑور پاونڈ تک خرچ کر چکا ہے اور فرانس سے اس کے حل کے لیے ایک معاہدہ بھی کیا ہے لیکن شاید بھوک سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں لڑ سکتی خود خدا بھی نہیں ، شاید اسی لیے کہا گیاکہ بھوک میں نماز بھی نہیں ہوتی۔
یورپ پر جنگ اور بھوک زدہ لوگوں نے یورپ کے چاروں اطراف سے دھوا بول دیا ہے۔افریقہ کے بھوکے عوام، مراکش کے سمندر کے زریعے سپین آتے ہیں اور ایشائی ممالک کے مہاجرین ترکی کے علاقے بودرم سے یونانی جزیرے کوس تک کا خطرناک سمندر ی سفر کمزور کشتوں پر کرتے ہیں ان دونوں راستوں پر ہر سال ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ سب کو معلوم ہونے کے باوجود لوگ یہ سفر کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ترکی سرحدی پولیس نے پچھلے ہفتے پانچ ہزا ر دوسو پچہتر افراد کو یورپ داخل ہونے سے پکڑااور آج بھی ہزاروں افراد بودرم میں یورپ ڈانکی لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
انسانوں کا یہ زمینی کرہ ارض آج اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ انسانی الیمیوں کا شکار ہے۔ ایک عالمی جنگ نہ ہونے کے باوجود دوسری عالمی جنگ سے زیادہ انسان مارے جا رہے ہیں اور تاریخی انسانی ہجرتوں کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔سامراجی عالمی طاقتوں نے اپنے سرمایے اور حکمرانی کے لیے ہر ملک کے عوام کو برباد کر دیا ہے۔افغانستان ،شام ، لیبا ، عراق جیتے جاگتے ملکوں کو کھنڈر بنادیا۔ اسلحے کی غیر انسانی دوڑ اور اسکی منڈی کے شرح منافع نے دنیا کو خون میں ڈبو دیا ہے۔بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں نے اپنے سرمایہ کے سود سے انسانوں کو اپنا غلام اور ملکوں کو اپنا ملازم بنا لیا۔بڑی بڑی اجادرہ دایوں نے چھوٹے کاروباروں کو حضم کر لیا۔ بڑی مچھلیوں نے چھوٹی مچھلیوں کو اپنی خوراک بنالیا ہے۔ اور یہی وجوہات ہیں آج کے ہر بحران کی اور اس زمینی کرہ ارض کے موت کی۔
یورپ میں آنے والے مہاجرین میں سب سے زیادہ تعداد مڈل ایسٹ کے عوام کی ہے جن میں شامی اور عراقی سر فہرست ہیں اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مڈل ایسٹ جو قدرتی وسائل سے مالا مار ہے آج یہی اس کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔امریکہ اور یورپی حکمران ان وسائل کو عرصہ دراز سے مسلسل لوٹ رہے ہیں اور آج زیادہ بے دردی اس خطہ کو لوٹ رہے ہیں۔مشرق وسطی کے تیل کی لوٹ مار کے لیے ہی امریکہ اور یورپ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد خلیج جن کی زبان لباس کلچر ایک ہے ، بڑی بے رحیمی سے کاٹ دیا، انکو چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں میں تقسیم کر کے ان پر اپنی حکمرانی کو مضبوط کیا اور اپنی لوٹ گھسوٹ کو یقینی اور مستقل بنایا۔ سامراجی مفادات کی بازیابی کے لیے ملٹری چھاونی اسرائیل کی شکل میں قائم کی۔مڈل ایسٹ کی دو بڑی طاقتوں ایران اور عراق کو آپس میں لڑا کر کمزور بیانا۔صدام کا عراقی تیل کو امریکی غلبے سے آزاد کرنے کے ارادے کی سزا امریکہ نے عراق کی مکمل تباہی اور بربادی میں دی۔ اور اب سعودی حکمران یمنی عوام کی سعودی سامراجی قبضے سے آزاد ی کی خواہش کو یمن میں بڑی بے دردی
سے کچل رہے ہیں۔ شام میں مغربی سامراجی طاقتوں کی لڑائی نے اسے اجاڑ دیا۔لیبیا کو اپنے ادھورے انقلاب کی سزا ملی۔ مڈل ایسٹ میں آج جہاں سامراجی تیل کی لوٹ مارکر رہے ہیں وہاں پر اپنے اسلحے کی بڑے پیمانے پر فروخت کر کے خوب منافعے بنا رہے ہیں۔ یہ خطہ اراضی تو برباد ہو رہا ہے لیکن امریکہ ، یورپ اور برطانیہ دونوں ہاتھوں سے کما رہے ہیں اور سرمایہ داری میں سب سے اہم اور بنیادی شے کما ئی کمائی اور پھر کمائی ہی ہوتی ہے انسان اور سماج نہیں۔ اس لیے مڈل ایسٹ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا بلکہ دن بادن زیادہ درد ناک اور خونی ہوتا جا رہاہے۔ شامی فوج کے پاس بھی روسی، امریکن اور یورپی ہتھیار ہیں اور داعش کے پاس بھی اور سعودی عرب کے پاس بھی وہی اسلحہ ہے اور تواور پاکستان بھی اب اس خون ریزی سے کمائی کر رہا ہے اور خوب اپنا اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔
ترکی حکمران ترقی پسند کردوں کی تحریک سے خوف زدہ ہو کر پس پشت داعش کی سپورٹ کر رہے ہیں اور داعش کو یہ معلوم ہے کہ ترکی اپنی کمزوری کی وجہ سے ہماری حمائت کر رہا ہے اس لیے انہوں نے ترکی سرحدوں پر بھی حملہ کر کے اپنی مصنوعی طاقت کا اظہار کیا۔ جس سے ترکی کا بنیاد پرست رجعتی حکمران طبقہ جس کی قیادت اردگان کر رہا ہے چکی کے دو پارٹوں میں پس رہے ہیں جو انکی بے بسی اور شکست کی علامت ہے۔ مغربی حکمرانوں کو صدام اور قدافی کی انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نظر آگئی لیکن آج داعش اور سعودی عرب کی وحشت اور بربریت نظر نہیں آرہی۔
نہ صرف مڈل ایسٹ بلکہ دہائیوں سے برباد افریقہ کے بعد آج ایشا اور خاص طور پر جنوبی ایشا بھی آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے۔جہاں انسانی ضروریات زندگی کا فقدان ہے ، سماج بربریت کی تصویر بن چکاہے۔ جہاں بنیاد پرستی کی جنونیت کا ننگا خونی ناچ ہے وہاں ان زخموں پر نوٹوں کی جمہوریت کا نمک چھڑکا جا رہاہے جو ان سماجوں کو ناسور بنا رہا ہے افریقہ سے ایشا تک اور امریکہ سے یورپ تک حکمران اور مالیاتی ادارے عوام کی بربادی ، مجبوری، بے بسی ، ناامیدی اور مذاہب کاری پر نوٹ بنا رہے ہیں اور پیسہ کما رہے ہیں۔
یورپ جو کھبی خوشحال ، پرامن، آزادی اور جمہوریت کا گہواہ ہوتا تھا آج ماضی کی ایف لیلوی کہانی نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف ، یورپی سنٹرل بینک اور یورپی حکمرانوں نے یورپی سرمایہ داری کی قبر یونان سے کھودنی شروع کر دی ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری میں سرمائے کی طاقت کی حرکت کے اپنے اصول اور قانون ہوتے ہیں جو ایک وقت میں انسانوں کی قوت سے بالا ہوجاتے ہیں اور یہ کسی کے بس میں نہیں رہتے سرمایہ اپنی طاقت سے سماج کو روند تا اور برباد کرتا ہے سرمایہ داری کو قائم رکھنے کے لیے پھر بھی ان پر عمل کرنا پڑتا ہے یہ جیتنے بھی بھیانک اور بے رحیم ہو جائیں۔ اس سرمایے کی خوفناک طاقت سے صرف اور صرف سرمایہ داری نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی نجات حاصل کی جا سکتی جو سماج اور انسان کی نجات ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *