
ہمـارے معـاشـرے مـیں اسـاتـذہ کــی اہمـیت
نئــی نســل کــی تعمیــر میـں اســاتذہ کا کـــردار
فیروز بخت احمد
یہ ہمارے بچپن کی بات ہے کہ جب ہم پرانی دلی کے تاریخی فصیل بذشیر شاہجہاں آباد کے علاقہ بارہ دری ،بلی ماران کی جانی مانی درسگاہ ’’تعلیمی سماجی مرکز‘‘(آجکل ’’عزیز میموریل اسکول‘‘) میں بہتر وبرتر تعلیم سے منصیاب ہورہے تھے۔ ہمارے اساتذہ میں اردو کے ایک استاد محترم ہوا کرتے تھے عزیزالرحمن کے نام سے وہ کثر یہ شعر ہماری جماعت میں دہرایا کرتے تھے:’’اے بھولے بھالے بچوں ،کہنابڑوں کا مانو/ سرپر بڑوں کا سایہ، سایہ خدا کا مانو!‘‘ بڑوں میں استاد بھی آتے ہیں اور استاد کا جتنا بھی احترام کیا جائے کم ہے۔ انسانی زندگی میں تعلیم کی بے حد اہمیت ہے۔ تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جوآدمی کو حیوانی جبلتوں اور حفلتوں سے پرہیز سکھاکر بہترین انسان بننے میں مدد کرتی ہے۔ درحقیقت زبان کے بعد تعلیم ہی انسان اور حیوان کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ آج کے ترقیاتی دور میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے یا یو کہئے کہ تعلیم انسانی زندگی کو مکمل بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچانے اور ان کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون ثابت و مدد گار ہوتی ہے تقیناً تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔
نظام ِ تعلیم ایک تعلیم یافتہ مگر کافی حد تک بے کردار نسل تیار کررہاہے۔ اس کڑوی سچائی کا اعتراف ہروہ شخص کرے گا جوبہت قریب سے اس کا مشاہدہ کرتاہو۔تاہم بطور ثبوت ہم ایک بالغ نظرمفکر اور تعلیم داں جناب بلال احمد مرحوم لدھیانوی کی تخلیق کردہ کتاب ’’احباب چمن سے ایک پرندے کی فریاد‘‘کا کچھ اقتباس دیتے ہیں تاکہ اس بات کا علم ہوکہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے:’’آج کے دور کی تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر خالی ہے ہی، مگر غضبیہ ہے کہ وہ ہمارے یہاں کے نوجوانوں میں وہ بنیادی انسانی اخلاقیات تک پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار،زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ لہٰذا سچائی تو یہ ہے کہ اس کے زیراثرورش پاکر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں وہ مغربی قوموں کے عبوب سے تو ماشااللہ پوری طرح آراستہ ہیں مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی۔ ان میں نہ تو فرض شناسی ہے ،نہ مستعدی و جفاکشی، نہ ضبط اوقات ،نہ صبروثبات، نہ عظم واستقلال،نہ باقاعدگی و باضابطگی،نہ ضبط نفس، نہ اپنی ذات سے بالاتر کسی چیز کی وفاداری اونہ ہی بڑوں کی عزت ۔ وہ بالکل ان خود رو درختوں کی طرح ہیں جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی قومی کردار بھی ہے۔
اس طرح کی تعلیم سے آراستہ لوگوں کو معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیافتی اور بدکرداری کے ارتکاب سے دریغ نہیں ہوتا۔ بدحال اور پریشان لوگوں سے بھی وہ پیسہ کھینچ لیتے ہیں۔ ان میں بدترین قسم کے رشوت خور،خویش پرور، سفارشیںکرنے اور سننے والے، ناجائز درآمد اور برآمد کرنے والے، انصاف اور قانون کا خون کرنے والے اور دوسروں کے حقوق پر چھری چلانے والے ایک دوکی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہر شعبہ زندگی میں ہر جگہ کام کرتے نظر آئیںگے۔کیا یہی تعلیم کی دین ہے؟
انگریزوں کے جانے کے بعد ملک کو چلانے کی ذمہ داری کا باراسی تعلیم کے تیار کئے ہوئے لوگوں نے سنبھالا ہے اور آج ۵۴ برس کے بعد ملک کی جوبدحالی ہے وہ سبھی کے سامنے ہے۔ اب آج جونسل موجودہ تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم ہے، وہ کہیں زیادہ بگڑی ہولی ہے اور ان بے سیرت طالب علموں کے اخلاق و کردار کا حال آپ جب چاہیں درسگاہوں، تفریح گاہوں،ہوسٹلوں اورملی وقومی تقریبات کے موقعوں پر ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔ آج کے والدین بیاہی جانے والی لڑکیوں کو یہ سکھاکر نہیں بھیجتے کہ ان کا شوہر،اس کی خدمت و اس کا گھر ہی ان کے لئے سب کچھ ہے۔ مگر ہوتاکیا ہے کہ آج کی نوبیاہتا نہ صرف اپنے شوہر سے معمولی سی باتوں پر زبان درازی کرتی ہے بلکہ اپنی ساس اور سُسر کو بھی نہیں بخشتی۔ اس کے خود کے ماںباپ بھی اسے شر دیتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر سے لڑے اور اسے نیچا دِکھائے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والدین کے گھر بیٹھ جاتی ہے اور دنیا میںجگ ہنسائی ہوتی ہے۔ مگر پُراہ کس کو ہے۔ اسی طرح سے آج کل کے لڑکے بھی کافی بگڑے ہوے ہیں۔ گھر میں وقت نہیں دیتے ، اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے اور کچھ دوز بعد گھر جہنم میں بدل جاتا ہے۔ آج کے دور میں گھر گھر کی یہی کہانی ہے۔‘‘ بلال صاحب مرحوم یہ بات بالکل صحیح ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہنارے اساتذہ حضرات اپنیا تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے۔ محضوکورس پورا کرادینا اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ لے لیناہی تعلیم کا مقصد نہیں ہے۔ تعلیم کا مقصد انسان کے کردار کو بلند و بالاکرنا بھی ہے۔ انگریزی میتدیم کی بہت سی مشہور درسگاہوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طبقہ طلبہ میں تو رئیس ذادے اور نواب زادے ہواکرتے ہیں اور اساتذہ حضرات درمیانی طبقات سے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے طالب علم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے استاد تو شاید فقیر ہیں جنہیں ہر ماہ چند ئکرئوں کی بھیک مل جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں اساتذہ حضرات کا یہ فرض بنتا ّہے کہ اپنے امیر طالب علموںکو اس بات کا درس دیں کہ اخلاقیات مادیات سے افضل وبرتر ہے۔ استاد چاہے بہت کم اور معمولی سی تنخواہ پر ہی چاہے مامور ہومگر اس کا احترام اہم ترین چیز ہے۔ آج کے مادیت کے دور میں نہ تو استاد اس بات کو طالب علموں کو سمجھاپاتے ہیں اور نہ ہی طلبأ سمجھتے ہیں۔
اس بات پر ہمیں خیال آتا ہے اپنی ایک اور نہایت ہی محترم استاد جناب عبدالمقتدر صاحب کا جن کا تعلق اینگلو عربک اسکول سے تھا۔ یہ اسکول شمالی ہندوستان کا سب سے قدیمی اسکول ہے جوتین سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے دہلی والوں کو تعلیم کی نعمتوں سے سیراب کررہاہے۔ مقتدر صاحب بڑے مزے لے کراکبرالہ آبادی کا یہ شعر پڑھا کرتے:-
’’تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا کہ ہدیہ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس ازسبق
کہتا ہے ماسٹرسے کہ بل پیش کیجئے!‘‘
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اخلاق و اقدار کا وہ نظام جس کا ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونا کسی قوم کی مذہبی اور ملی شناخت برقرار رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے، بالکل نظر اندازہوگیا ہے۔ ہماری علمی تاریخ میں استاد کی امتیازی شان یہ رہی ہے کہ وہ محضو اپنے علم ہی میں نہیں بلکہ اپنی سیرت و کردار اور اپنے تقویٰ میں بھی اعلیٰ مقام پرفائز ہوتا تھا۔ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی عمل شخصو کوعالم و معّلم کی حیثیت سے تسلیم ہی نہیں کیا۔اسلام کے تعور تعلیم میں اخلاق و کردار کی تربیت کو ہرگزحصول علم سے علیحدہ نہیں کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے نظام میں سیرت و کردار کی یہ تعلیم وہ اہمیت حاصل ہی نہ کرسکی جو اسے ملنی چاہئے تھی۔ اب علم محضو علم ہوتا ہے۔ اس کا سیرت و کردار سے واخلاقی تعمیر س بالعموم کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظام بہت حدتک ایک تعلیم یافتہ ضرورمگر بے کردار اور کچھ حدتک بدکردار نسل تیار کررہا ہے۔ فارسی کی کہاوت ہے : ’’پس چہ بایدکرد۔‘‘ اسکول کے ابتدائح زمانے سے ہی ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ طلبۂ وطالبات میںمظبوط سیدت کی بنیاد ڈالیں اور انہیں سکھائیں کہ ان کا عمل ان کے علم کے مطابق ہونا چاہئے۔ جس چیز کو وہ حق جاتیں،اس کی وہ پیروی کریںجسے فرض سمجھیں اسے اداکریں،جسے بھلائی جانیں اسے اختیار کریں اور جسے برائی سمجھیں یا سمجھایا جائے اس کو ترک کردیں ۔ تعلیم کے ابتدائی دور میں ہی ان کے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی جانب بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ یہ سب اساتذہ ہی کرسکتے ہیں۔لہٰذا حق گوئی، وقت کی پابندی،محنت،دیانتداری،سادگی،طہارت، لباس و ماحول کی صفائی معاشرے کی مطابقت سے باہمی محبت و عزت، قوم وملت کے مفاد کے لئے قربانی حسن سلوک خلق خدا کی خدمت اور اپنی آرأمیں اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ وغیرہ ہمارے نظام تعلیم کا طرہ امتیاز ہونی چاہئے۔ان اقداد کے حصول کے لئے ہمیں اپنی تعلیحم گاہوں تربیت گاہوں و گھروں میں اسلامی ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ یہ کام سوائے استاد کے کوئی دوسراانجام نہیں دے سکتا۔
ملّت کے مستقبل کی تعمیر میں استاد کی یہ اہمیت اس بات کی جانت اشارہ کرتی ہے کہ سب سے زیادہ ذہین لوگ ہی اس پیشہ کے اہل سمجھے جائیں۔معاشرے میںدرس و تدریس سے متعلق حضرات کے عزت واحترام کو بحال کرنے کی اشد ضرورت تو ہے ہی،محنت و جفاکشی کے ساتھ خدمت کرنے والے مدرسین حضرات کو بھی حسن کا رکردگی پر نوازنا چاہئے۔ سماجی و تعلیمی ادارے اس جانب توجہ دیں تو اچھا ہوگا۔(یو این این)