
یوروپی تارکین وطن کے مسئلے پر ہندوستان خاموش،اقوام متحدہ نے جگہ دینے کی وکالت کی

ممبئی : (معیشت نیوز )یورپ میں تارکین وطن کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہو تا جارہا ہے۔ جہاں اقوام متحدہ اور یورپی یونین اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہے وہیں ابھرتے ہوئے سوپر پاور ہندوستان کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے ۔پڑوسی ممالک سمیت دیگر لوگوں کی خبر گیری کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس مسئلے پر خاموش ہیں۔اس سلسلے میں ہندوستان کی معاشی راجدھانی ممبئی سے عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے ملک کی حکومتی پالیسی آزادی کے بعد سے ہی مسلم مخالف رہی ہے اور چونکہ مشرق وسطیٰ کے مصیبت زدہ لوگ مسلمان ہیں اس لئے ہماری حکومت خاموش ہے ‘‘۔انہوں نے مسلم لیڈرشپ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ دوسری وجہ مسلم لیڈر شپ کی کمی بھی ہے‘‘ ۔ دریں اثنا بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ نے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ’بڑے پیمانے پر رہائش کی تبدیلی کے پروگرام‘ کے تحت دو لاکھ سے زائد تارکینِ وطن کو اپنے ممالک میں جگہ دیں۔اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوتیریش کی جانب سے جمعہ کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں تارکینِ وطن کی آمد پر انھیں مناسب سہولیات دی جانی چاہییں۔انھوں نے مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا ہے۔ہنگری کی ایک ٹرین میں محصور تارکینِ وطن اور پولیس کے درمیان کشیدگی دوسرے دن بھی برقرار ہے جبکہ اسی مسئلے پر بات کرنے کے لیے ہنگری کے وزیراعظم تین یورپی ممالک کے حکام سے پراگ میں ملاقات کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ جمعرات کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے سٹیشن کو دو دن بند رکھنے کے بعد تارکینِ وطن کے لیے کھول دیا گیا تھا تاہم وہاں سے تارکین وطن کو لے کر روانہ ہونے والی ایک ٹرین کو بوڈاپیسٹ سے تقریباً 40 کلومیٹر دور مغرب میں بسکے کے مقام روک دیا گیا جہاں پر تارکین وطن کا سینٹر قائم کیا گیا ہے۔’تارکین وطن کا بحران دراصل جرمنی کا مسئلہ ہے‘ادھر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے شامی تارکینِ وطن کو پناہ دیے جانے کا اعلان آج متوقع ہے جبکہ آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کا کہنا ہےکہ تارکینِ وطن کی اموات روکنے کا واحد طریقہ کشتیوں کو روکنا ہی ہے۔برطانوی وزیراعظم جمعہ کو اسپین اور پرتگال میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیں جس میں تارکینِ وطن کا معاملہ بھی زیرِ غور آئے گا۔اطلاعات کے مطابق یورپی کمیشن کے حکام بھی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی یونان آمد کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے یونان کا دورہ کریں گے۔گذشتہ روز ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے خبردار کیا تھا کہ یورپ آنے والے بڑی تعداد میں مسلمان پناہ گزینوں سے یورپی بر اعظم کی عیسائی بنیادوں کو خطرہ ہے: ’ہم اپنے ملک میں بڑی تعداد میں مسلمان نہیں چاہتے۔‘جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ تارکین وطن کی یورپی ممالک میں منصفانہ تقسیم کی تجاویز تیار کریں گے۔خیال رہے کہ جرمنی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار ہے مگر دوسرے ممالک اس پر آمادہ نہیں۔اس سے پہلے ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ہنگری بغیر اندراج کے کسی تارکِ وطن کو اپنے ملک سے نہیں نکلنے دے گا۔ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہےخیال رہے کہ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال اس کے یہاں آٹھ لاکھ پناہ گزین پہنچیں گے جوگذشتہ سال سے چار گنا زیادہ ہیں۔افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن یورپ کا رخ کر رہے ہیں جس کے باعث یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔اٹلی اور یونان کا کہنا ہے کہ ان کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں تارکین وطن پہنچے ہیں جبکہ دیگر ممالک بشمول جرمنی بھی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم کئی ممالک بشمول برطانیہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔تارکین وطن کے بحران کے حل کے لیے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا اجلاس 14 ستمبر کو برسلز میں ہوگا۔