جنگ و جدل، ظلم و تشدد کے خاتمہ سے ہی وسیع تر اتحاد ممکن

فوٹو بشکریہ وائس آف امریکہ
فوٹو بشکریہ وائس آف امریکہ

اسنا کے صدر کے بقول، ’امریکی مسلمانوں کا سب سے بڑا چیلنج خواتین کو مسجدوں سے دور رکھنا ہے‘، جبکہ ’خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی کمیونٹی ترقی نہیں کرسکتی‘

شکاگو:(معیشت نیوز) اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ امریکہ میں مسلمانوں کی ایک باوقار اور با اثر تنظیم تصور کی جاتی ہے اس کا باونواں اجلاس شکاگو کے روز مونٹ شہر میں شروع ہو چکا ہے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی خبر کے مطابق اس اجلاس کے پہلے دن  مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر میں جنگ و جدل، ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے تمام کمیونٹیز کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔

اُنھوں نے یہ بات جمعے کی شام گئے ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ(اسنا)‘ کے سالانہ کنوینش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ اسنا کا باونواں کنوینشن شکاگو کے مضافاتی علاقے، روزمونٹ میں جاری ہے۔

اس موقع پر، جس میں شرکا کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، امریکہ میں ترکی کے سفیر نے ترک صدر رجب طیب اردگان کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا؛ جب کہ شکاگو کے میئر کا بھی ایک خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔

اسنا کے صدر اظہر عزیز نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کنوینشن کا اس سال کا موضوع حالات کی نوعیت سے عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ہم مسلمانوں کی کامیابیوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کے بارے میں ہر طرح کے منفی تاثر کا ماحول عام ہے۔

بقول اُن کے، ’مسلمانوں کے بارے میں زیادہ تر میڈیا کوریج جو آپ سنتے اور دیکھتے ہیں وہ منفی ہوتا ہے۔ اس لیے، اُس کی کامیابی کی کہانیاں دب کر رہ جاتی ہیں، حالانکہ امریکہ میں بسنے والے مسلمان کئی نسلوں سے ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں، اظہر عزیز نے کہا کہ اُن کے نزدیک، امریکی مسلمانوں کا سب سے بڑا چیلنج خواتین کو مسجدوں سے دور رکھنا ہے، جب کہ، اُن کے بقول، ’خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی کمیونٹی ترقی نہیں کرسکتی‘۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ امریکہ میں 11 ستمبنر 2001ء کے بعد، مسلمان برادری میں کیا تبدیلی آئی ہے، تو اُنھوں نے بتایا کہ ’اُس سے پہلے، امریکہ میں زیادہ تر لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھی۔ مگر اُس کے بعد، مسلمان کمیونٹی کو بہت توجہ ملنے لگی، جب کہ اُس وقت تک ہمیں خود معلوم نہیں تھا کہ اپنے مذہب اور شناخت کی ہم کیسے نمائندگی کریں‘۔

’اس عمل کا مثبت پہلو یہ ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد ہمارے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی برادریوں کے ساتھ روابط بڑھے اور تعلقات زیادہ مضبوط ہوئے‘۔

چار روزہ کنوینشن کے دوران، مسلمان ممالک کو درپیش مسائل اور مسلمان اقلیتوں کے مسائل پر بھی بات ہوگی، جن کے لیے متعدد نشستیں اور تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *