میں منزل پر اکیلا ہوں ….
از سید نجیب الحسن زیدی
مرے ماں باپ نے سوچا کہ اچھی زندگی ہوگی
چلے جائیں گے یورپ میں تو ہر سو روشنی ہوگی
یہی کچھ سوچ کر مجھکوبھی اپنے ساتھ میں لیکر.
نہ جانے خواب کتنے آنکھوں میں لیکر
انہوں نے جلتے لٹتے اپنے ملکِ شام کو چھوڑا
جمع پونجی سمیٹی اور پھر رختِ سفر باندھا
بنا کر ناؤ امیدوں کی اپنے چل دئیے ہم سب
مجھے سب یاد ہے کیسے
مری ماں نے مری ہر چیز کو اچھے سے رکھا تھا
مرے کپڑوں کا وہ چھوٹا سا بستہ اور
مرے ہاتھی مرے گھوڑے مری چڑیا مرے طوطے
مرے سارے کھلونے ماں نے میرے سامنے رکھے
وہ میری دودھ کی بوتل،وہ میری ٹافیاں بسکٹ…
مرا وہ بھاگنے والا ٹرک
وہ چلنے والی چابی سے ُپلیس کی کار
وہ “کوکو” کر کے سرپٹ دوڑنے والا مرا انجن
وہ میری پٹریاں
وہ میری ریل کے ڈبے …
وہ میری ڈاکٹر والی ڈریس اور میرا انجکشن
سبھی کچھ
بیگ میں رکھا تھا
میرے سامنے ماں نے
مگر یہ کیا کہ نہ میرے کھلونے دکھتے ہیں مجھکو مرے کانوں میں ,,ائے”ایلان” ادھر آؤ نہیں شیطانی یوں کرتے،،…
کی ہمیشہ آنے والی جلترنگ آواز
ماں کی اب نہیں آتی
وہ پورا بیگ آخر کیا ہوا جس میں کھلونے تھے
کہاں ہے ماں وہ میری جو کبھی چھپ جاتی تھی مجھ سے
مگر میں ڈھونڈ لیتا تھا …
نہ میری ماں ہے میرے پاس نہ ہی بابا دکھتے ہیں نظر آتا ہے بس دریا
کہ جسکی موجیں ساحل پر
پہنچ کر سرپٹختی ہیں
کوئی جا کر مری ماں سے بتا دیتا
کہاں ہو تم
کہ مجھکو مل گیا ساحل
میں منزل پر اکیلا ہوں …..