Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ہماری ثقافت پر مغرب زدہ میڈیاکی یلغار

by | Sep 5, 2015

Social Media1

سید فرقان حیدرگردیزی

ٹیکنالوجی کی دوڑ نے دنیا کی شکل کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔جنگ،نیزہ،تلوار،بم،دھماکے،ہتھیار یہ سب ٹیکنالوجی کی خوفناک ترین شکلیں ہیں جو اب بھی دنیا میں موجود ہیں اوردنیا کوتہہ و بالا کررہی ہیں۔لیکن ساتھ ہی ساتھ طاقتورقوموںکی طرف سے ایک اورایسی جنگ بھی چھیڑدی گئی ہے جو بندوق تو نہیں اٹھاتی لیکن پھر بھی بڑی کامیابی سے لڑی جارہی ہے اور یہ جنگ یقیناً زیادہ خطرناک ہے۔یہ قوموں کے نظریات تبدیل کررہی ہے اور یوں مغلوب اور کمزورقوموں کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔اس جنگ نے قوموں کے نظریات،ان کی اقدار حتیٰ کہ ان کے اعمال تک بدل دیے ہیں۔وہی فعل جو قابل اعتراض تھا قابل فخربنتا جا رہا ہے بلکہ میں توکہوں گا کہ اس نے مذہب تک کو نہیں چھوڑا کہ جو افعال مذہب میں قابل اعتراض تھے ان کویوں عام کر دیا جیسے وہ کبھی قابل اعتراض تھے ہی نہیں۔میڈیا کی دوڑ نے اگر جغرافیائی سرحدیں نہیں مٹائی تو نظریاتی سرحدوں کو ایک ایسادھچکا ضرور لگا دیا ہے کہ اب تو خوف آتا ہے ۔آج کل ٹیلی ویژن پر جو طوفان فحاشی مچا ہوا ہے اُس نے تو معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔صلاح الدین ایوبی کا قول ہیکہ ’’اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اُس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو‘‘۔مختلف ٹی وی چینلز پرانتہائی مغرب زدہ لباس میں ملبوس خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو دکھا کر کون سی نوید سُنائی جا رہی ہے؟لباس کسی بھی معاشرے کی اولین پہچان ہے ۔اسلام میں لباس کا مقصد زیب وزینت اور سترپوشی دونوں ہے اور یوں ایک باحیاء اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا مقصدپوراکرناہے لیکن ہمارے آج کے ’’مغرب زدہ میڈیا‘‘ نے جہاں اورکئی قومی معاملات میں قومی وقار کی دھجیاں بکھیر دی ہیںوہیں اپنے لباس کو مذاق بنا کر تار تار کر دیا ہے۔

آخر ہماری حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے ،عدالتیں کیوں اس پر خاموش ہیں؟کیا یہ عام آدمی کی دلچسپی کی بات نہیں ہے یاقومی اہمیت کی نوعیت کا معاملہ نہیں ہے؟کیا ہم نے ثقافتی جنگ میں اپنی شکست بھی تہہ دل سے مان لی ہے؟ہم تو اپنے بچوں کو کارٹون کے نام پر وہ کچھ دکھا رہے ہیںاس کا نہ تو ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے ،نہ اقدار سے اور نہ اخلاق سے۔فیشن شوز سٹیج پر ہوں تو ایک مخصوص طبقہ ہی دیکھتا ہے لیکن ہمارا میڈیا ان بے ہودہ ملبوسات کو پورے ملک کے سامنے کردیتا ہے اور ان کی شان میں جو تعریفی کلمات بولے جاتے ہیں ان کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ہر لباس کو مشرق ومغرب کا حسین امتزاج کہہ کر معلوم نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہر ٹی وی چینل پر بالی ووڈ کی بے ہودہ ثقافت کی یلغار دکھائی دیتی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہیکہ ہم مسلم سماج میں ایسا کلچر عام کررہے ہیں جو ہماری عزتوں اور جانوں کا سب سے بڑادشمن ہے۔وہ سماج جو ہمارے ٹی وی چینلز کو اپنے اداروں میں چلنے نہیں دیتا ہم بڑے فخر کے ساتھ اُسی کے ٹی وی چینلز اپنےگھروںمیں کھلے عام چلا رہے ہیں اور بے حیائی اورفحاشی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیبلز آپریٹرزکی طرف سے چلنے والے ایسے تمام سی ڈی چیلنز پر بھی فوری پابندی عائد کی جائے جن پر مخصوص سماج کے گانے ہمہ وقت نشرکئے جاتے ہیں۔ایک طرف مسلمان کسمپرسی کی زندگی جی رہا ہے اور دوسری طرف ہم بڑے ڈھٹائی کے ساتھ اپنےگھروں میںبالی ووڈ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔اب تو بات یہاں تک آ چکی ہیکہ ہمارے نوجوان اپنی اردو زبان کو چھوڑ کرمغربی زبان بولنے لگ گے ہیں۔یہ سب کچھ میڈیا کی بدولت ہی ہورہا ہے۔ہمارے پورے معاشرے ہیں اس وقت مغربی کلچررس بس گیا ہے۔

ہم مسلمان ہیں اور ہماری ثقافت اسلام ہے۔آج کتنے ٹی وی چینلز اسلام سے متعلق پروگرامز چلا رہے ہیں؟اسلامی پروگرامز تونہ ہونے کے برابر ہیں۔آج کے نوجوان سے اگراسلامی تہواروںاور دیگر اسلامی ایام کے بارہ میں پوچھا جائے تو بتانے سے قاصرہے اور اگر انہیں نوجوانوں سے ویلٹائن ڈے یا کسی اورمغربی دن کے حوالہ سے پوچھا جائے تو وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہسٹری بتا دیں گے۔یہ بھی صرف میڈیا ہی کی وجہ سے ہے کیوں کے جب مغربی دن منانے کی باری آتی ہے تو ٹی وی چینلز پر ایک مہینہ قبل ہی اُس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرامز نشرکرنا شروع کردیے جاتے ہیں۔اور ان پروگرامز میں اُس دن کے حوالہ سے پوری پوری تفصیلات بتائی جاتی ہیں اور اُس دن کو منانے کے بے ہودہ طریقے بھی دکھائے جاتے ہیں اور جب کبھی کوئی اسلامی دن جیسے شب معراج،لیلۃ القدر،شب برات کا وقت آتا ہے تو ہمارے ٹی وی چینلز پر اس حوالہ سے کوئی خاص پروگرام نشر نہیں کیا جاتا ۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں چند ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک کے حوالہ سے خصوصی پروگرامز نشر کئے جاتے ہیں اور ان پروگرامز میں سے اکثرپروگرامز ایسے ہوتے ہیں جن کی میزبانی وہ خواتین و حضرات کر رہے ہوتے ہیں جو خوداسلامی معلومات سے کوسوں دور ہیں۔خاص طور پروہ خواتین جو ان پروگرامز کی میزبانی کررہی ہوتی ہیں اُن کا انداز گفتگو،لباس کسی طور پربھی اسلامی ثقافت کی نمائندگی نہیں کررہا ہوتا۔

کیا میڈیا آزادہونے کا یہ مطلب ہیکہ میڈیاہم سے ہماری پہچان ہی چھین لے؟ہرقوم کی پہچان اُس کی ثقافت سے ہوتی ہے اور ہمارا مغرب زدہ میڈیا ہماری پہچان ہی ختم کرتا جا رہاہے۔بہرحال میڈیا تو یہ سب کرہی رہا ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری توحکومت کی ہے کہ اگر وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے تو معاشرے کو بٹنے سے روک دے ورنہ ہم شدت پسندی کی جس آگ میں جل رہے ہیں اُس میں مزید اضافہ ہوگا۔ہم اپنی قومی شناخت بھی مکمل طور پر کھو دیں گے۔عدالتیں بھی جہاں کئی اداروں کو کئی باتوں کے لئے پابند کرتی ہیں وہیں اگر وہ میڈیا کو بھی ایک ضابطہ اخلاق کا پابند کر دے تو شائد ہم حرص،لالچ،بناوٹ اور بے روی کے مسائل پر قابو پالیں گے۔

رابطہ کے لئے furqan.shah83@gmail.com

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...