Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

جرمن چانسلر کے مطابق مہاجرین کی آمد سے ملک کا بجٹ متاثر نہیں ہوگا

by | Sep 6, 2015

جرمنی اور ہنگری کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سے آنے والے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کیے جانے والے انتظامات کا مقصد بحرانی صورتحال سے بچنا تھا اور اس رعایت کو مستقبل کے لیے مثال نہ سمجھا جائے۔

جرمن حکومت کی جانب سے یہ بات سنیچر کو ہزاروں پناہ گزینوں کی جرمنی آمد کے بعد کہی گئی ہے اور حکام کا کہنا ہے مستقبل میں پناہ گزینوں کو اسی یورپی ملک میں پناہ طلب کرنی ہوگی جہاں وہ سب سے پہلے پہنچیں گے

ایک مشکل اور دشوار گزار سفر طے کرنے کے بعد ہنگری اور آسٹریا کے راستے پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے پہلے گروپ کی جرمنی آمد کا سلسلہ سنیچر کو رات گئے مکمل ہوا جہاں انھیں ہنگامی رجسٹریشن مراکز میں لے جایا گیا ہے۔

ادھر سنیچر کی شب تک ہنگری سے سرحد عبور کر کے دس ہزار پناہ گزین آسٹریا میں داخل ہو چکے ہیں اور رات گئے آسٹریا کی سرحد سے دارالحکومت ویانا تک آخری ٹرین کی روانگی کے بعد آسٹریئن حکام نے کہا ہے کہ وہ اتوار کو مزید ٹرینیں چلائیں گے۔

خانہ جنگی اور تشدد سے تنگ آ کر اپنا گھر بار چھوڑنے والے ان تارکینِ وطن کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور یورپی یونین کے رکن ممالک ان کی کثیر تعداد کے پیش نظر کسی حل تک پہنچنے سے اب تک قاصر رہے ہیں۔

جرمنی کا کہنا ہے کہ اس کے یہاں رواں برس آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔

جرمن چانسلر آنگیلا مرکل نے کہا ہے کہ مہاجرین کی آمد سے عوام پر نہ تو ٹیکس بڑھائے جائیں گے اور نہ ہی ملک کا بجٹ متاثر ہوگا۔

تاہم ان کے ایک ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ سنیچر کو آنے والے پناہ گزینوں کو جرمنی آنے کی اجازت دینے کی وجہ بحران پیدا ہونے سے بچنا تھا اور جرمنی اور ہنگری دونوں اب سے یورپی یونین کے اس قانون کی پاسداری کریں گے جس کے تحت پناہ گزینوں کو اسی یورپی ملک میں پناہ طلب کرنی ہوگی جہاں وہ سب سے پہلے پہنچیں گے۔

برلن میں بی بی سی کی نامہ نگار جینی ہل کے مطابق انھوں نے بتایا کہ جرمن چانسلر نے ہنگری کے وزیرِ اعظم سے فون پر بات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ سنیچر کو یورپی یونین کے قانون کی معطلی صرف ایک بار دیا گیا استثنیٰ اور رعایت تھی اور مستقبل میں دونوں ممالک اس قانون کے تئیں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

خیال رہے کہ ہنگری میں کئی دن سے موجود پناہ گزین اور تارکینِ وطن وہاں خود کو پناہ کے لیے رجسٹر کروانے سے انکاری تھے جس کے بعد مغربی یورپ کے لیے عازمِ سفر ان افراد کو حکام نے ٹرین کے سفر سے روکا ہوا تھا۔

اس تعطل کی وجہ سے مشتعل افراد نے مظاہرے بھی کیے تھے اور اکثر آسٹریا کی سرحد کی جانب 175 کلومیٹر کے سفر پر پیدل روانہ ہوگئے تھے۔

تاہم پھر ہنگری کے حکام نے جمعے کی شب انھیں بسیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ لوگ آسٹریا کی سرحد اور پھر وہاں سے دارالحکومت ویانا پہنچے جہاں سے اکثریت مغربی جرمنی کے شہر میونخ کے لیے روانہ ہوئی۔

اطلاعات کے مطابق جمعے کو دیر گئے کئی دنوں سے تارکینِ وطن کا عارضی کیمپ بنے ہوئے مرکزی بوڈاپیسٹ کے کیلیٹی سٹیشن پر بسوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آسٹریا جانے والی شاہراہ کے لیے بھی بسیں روانہ کی گئیں۔

پناہ گزینوں کے ہمراہ سفر کرنے والے بی بی سی کے نامہ نگار میتھیو پرائس کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن میں اس بات کا خوف زیادہ تھا کہ انھیں جرمنی بھیجنے کی بجائے گرفتار کر لیا جائے گا اور انھیں قطعی یقین نہیں تھا کہ انھیں سرحد تک بھیجنے کے لیے بسیں فراہم کی جائیں گي۔

ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے بسیں اس لیے روانہ کی ہیں تاکہ ملک میں نقل و حمل کا نیٹ ورک مفلوج نہ ہو تاہم ملک کی پولیس کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ بسیں دینے کا فیصلہ صرف ایک بار کا تھا اور اب پناہ گزینوں کو اس طرح کی کوئی مدد نہیں ملےگی۔

آسٹریا کے چانسلر ورنر فیمین نے کہا ہے کہ جرمنی کی ہم منصب انگیلا میرکل سے گفتگو کے بعد دونوں ممالک نے ہنگری کی سرحد پر ہنگامی حالات کے پیش نظر تارکینِ وطن کو اپنے ممالک میں داخلے کی اجازت دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہنگری کو یورپی یونین کی جانب سے پناہ گزینوں کے کوٹے کی پاسداری کرنی چاہیے۔

واضح رہے کہ جمہوریہ چیک، پولینڈ اور سلوواکیا کے ساتھ ہنگری نے یورپی یونین کی جانب سے تمام ممالک کے لیے پناہ گزینوں کے لیے مختص کوٹے کو مسترد کر دیا ہے۔

ہنگری ان ممالک میں سے ہے جن کا خیال ہے کہ پناہ گزینوں کو رکھنے کے مستقل نظام کی وجہ سے مزید افراد یورپ پہنچنے کے لیے اپنا جان خطرے میں ڈالیں گے۔

خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں جاری جنگ اور ظلم و جبر سے تنگ آکر شمال اور مغربی یورپ کے لیے عازم سفر تارکینِ وطن کے لیے ہنگری ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر سامنے آيا ہے۔

گذشتہ روز ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے خبردار کیا تھا کہ یورپ آنے والے بڑی تعداد میں مسلمان پناہ گزینوں سے یورپی براعظم کی عیسائی بنیادوں کو خطرہ ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...